قانون کی حکمرانی،بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے ،چیف جسٹس،کوئی شخص یا ادارہ آئینی اور قانونی اختیار سے تجاوز کرکے بنیادی حقوق کی پامالیکرے تو عدلیہ مداخلت کر کے اس کا تدارک کرے،عدلیہ کسی تنازعہ کی صورت میں فریقین کے حقوق کا تعین کرکے فیصلہ صادر کرے،قومی لیڈرشپ پروگرام کے شرکاء سے خطاب

منگل 19 جنوری 2016 08:38

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 19جنوری۔2016ء )چیف جسٹس انور ظہیرجمالی نے کہاہے کہ عدلیہ پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ اگر کوئی شخص یا ادارہ اپنے آئینی اور قانونی اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے کوئی ایسا عمل سرانجام دے جس سے بنیادی حقوق کی پامالی یا خلاف ورزی ہوتی ہو تو عدلیہ کے لیے یہ ناگزیر ہوجاتا ہے کہ وہ مداخلت کرتے ہوئے اس کا تدارک کرے۔

انھوں نے سندھ مدرسة الاسلام یونیورسٹی کے ”قومی لیڈرشپ پروگرام“ کے شرکاء اور اساتذہ کرام کے سپریم کورٹ کے مطالعاتی دورہ کے موقع پر خطاب میں مزید کہاہے کہ سندھ مدرسةالاسلام میں تعلیم حاصل کرنے والے تمام طلباء کے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ وہ ایک ایسے اعلیٰ پائے کے تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جس کا شمارجنوبی ایشیاء کے قدیم ترین مسلم مدارس میں ہوتا ہے ۔

(جاری ہے)

ہمارے ملک پاکستان کا نظامِ 1973ء کے تحریری آئین کے تحت چلایا جاتا ہے۔ ”تقسیمِ اختیارات“ کے اصول کے تحت حکومتی اختیارات کومقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ میں تقسیم کیا گیا ہے۔ آئین کے تحت مقننہ قانون سازی کے فرائض انجام دیتی ہے۔ انتظامیہ ان قوانین پر عملدرآمد کی ذمہ دار ہے جبکہ عدلیہ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نہ صرف قانون کی تشریح کرے بلکہ کسی بھی تنازعہ کی صورت میں فریقین کے حقوق کا تعین کرتے ہوئے اس پہ فیصلہ صادر کرے۔

اس کے ساتھ ساتھ عدلیہ پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ انہوں نے کہاکہ سندھ مدرسة الاسلام کا قیام 1885ء میں ہوا تھا۔ اس ادارے کو یہ شرف حاصل ہے کہ ہمارے عظیم رہنما جناب قائدِاعظم محمد علی جناح 1887ء تا 1892ء تک اس ادارے میں زیرتعلیم رہے۔ بعد میں قائدِاعظم کی کاوشوں سے ہی 1943ء میں کالج کا درجہ ملا جبکہ حال ہی میں یعنی/12 2011ء میں اسے یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا۔

مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ سندھ مدرسةالسلام یونیورسٹی ایچ ای سی کا تسلیم شدہ ادارہ ہے اور اسے اپنے شاندار ماضی اور لگاتار بہترین کارکردگی کی بنا پر ہم عصردیگر اداروں میں ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ عصرحاضرمیں سائنس کی حیرت انگیز ترقی نے ہر طرف سے سخت ترین مقابلے کی فضا پیدا کر دی ہے۔ ہر شخص اور ہر ادارے کو ہمیشہ اپنی بقاء کے لیے سخت جدوجہد کی ضرورت رہتی ہے اور survival of the fittestکا اصول پوری شُدومد کے ساتھ کارفرما ہے۔

اس تناظر میں سندھ مدرسة الاسلام یونیورسٹی پر بطور ادارہ، اس میں درس و تدریس سے منسلک افراد اور یہاں زیرِ تعلیم طلباء سب کے لیے ایک چیلنج ہے کہ وہ قائدِاعظم کے مادر علمی کے نام کو مزید روشن کریں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہے جو کہ چیف جسٹس اور 16جج حضرات پر مشتمل ہوتی ہے جن کا تقرر آئین کے آرٹیکل 175A بیان کیے گئے طریقہ کار کے تحت ہوتا ہے۔

مقدمات کے فوری اور جلدتصفیہ کو یقینی بنانے کے لیے 2اضافی جج حضرات کا تقرر بھی عمل میں لایا گیا ہے۔ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 184تا 188کے تحت سپریم کورٹ کو ابتدائی، اپیل، مشاوراتی اور نظرثانی اختیارِ سماعت حاصل ہے۔اعلیٰ ترین عدالت ہونے کی حیثیت سے افراد کے مابین مقدمات کی سماعت کے حوالے سے سپریم کورٹ کو حتمی اختیارِ سماعت حاصل ہوتا ہے اور طرح صوبائی حکومتوں یا صوبائی اور وفاقی حکومت کے مابین کسی تنازعہ کی صورت میں اسے کُلّی اور حتمی اختیارِ سماعت حاصل ہوتا ہے۔

صوبائی سطح پر اعلیٰ ترین عدالت ہائی کورٹ ہے۔ اس وقت پاکستان میں کل پانچ ہائی کورٹس کام کر رہی ہیں۔ضلع کی سطح پر ضلعی عدالتیں کام کرتی ہیں جو کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج صاحبان ، سول جج اور جوڈیشل مجسٹریٹ پر مشتمل ہوتی ہیں۔ تمام ضلعی عدالتیں اپنے صوبے کی ہائی کورٹ کے زیرنگرانی کام کرتی ہیں۔ دیوانی اور فوجداری مقدمات، اختیارِ سماعت کو مدِنظر رکھتے ہوئے، متعلقہ سول جج یا مجسٹریٹ کے پاس دائر کیے جاتے ہیں۔

جس کی اپیل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے پاس دائر ہوتی ہے۔ ضلعی عدالتوں کا انتظام متعلقہ ہائی کورٹ کے ذریعے ہی چلایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اور پیچیدہ نوعیت کے مخصوص مقدمات چلانے کے لئے متعلقہ قانون سازی کے تحت وفاقی اور صوبائی سطح پر مختلف Specialized کورٹس کا بھی قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ یہاں ان مخصوص نوعیت کے مقدمات میں کارروائی کی جاتی ہے اور اس بات کا ایک بنیادی فائدہ یہ ہے کہ مقدمات کے التواء میں طوالت کم ہو جاتی ہے اور Specialized کورٹس ہونے کی وجہ سے عدالتی فیصلوں میں بھی ایک استحکام قائم رہتا ہے۔