فوجی عدالتوں میں کیسزکی منتقلی سست روی کاشکار، وزارت داخلہ کے پاس کئی کیسز موجود مگر گزشتہ چند ماہ سے فوجی عدالت میں ایک کیس بھی نہیں بھیجا گیا،کیسز بھیجے جانے میں سست روی کی ایک وجہ سپریم کورٹ میں زیر التواء درخواستیں بھی ہیں،فوجی عدالتوں میں آخری بار گزشتہ سال دسمبر میں کیسز بھیجے گئے تھے، جن میں سانحہ صفورا اور سماجی کارکن سبین محمود کے قتل کے کیسز شامل تھے، ذرائع

بدھ 23 مارچ 2016 09:53

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 23مارچ۔2016ء ) آئین میں 21ویں ترمیم کے تحت قائم ہونے والی فوجی عدالتوں میں کیسز بھیجے جانے کا عمل سست روی کا شکار ہے، جبکہ گزشتہ چند ماہ سے فوجی عدالت میں ایک کیس بھی نہیں بھیجا گیا۔کئی کیسز وزارت داخلہ کے پاس موجود ہیں، لیکن بظاہر دستاویزات مکمل نہ ہونے پر اْنہیں فوجی عدالتوں میں نہیں بھیجا جاسکتا.وزارت داخلہ کی جانب سے فوجی عدالتوں میں کیسز بھیجے جانے میں سست روی کی ایک وجہ سپریم کورٹ میں زیر التواء درخواستیں بھی ہیں، جبکہ اعلیٰ عدالت میں درخواستیں دائر ہونے کی وجہ سے کم از کم 8 اہم مقدمات میں مجرمان کی پھانسی روکی جاچکی ہے۔

فوجی عدالتوں میں آخری بار گزشتہ سال دسمبر میں کیسز بھیجے گئے تھے، جن میں گزشتہ سال 13 مئی کو پیش آنے والے سانحہ صفورا اور سماجی کارکن سبین محمود کے قتل کے کیسز بھی شامل تھے۔

(جاری ہے)

یاد رہے کہ 13 مئی 2015 کو اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی بس پر دہشت گردوں کے حملے میں 45 افراد ہلاک ہوئے تھے۔وزارت داخلہ کے ذرائع نے دعویٰ کیا کہ دسمبر کے بعد صوبوں اور اسلام آباد کی انتظامیہ کی جانب سے وزارت داخلہ کو صرف وہ کیسز بھیجے گئے جو یا تو انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں پہلے ہی زیرِ سماعت تھے، یا جن میں پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات شامل نہیں تھیں۔

وزارت داخلہ کے ایک عہدیدار کے مطابق ان کیسز کا ٹرائل پہلے ہی معمول کی رفتار سے جاری ہے، جبکہ ان میں سے زیادہ تر کیسز میں ملزمان دہشت گردوں کے ’سہولت کار‘ ہیں، اس لیے وزارت داخلہ نے یہ مقدمات فوجی عدالتوں کو نہیں بھیجے۔تاہم عہدیدار کا دعویٰ تھا کہ ان کیسز میں ملزمان کے حوالے سے معلومات کی کمی بھی وزارت داخلہ کے لیے درد سَر بنی ہوئی ہے۔

ملزمان کے حوالے سے معلومات کی کمی کا معاملہ اْس وقت سامنے آیا جب گزشتہ سال ستمبر میں وزارت داخلہ نے وزارت دفاع سے، کیسز فوجی عدالتوں میں بھیجے جانے سے قبل زیرِ حراست ملزمان کی عمر سے متعلق دریافت کیا۔طریقہ کار کے مطابق کوئی بھی کیس فوجی عدالت میں بھیجے جانے سے قبل وفاقی حکومت کی منظوری ضروری ہے، اس لیے وزارت دفاع یہ کیسز براہ راست فوجی عدالتوں کو نہیں بھیج سکتی۔

واضح رہے کہ فوجی عدالت میں کوئی بھی کیس بھیجے جانے سے قبل ملزم کی عمر کا تعین ہونا ضروری ہے۔گزشتہ سال اگست میں پشاور ہائی کورٹ نے، فوجی عدالت کی جانب سے ملزم حیدر علی کو سنائی جانے والی پھانسی کی سزا معطل کردی تھی۔عدالت کا کہنا تھا کہ چونکہ حیدر علی کم عمر ہے اس لیے اْسے انصاف کے ملکی قوانین کے تحت پھانسی نہیں دی جاسکتی۔عہدیدار نے اس بات کی بھی تصدیق کی صوبوں نے ایسے مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں بھیجنے کی سفارش کی، جو اْن عدالتوں میں بھیجے جانے کے قابل نہیں تھے۔