کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے دھڑے جماعت الاحرار نے اپنی عسکری اور سیاسی شوریٰ کے اہم رکن کمانڈر قاری شکیل کی افغانستان میں ایک کارروائی کے دوران ہلاکت کی تصدیق کر دی

ہفتہ 14 مارچ 2015 08:59

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔14 مارچ۔2015ء )کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے دھڑے جماعت الاحرار نے اپنی عسکری اور سیاسی شوریٰ کے اہم رکن کمانڈر قاری شکیل کی افغانستان میں ایک کارروائی کے دوران ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔جماعت الحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان نے نامعلوم مقام سے بی بی سی کو ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران تصدیق کی کہ قاری شکیل اور ان کے ایک ساتھی ڈاکٹر طارق علی جمعرات کو افغانستان کے صوبے ننگرہار میں ایک کارروائی کے دوران مارے گئے ہیں۔

انھوں نے دونوں کمانڈروں کی ہلاکت کا الزام پاکستان کے خفیہ اداروں پر لگایا۔ تاہم ابھی تک سرکاری طور پر اس حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا ہے اور نہ سرکاری ذرائع سے اس الزام کی تصدیق کی جا سکی ہے۔

(جاری ہے)

کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمان محمد خراسانی نے بھی جمعرات کو ایک بیان میں کمانڈر قاری شکیل، ڈاکٹر طارق علی کے علاوہ ان کے دو دیگر ساتھیوں کی ہلاکت کی بھی تصدیق کی ہے۔

تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ افراد کہاں اور کیسے مارے گئے ہیں۔تحریک طالبان پاکستان ، جماعت الاحرار اور خیبر ایجنسی میں شدت پسندوں کی تنظیم لشکر اسلام نے انضمام کا فیصلہ کیا ہے،پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ سے تعلق رکھنے والے شکیل احمد حقانی عرف قاری شکیل کا شمار تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار کے اہم کمانڈروں میں ہوتا تھا۔

ان پر مہمند ایجنسی میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے بڑے حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا جاتا رہا تھا۔گذشتہ سال فروری میں جب حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا تو قاری شکیل طالبان کی طرف سے بنائی گئی کمیٹی کے رکن تھے۔ وہ کمانڈر عمر خالد کے نائب بھی رہ چکے ہیں۔دریں اثنا تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان محمد خراسانی کی جانب سے ذرائع ابلاغ کو ایک بیان جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان، جماعت الاحرار اور خیبر ایجنسی میں شدت پسندوں کی تنظیم لشکر اسلام نے اتحاد قائم کر کے تحریک طالبان پاکستان کے نام پر ایک ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔

پاکستانی فوج طالبان کے خلاف آپریشن ضربِ عضب جاری رکھے ہوئے ہے،بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ تینوں تنظیموں کے سربراہان ملا فضل اللہ، عمر خالد خراسانی اور منگل باغ نے ایک مشاورتی اجلاس میں کیا ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان تینوں تنظیموں نے ایسے وقت میں انضمام کا فیصلہ کیا ہے جب پاکستانی فوج کی طرف سے ان کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ماضی میں یہ تینوں تنظیمیں ایک دوسرے کی مخالف رہی ہیں اور یہ ایک دوسرے پر سنگین نوعیت کے الزامات بھی لگاتی رہی ہیں۔ تاہم اب ان تنظیموں کے اتحاد سے بظاہر لگتا ہے کہ انھیں سکیورٹی فورسز کے آپریشن کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا ہے اور وہ اتحاد میں ہی اپنی بقا سمجھتی ہیں۔