مشیر خارجہ سعودی،ایران تنازعہ اور پاک بھارت تعلقات پر منگل کو ان کیمرہ بریفنگ دیں گے،حکومت آزادی رائے پر پابندی لگا رہی ہے،ٹی وی اینکرز کو جرمانے کئے گئے، شفقت محمود،حکومت پارلیمنٹ کو کوئی اہمیت نہیں دے رہی،شیریں مزاری،اقتصادی راہداری پر حکومت یکطرفہ کام کررہی ہے،بلوچستان اور کے پی کے کو اعتماد میں نہیں لیا جا رہا گلگت بلتستان کے بھی تحفظات ہیں،شازیہ مری،حکومت پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے تو جمہوریت مضبوط ہو گی، ہمارا کریمنل جسٹس سسٹم نیشنل ایکشن پلان سے مطابقت نہیں رکھتا،عارف علوی ، کراچی میں آج بھی دہشتگرد موجود ہیں نیشنل ایکشن پلان فعال نہیں،شیخ صلاح الدین،قومی اسمبلی میں صدارتی خطاب پر بحث،اجلاس پیر تک ملتوی

ہفتہ 9 جنوری 2016 09:39

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 8جنوری۔2016ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین اویس خان لغاری نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ منگل کو مشیر خارجہ سرتاج عزیز سعودی ایران تنازعہ اور پاکستان بھارت تعلقات پر ان کیمرہ بریفنگ دیں گے۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر مرتضی جاوید عباسی کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس کے دوران نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شفقت محمود نے کہا کہ حکومت آزادی رائے پر پابندی لگا رہی ہے۔

گزشتہ روز حکومت نے پیمرا کو ہدایات جاری کی ہے کہ ٹی وی اینکرز دیگر لوگ ایران سعودی عرب معاملے پر حد میں رہ کر بات چیت کریں اس حوالے سے متعدد اینکرز کو جرمانے بھی عائد کیے گئے ہیں اس پر شدید احتجاج کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

رکن قومی اسمبلی شیریں مزاری نے کہا کہ ایوان میں مسلسل ایک ہفتہ سے مشیر خارجہ سے ایران سعودی عرب تنازعہ اور پاک بھارت تعلقات پر بریفنگ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

موجودہ حکومت پارلیمنٹ کو کوئی اہمیت نہیں دے رہی ہے اس پر ممبر قومی اسمبلی و قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین اویس لغاری نے ایوان کو بتایا کہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز منگل کو خارجہ امور کی کمیٹی کو ایران سعودی عرب تنازع کے حوالے سے پاکستان کے کردار اور پاکستان بھارت کے تعلقات پر ان کیمرہ بریفنگ دیں گے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے صدر پاکستان کے ایوان سے خطاب پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صدارتی خطاب زمینی حقائق کے منافی تھا قائمہ کمیٹیوں کی کارکردگی بری جا رہی ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کمیٹی میں سائبر کرائم بل کی کاپیاں تقسیم کروائے بغیر پاس کروا دیا گیا۔ پاک چین اقتصادی راہداری پر حکومت یکطرفہ کام کر رہی ہے۔ بلوچستان اور کے پی کے کی حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا جا رہا اس کے علاوہ گلگت بلتستان کے بھی پاک چین اقتصاداری راہداری پر تحفظات ہیں۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان اعتماد کی کمی وفاقی حکومت کے رویہ کی وجہ سے ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت نے صوبوں کی جانب سے خط لکھنے کے باوجود سی سی آئی کی میٹنگ 11 ماہ سے نہیں بلائی رکن قومی اسمبلی عارف علوی نے صدارتی خطاب پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے تو جمہوریت مضبوط ہو گی۔ ہمارا کریمنل جسٹس سسٹم نیشنل ایکشن پلان سے مطابقت نہیں رکھتا۔ خدشہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان ناکام نہ ہو جائے کیونکہ ہمارے ہاں انصاف کا نظام موجود نہیں ہے۔

ولی خان بابر کے تمام گواہان کو قتل کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ ایان علی کی 50 پیشیاں ہونے کے باوجود فرد جرم عائد نہیں کی گئی حکومت نے 200 دن سے سی سی آئی کا اجلاس نہیں بلایا۔ عارف علوی نے مزید کہا کہ وزیر خزانہ نے ایوان میں پہلی تقریر کے دوران 200 ارب روپے سوئس بنکوں سے لانے کا اعلان کیا تھا۔ اڑھائی سال میں اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ برآمدات میں مسلسل کمی ہو رہی ہے مقامی سرمایہ کاری میں بھی کمی آتی جا رہی ہے ہر طرف کرپشن کا بازار گرم ہے۔

شیخ صلاح الدین نے کہا کہ کراچی میں جرائم کے اضافے پر فوج کی مدد کا کہا تھا کیونکہ ہمارا بھی دہشتگردی کے خلاف آپریشن کا مطالبہ تھا جب ہم لوگ جرائم کے خلاف ایف آئی آر کٹواتے ہیں تو ہماری شنوائی نہیں ہوتی ہے کراچی میں آج بھی دہشتگرد موجود ہیں نیشنل ایکشن پلان فعال طور پر نہیں چلایا جا رہا ہے۔ کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا گیا۔

بھارتی وزیراعظم کی مثال ناراض پھپھو جیسی ہے۔ پاکستان کی سلامتی کیلئے مردم شماری بہت ضروری ہے ہمیں مزید صوبوں کی ضرورت ہے کراچی کی ایک کروڑ کی آبادی ہے پوری دنیا میں 50 لاکھ آبادی کے صوبے ہیں۔ شیر اکبر خان نے کہا کہ آئین کی بالادستی میں ملک کی ترقی و خوشحالی کا راز ہے لیکن پاکستان میں نہ تو قانون اور نہ ہی آئین ہے ایوان صدر کے اخراجات بادشاہوں جیسے ہیں ملک میں کرپشن کا دور دورہ ہے چیئرمین نیب نے کہا کہ ملک میں 12 سے 25 ارب روپے سالانہ کرپشن ہو رہی ہے حکومت کالا باغ منصوبے کو متنازعہ بنا رہی ہے اسپیکر نے شیریں مزاری سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کورم کی نشاندہی نہ کیا کریں اور یہ ہماری پارلیمانی روایات کے برعکس ہے جس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کے روز 4 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔