پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ نے ایک ارب 86 کروڑ کے فنڈز ریسرچ کی بجائے سرمایہ کاری پر لگا دیئے،حکومت بھاری رقوم کا منافع کھانے والوں کی تحقیقات کرے،آڈٹ رپور ٹ

پیر 30 مارچ 2015 09:38

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔30 مارچ۔2015ء) پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ نے ایک ارب 86 کروڑ روپے ریسرچ پر خرچ کرنے کے بجائے کمرشل بینکوں میں غیر قانونی طور پر سرمایہ کاری پر لگا دیئے۔ پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ نے سرمایہ کاری پر آنے والے منافع کو بھی اپنی عیاشیوں پر اڑا دیئے ہیں۔ یہ انکشاف آڈیٹر جنرل کی ایک رپورٹ میں کیاگیا ہے۔ خبر رساں ادارے کو ملنے والی یہ آڈٹ رپورٹ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ مالیکیول بائیولوجی لیبارٹری کو دیئے گئے اربوں روپے فنڈز پر تیار کی گئی ہے جس میں بے انتہا مالی بدعنوانیوں اور مالی بد انتظامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے‘ رپورٹ کے مطابق حکومت نے بائیومالیکیول لیبارٹری میں ریسرچ کیلئے اربوں روپے کے فنڈز دیئے گئے ۔

یہ فنڈز ریسرچ پر خرچ کرنے کی بجائے (سی ای ایم پی) انتظامیہ (ٹی ڈی آر) ایوسمنٹ بانڈز، یہ سرمایہ کاری زیادہ تر الائیڈ بینک ‘ حبیب بینک لمیٹڈ میبں بارہ مختلف اکاؤنٹس سے نکلوا کر کی گئی۔

(جاری ہے)

ان کمرشل بینکوں میں 43 کروڑ روپے 2011 ء سے کسی بھی منصوبہ میں خرچ کرنے کے بجائے بینکوں کے استعمال کیلئے پڑی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ نے آڈٹ حکام کو بتایا کہ یہ اقدام سرپلس سیونگ فنڈز سے تعلق نہیں رکھتی اس لئے واپس حکومت کے خزانہ میں جمع کرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ فنڈز جی پی ایف بی ایف اور پنشن فنڈز میں انتظامیہ کے منطابق فکسڈ ڈیپازٹ فنڈز کو سرمایہ کاری پر لگانے کا اختیار یونیورسٹی کو حاصل ہے۔

وزارت خزانہ کے قانون کے مطابق صرف بیس فیصد فنڈز اگر سرپلس ہوں تو کسی بینک میں ڈیپازٹ کرائے جاسکتے ہیں اور اس کیلئے بھی وزارت خزانہ سے اجازت لینا ضروری ہے ۔ تاہم پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ نے بھاری سرمایہ کاری کرنے بارے وزارت خزانہ سے اجازت لینے کی زحمت گوارا بھی نہیں کی آڈٹ حکام نے یونیورسٹی انتظامیہ کا جواب مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرمایہ کاری بارے مناسب ریکارڈ نہ رکھنے اور منافع بارے آڈٹ حکام کو ریکارڈ فراہم نہ کرنے والوں کے خلاف مجرمانہ کارروائی کی جائے جبکہ بینکوں سے ہونے والے معاہدوں بارے بھی آڈٹ حکام کو آگاہ کیا جائے۔

آڈٹ حکام نے ہائر ایجوکیشن اور وزارت خزانہ کو سفارش کی ہے کہ پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف انکوائری کرکے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے اور بینکوں میں کی گئی سرمایہ کاری پر آنے والے منافع بارے آگاہ کیا جائے۔