الطاف حسین کے حوالے سے اہم دستاویزات بر طا نیہ کے حوالے کر دیں ، سرتاج عزیز،الطاف حسین کے خلاف کارروائی کیلئے برطانیہ کو باضابطہ طور پر کوئی درخواست نہیں کی،چوہدری نثار

جمعہ 20 مارچ 2015 08:28

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔20 مارچ۔2015ء) وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ الطاف حسین سے متعلق تمام دستاویزات برطانوی ہائی کمشنر کو دے دی گئی ہیں۔ سزائے موت سمیت عمر قید میں اضافہ کے لئے نظرثانی کی ضرورت ہے۔ پاکستان پشاور سے کابل تک موٹروے بنائے گا۔ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد ریلوے ٹریک بھی بنایا جائے گا۔

پاکستان افغانستان میں کوئی پراکسی وار نہیں کر رہا ، افغان حکومت اور طالبان کے مذاکرات میں پاکستان کا کردار سہولت کار کا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں افغانستان کے حوالے سے کانفرنس سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ الطاف حسین کا معاملہ وزارت داخلہ سے متعلق ہے گزشتہ روز وزیر داخلہ اور برطانوی ہائی کمشنر کے درمیان ملاقات ہوئی ہے اور الطاف حسین سے متعلق تمام اہم دستاویزات برطانوی ہائی کمشنر کے حوالے کر دی گئی ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پاک افغان تعلقات میں پہلے سے زیادہ بہتری ہے۔ پاک افغان سرحدوں پر سیکیورٹی کی صورتحال بہتر ہے۔ پاک افغان تجارت پر غور کر رہے ہیں اور اس حوالے سے پاکستان پشاور سے کابل تک موٹروے بنائے گا اور موٹروے کے علاوہ پاک افغان کو ریل ٹریک کے ذریعے بھی منسلک کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کو ملانے کے لئے طورخم اور چمن کے علاوہ بھی راستے بنائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں معاشی عمل کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ بیرونی مداخلت کی وجہ سے افغانستان کا امن تباہ ہوا بیرونی مداخلت بند ہو جائے تو افغانستان میں امن و سلامتی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغان طالبان اور حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔ مذاکرات کا عمل ابتدائی مراحل سے گزر رہا ہے امید ہے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے موثر نتائج نکلیں گے۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن کی حمایت جاری رکھے گا اور افغان حکومت کو بھی چاہئیے کہ دونوں فریقین جلد از جلد مذاکرات کے بنچ پر آجائیں۔ پاکستان میں دہشتگردی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ آپریشن ضرب عضب کے موثر نتائج سامنے آ رہے ہیں اور شمالی وزیرستان سے تمام دہشتگرد گرپوں کا خاتمہ کر لیا ہے۔

آپریشن ضرب عضب سے دہشتگردوں کی کمر ٹوٹی ہے سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ سزائے موت پر نظر ثانی کی ضرورت ہے لیکن عمر قید میں بھی اصافہ ہونا چاہئے امریکہ سمیت کئی ممالک میں عمر قید کی سزا 25 سال مقرر ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یورپی یونین کا سزائے موت پر نقطہ نظر اپنا ہے اور پاکستان کا اپنا ہے ہر ملک کا پھانسی کی سزا پر نقطہ نظر ایک دوسرے سے مختلف ہے۔

تاپی منصوبے کے حوالے سے سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ خطے میں گیم چینجر ثابت ہو گا۔ تاپی منصوبے سے خطہ میں معاشی انقلاب برپا ہو گا۔ تاپی منصوبے کے تحت افغانستان کے راستے پاکستان اور بھارت کو گیس کی فراہمی ممکن ہو گی اس کے علاوہ بھی افغانستان‘ پاکستان‘ تاجکستان اور کرغستان کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ کو بھی فروغ دینے کے لئے غور کیا جا رہا ہے ٹرانزٹ ٹریڈ سے 4 ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے گی۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی اس خبر کی تردید کی ہے کہ پاکستان نے کراچی کے حوالے سے برطانیہ سے رابطہ کیا ‘ صولت مرزا کی صحت ٹھیک نہ ہونے پر ان کی پھانسی آگے بڑھائی گئی جب کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف کارروائی کے لئے برطانیہ کو باضابطہ طور پر کوئی درخواست نہیں کی تاہم برطانوی ہائی کمشنر سے سیکیورٹی فورسز اور آرمی کے خلاف بیانات پر ضرور بات ہوئی ہے، ایک بے گناہ کا قتل خواہ وہ غیر ملک میں ہو وہ پاکستانی ہے اور اس کے متعلق جو ثبوت ہو وہ مہیا کرنا حکومت کا فرض ہے۔

قومی اسمبلی اجلاس میں پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ شفقت حسین کا فیصلہ 36 گھنٹوں میں متوقع ہے تو اس کے خلاف ہمیں ثبوت فراہم کیا جائے۔ سندھ حکومت کے ریکارڈ کے مطابق 2004ء میں جب شفقت حسین جیل میں گیا تو میڈیکل رپورٹ کے مطابق ان کی عمر 23 سال تھی‘ تحریری طور پر ہمیں لکھا گیا کہ ہم ڈی این اے نہیں کروا سکتے ہیں‘ 2012ء تک کا ریکارڈ درست ہے کہ نہیں وہ وزارت داخلہ کی ذمہ داری نہیں ہے وزیر اعظم کی ہدایت پر صدر پاکستان نے وزارت داخلہ کی درخواست پر رات گئے دونوں مختلف کیسز ہونے کے باوجود دونوں کی سزائے موت میں 72 گھنٹے کی توسیع کر دی گئی ہے۔

نائن زیرو کے واقع پر دائیں اور بائیں جانب کے پارلیمنٹرین جب چاہیں وضاحت کیلئے تیار ہوں۔چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ برطانوی ہائی کمشنر سے ملاقات ہوئی تھی جس میں کراچی کے معاملات پر بات ہوئی تاہم ملاقات کے د وران الطاف حسین کے خلاف کسی کارروائی کی درخواست نہیں کی جب کہ ملاقات میں عمران فاروق قتل کیس پر بات ہوئی جس کی پیروی کرنا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے اور چاہتے ہیں کہ قاتلوں کو سزا ملے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں آپریشن کے باوجود دہشت گردی میں 5 فیصد اضافہ ہوا تاہم شہر قائد میں ٹارگٹ کلنگ میں 57 اور قتل میں 36 فیصد کمی واقع ہوئی جب کہ شہر میں بھتا خوری میں 37 فیصد اور ڈکیتی کی وارداتوں میں 24 فیصد واضح کمی ہوئی ہے۔وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ آج تختہ دار پر لٹکائے جانے والے مجرم صولت مرزا اور شفقت حسین کی پھانسی 72 گھنٹے کے لئے موخر کی گئی ہے جب کہ صولت مرزا کی صحت ٹھیک نہ ہونے پر پھانسی آگے بڑھائی گئی اور شفقت حسین کی پھانسی رکوانے کے لئے وزارت داخلہ نے درخواست کی۔

چویدری نثار نے ایوان کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں 3 ہزار 362 افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے جن کے قبضے سے 5 ہزار 652 کی تعداد میں اسلحہ برآمد کیا گیا ہے جب کہ 3600 جعلی اسلحہ لائسننز بھی پکڑے گئے ہیں۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورسید شاہ نے کہا کہ پاکستان بیت المال کا کردار بہت اہم ہے۔ اب تک بیت المال 750 میڈیکل کیسز کر چکا تھا 2008ء سے پہلے کوئی سوچ ہی نہیں سکتا تھا کہ اس میں لوٹ کی فضا بنی ہوئی تھی لیکن زمرد خان نے اس کو بہتر ادارہ بنا کر دیا اور آج وہ بہتر طریقے سے کام کر رہا ہے اس لئے حکومت اس کے فنڈز کو جتنا بڑھا سکتی ہے بڑھائے۔

موجودہ چیئرمین بیت المال کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے اس کو مزید بہتر کیا ہے۔ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے توجہ دلاؤ نوٹس پر کہا کہ پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ لاجز کے اختیارات سی ڈی اے کے پاس نہیں بلکہ قومی اسمبلی کے پاس ہونے چاہئیں اور پارلیمنٹ لاجز کا نظام و انتظام بھی قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ کو دیکھنا چاہئے۔

جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ سی ڈی اے نے چیئرمین اور دیگر متعلقہ اداروں کے نمائندوں کو بلا کر ایک میٹنگ کی جائے جس میں سی دی اے کو بتایا جائے کہ وہ اپنے ملازمین کو اسمبلی سے لے جائیں ۔اس پر وزیر مملکت شیخ آفتاب نے کہا کہ 24 تاریخ کو جو میٹنگ اسپیکر نے کال کی ہے اس میں ہم شریک ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ لاجز کی حالت زار واقع خراب ہے اور اس پر سی ڈی اے سے میٹنگ کرنا ضروری ہے۔