تیونس، عجائب گھر حملہ، 6 اعلیٰ سکیورٹی عہدے دار برطرف

منگل 24 مارچ 2015 10:26

تیونسیا (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔24 مارچ۔2015ء)تیونس کے وزیراعظم حبیب الصید نے دارالحکومت میں معروف عجائب گھر پر مسلح دہشت گردوں کے حملے کے بعد چھے اعلیٰ سکیورٹی عہدے داروں کو برطرف کردیا ہے۔ان میں سیاحوں کی سکیورٹی کے ذمے دار ادارے کا سربراہ بھی شامل ہے۔تیونسی حکومت کے ترجمان مفدی مسدی نے سوموار کو ایک بیان میں بتایا ہے کہ برطرف کیے گَئے عہدے داروں میں انٹیلی جنس بریگیڈز کا سربراہ ،تیونس کا ڈسٹرکٹ پولیس چیف ،ٹریفک پولیس کا کمانڈر ،باردو کا سکیورٹی سربراہ اور دارالحکومت کے علاقے سیدی بشیر کا کمانڈر شامل ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ ''وزیراعظم حبیب الصید نے گذشتہ روز (اتوار کو) کو باردو عجائب گھر کا دورہ کیا تھا اور وہاں سکیورٹی کی ناکامیوں کا جائزہ لیا تھا''۔

(جاری ہے)

صدر الباجی قائد السبسی نے بھی سکیورٹی کی ناکامی کو عجائب گھر پر دہشت گردوں کے حملے کی بڑی وجہ قرار دیا تھا۔صدرالسبسی نے اتوار کو فرانسیسی ٹیلی ویڑن کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ ''دارالحکومت میں گذشتہ بدھ کو معروف عجائب گھر پر حملے میں ملوّث تیسرا مشتبہ حملہ آور ابھی تک مفرور ہے۔

اس حملے میں دو نہیں، تین افراد ملوّث تھے۔نگرانی کے کیمروں سے ان کی فلم بنی تھی اور ان کی شناخت کرلی گئی ہے۔ان میں سے دو حملہ آور مارے گئے تھے اور تیسرا مفرور ہے لیکن وہ بچ نہیں سکے گا''۔ان تینوں مسلح حملہ آوروں نے باردو میوزیم کے باہر بسوں سے اترنے والے غیر ملکی سیاحوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی تھی اور اس کے بعد وہ اس کے اندر داخل ہوگئے تھے اور وہاں بھی انھوں نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں اکیس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

تیونسی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں دو حملہ آور مارے گئے تھے اور تیسرا وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔تیونس کی وزارت داخلہ نے اس حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے ایک مشتبہ شخص کی شناخت کا دعویٰ کیا ہے اور اس کی دو تصاویر فیس بْک پر جاری کی ہیں۔دولت اسلامی عراق وشام (داعش) سے وابستہ جنگجووٴں نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔تیونسی حکام کا کہنا ہے کہ باردو میوزیم پر حملے کے دوران مارے گئے دونوں مسلح افراد نے پڑوسی ملک لیبیا میں جہادی کیمپوں میں تربیت حاصل کی تھی۔

واضح رہے کہ تین ہزار سے زیادہ تیونسیوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ گذشتہ چار سال کے دوران شام اور عراق میں لڑائی کے لیے گئے ہیں اور وہ داعش سمیت مختلف جنگجو گروپوں میں شامل ہو کر لڑرہے ہیں۔ان میں سیکڑوں واپس بھی آ چکے ہیں۔تیونس سے نوجوان لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد بھی عراق اور شام گئی تھی اور انھوں نے وہاں مبینہ طور پر داعش کے جنگجووٴں سے شادیاں رچا رکھی ہیں۔

متعلقہ عنوان :