نیب ایل این جی ڈیل کی تحقیقات نہیں کر رہا، وزیر پٹرولیم،ایل این جی کی درآمد میں خدشات بھی زیادہ ہیں جن کا سامنا کرنے کے لئے ایل این جی پر مناسب ریٹرن کا ملنا ضروری ہے، ایل این جی کی درآمد ہی توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے فوری اور قلیل مدتی قابل عمل ذریعہ ہے، درآمد پر تنقید کرنے والوں کے پاس کوئی دوسرا آپشن ہے تو ضرور پیش کریں، شاہد خاقان عباسی

بدھ 13 جنوری 2016 09:59

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 13جنوری۔2016ء) وفاقی وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ایل این جی کی درآمد ہی پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے فوری اور قلیل مدتی قابل عمل ذریعہ ہے، ایل این جی کی درآمد پر تنقید کرنے والوں کے پاس کوئی دوسرا آپشن ہے تو ضرور پیش کریں، قومی احتساب بیور کی ایل این جی ڈیل سے متعلق تحقیقات کی باتیں بے بنیاد ہیں، نیب نے کوئی عبوری رپورٹ جاری نہیں کی اور نہ ہی اس سلسلے میں وزارت سے کوئی رابطہ کیا گیا۔

پٹرولیم انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان کے زیر اہتمام پی ایس او ہاوٴس میں منعقدہ ایل این جی کے منظرنامے سے متعلق ایک روزہ سیمینار کے موقع پر مفصل پریزنٹیشن اور شرکا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ گزشتہ 10سال کے دوران 3 سابق حکومتوں نے 5 مرتبہ ایل این جی درآمد کرنے کی کوشش کی تاہم موجودہ حکومت نے صرف 20 ماہ کی ریکارڈ مدت میں ٹرمینل تعمیر کرکے 400 ایم ایم سی ایف گنجائش کے ساتھ دستیاب گیس میں 12فیصد اضافے کو ممکن بنایا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ نام نہاد ماہرین اپنے ذاتی مفاد اور خواہشوں کے غلام بنے ہوئے ہیں جو قومی اہمیت کے اس منصوبے پر بے جا تنقید کررہے ہیں المیہ یہ ہے کہ جو دوسرا ٹرمینل ابھی تعمیر نہیں ہوا اس پر بھی تنقید کی جارہی ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت توانائی کا بحران حل کرنے اور معیشت کو پائیدار بنیادوں پر ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے کثیر جہتی توانائی پالیسی پر عمل پیرا ہے، ایک جانب مقامی پیداوار میں اضافے کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے تو دوسری جانب انرجی مکس کو متوازن بنانے کے لیے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کی تنصیب جاری ہے، ساتھ ہی ایران اور ترکمانستان سے گیس پائپ لائن کے منصوبوں کی تکمیل سے گیس مہیا کرنے کے لیے سرگرمیاں جاری ہیں تاہم ان منصوبوں کے ثمرات 2017 سے 2019تک سامنے آنا شروع ہوں گے۔

پاکستان میں گیس کی مجموعی پیداوار 10 سال سے 4 ہزار ایم ایم سی ایف ڈی پر رکی ہوئی ہے، گیس کا کوئی بڑا اور قابل ذکر ذخیرہ دریافت نہیں ہورہا اس کے برعکس گیس کی طلب 6ہزار ایم ایم سی ایف یومیہ تک بڑھ چکی ہے، گیس کی قلت کے سبب پاور سیکٹر، فرٹیلائرز، صنعتی شعبہ، سی این جی اور شمالی حصے کے گھریلو صارفین بھی مشکلات کا شکار ہیں، اس صورتحال میں صرف ایل این جی کی درآمد ہی ایک فوری اور قابل عمل ذریعہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ تیل سے بجلی پیدا کرنے والے 9آئی پی پیز کو ایل این جی مہیا کرکے 45فیصد سے زائد کارکردگی پر چلا کر سالانہ پیداوار کی 10فیصد زائد بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔جس سے سالانہ 1ارب ڈالر کی بچت ہوگی، اسی طرح 3600 میگا واٹ مجموعی گنجائش کے حامل گیس سے چلنے والے نئے زیر تعمیر بجلی گھروں کو ایل این جی کے ذریعے 65فیصد سے زائد کارکردگی پر چلاتے ہوئے سالانہ پیداوار سے 35فیصد زائد بجلی مہیا کی جا سکتی ہے جس سے سالانہ 2ارب ڈالر کی بچت ہوگی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ایل این جی قیمت اور کارکردگی کے لحاظ سے تیل کے مقابلے میں کہیں زیادہ فائدہ مند ہے، خام تیل کی 40ڈالر فی بیرل قیمت پر برینٹ خام تیل کے 14فیصد مساوی ایل این جی کی امپورٹ پر فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت 5.6ڈالر پڑرہی ہے۔پی ایس او نے 20 ایل این جی کارگو برینٹ کے 11.9سے 18.9فیصد مساوی قیمت پر درآمد کی جس کی اوسط قیمت 6.7ڈالر سے 8.8ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پڑی، پی ایس او کے حالیہ ٹینڈر میں Gunvor کی پیشکش 13.37فیصد برینٹ کے لحاظ سے درآمدی ایل این جی 5.5ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو سے بھی کم پڑے گی۔

اس موقع پر پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی کے ایم ڈی شیخ عمران الحق نے کہا کہ حکومت نے پاکستان اسٹیٹ آئل کی مضبوط مالیاتی ساکھ، عالمی سطح پر پی ایس او کو حاصل اعتبار، انرجی سپلائی چین اور فنانشل منجمنٹ میں مہارت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایل این جی درآمد کرنے کا ٹاسک دیا، پی ایس او اب تک 17پارسلز کے ذریعے 1.036 ملین ٹن ایل این جی 7.811 ڈالر (ایف او بی) فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت پر درآمد کرچکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایل این جی کی کھپت اور مواقع دیکھتے ہوئے دنیا کی اہم بین الاقوامی کمپنیاں درآمد کیلیے جاری ٹینڈر میں دلچسپی لے رہی ہیں، ایل این جی کی درآمد میں خدشات بھی زیادہ ہیں جن کا سامنا کرنے کیلیے ایل این جی پر مناسب ریٹرن کا ملنا ضروری ہے۔اوگرا نے پی ایس او کا مارجن 1.82 فیصد مقرر کیا تاہم اس میں سیل پرچیز ایگری منٹ میں شامل ٹیک اور پے کی شرط کے تحت ممکنہ ادائیگیوں، ادائیگیوں میں تاخیر، آئی پی پی کے کیپسٹی چارجز کی ادائیگیوں، ریگولیٹری تنازعات کے خدشات، ایل این جی امپورٹ کی گارنٹی( ایس بی ایل سی ایگری منٹس) اور ڈیمرجز کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔

سیمینار سے سوئی سدرن گیس کمپنی، سوئی نادرن گیس کمپنی کے اعلیٰ حکام اور پورٹ قاسم اتھارٹی کے چیئرمین آغا جان اختر نے بھی خطاب کیا اور پورٹ اتھارٹی کی جانب سے ایل این جی ٹرمینل سے وصول کیے جانے والے چارجز اور درپیش چیلنجز کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔