انتظاامیہ اپنی ذمہ داریوں ہم پر ڈال دیتی ہے،ہر معاملے پر عدالت سے کہا جاتا ہے کہ سو موٹو لے کر کمیشن بنایا جائے،چیف جسٹس،ملک میں لگا تار دو جماعتیں برسر اقتدار آتی رہیں، دونوں سے غلطیاں ہوئی ہیں،عدالت بعض اوقات مصلحت سے کام لیتی ہے، ریمارکس،سپریم کورٹ نے سندھ میں میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات کے طریقہ کار سے متعلق کیس کی سماعت 14اپریل تک ملتوی کر دی

بدھ 13 اپریل 2016 09:57

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 13اپریل۔2016ء ) سپریم کورٹ نے سندھ میں میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات کے طریقہ کار سے متعلق کیس کی سماعت 14اپریل تک ملتوی کر دی ہے جبکہ دوران سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ملک میں لگا تار دو ہی جماعتیں برسر اقتدار آتی رہی ہیں اور دونوں ہی سے غلطیاں ہوئی ہیں ، انتظامیہ اپنی ذمہ داریوں کو ٹال کر ہم پر ڈال دیتی ہے ہر معاملے پر عدالت سے کہا جاتا ہے کہ سو موٹو لے کر کمیشن بنایا جائے ،عدالت قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے کام کرنے کی پابند ہے ،چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت بھی بعض اوقات حالات کو دیکھ کر مصلحت سے کام لیتی ہے ،21ویں آئینی ترمیم کے تفصیلی فیصلے کا جائزہ لیاجائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شدید تحفظات کے باوجود عدالت نے آبزرویشن دے کر چھوڑ دیا ہے ، عدالت نے صرف جمہوریت کے لیے کمپرومائز کیا ،انہوں کہا کہ آخری وقت میں چیزیں تبدیل ہوتی ہیں تو شکوک پیدا ہوتے ہیں چیف جسٹس اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ پارلیمنٹ میں اکثریتی پارٹیوں کا چھوٹی جماعتوں کو اعتماد میں نہ لینا روایت بن چکی ہے ، بہتر ہوتا تمام سیاسی جماعتیں عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنے کے بجائے مل بیٹھ کر معاملے کو حل کر لیتی ، میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات کا معاملہ اتنا بڑا نہیں ہے صرف ناک کا مسئلہ ہے ۔

(جاری ہے)

منگل کے روز چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سندھ میں میئر اور ڈپٹی میئر کے طریقہ انتخاب سے متعلق مقدمے کی سماعت کی، سماعت شروع ہوئی تو پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ خفیہ رائے شماری کے تحت کیا پتہ لگتا ہے کس نے کس کو ووٹ دیا ،کراچی میں ایک امیدوار کسی ایک جماعت کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ رہا تھا 24گھنٹے پہلے دست بردار ہو گیا ، جو لوگ ووٹوں سے متخب ہو کر اسمبلی میں جاتے ہیں پہلے انکو پارٹی نامزد کرتی ہے ، ممبران اسمبلی عوام کے ووٹوں سے خفیہ رائے شماری کے تحت منتخب ہوتے ہیں ، جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا کہ کیا میئر ،ڈپٹی میئر اور وزیراعظم اور وزیراعلی ٰ کے چناؤ کا طریقہ کار ایک ہے ، بابر اعوان نے کہا کہ میں ایک بات کہہ دو اسکا جواب دیتا ہوں ،جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ آپ 100لفظ کہیں جواب نہیں دینا تو کوئی بات نہیں ، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ پھر آزاد رکن کا کیا بنے گا ، اس پر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ آزاد رکن جہاں بھی ہوں آسانی سے جیت جاتے یہاں تک کہ سینٹ کے الیکشن میں بھی جیت جاتے ہیں سیاسی جماعتیں روتی ہیں کہ ہمارے اراکین بک گئے ،اس پر چیف جسٹس نے کہا استفسار کیا کہ آپ ایک سیاستدان بھی ہیں عدالت کو بتایا جائے کہ اگر اوپن رائے شماری کا طریقہ کار اتنا ہی مفید ہوتا ہے تو وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کا انتخابات اس طریقہ کے تحت کیوں نہیں کرتے ، جس پر بابر اعوان نے کہا کہ اس سوال کا جواب بعد میں دیتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنی وکالت کے دوران یہ سیکھا ہے کہ جب جج سوال کرے تو پہلے اس کو جواب دیا جائے ، تاہم یہاں جج سوال کرتے ہیں وکیل جواب ہی نہیں دیتے ، بابر اعوان نے کہا کہ دلائل جلد مکمل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ، بابر اعوان نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ ایک بیلٹ پیپر پر ہم نام امیدوار اور ایک جیسے انتخابی نشان موجود ہیں جس سے ووٹرز کو چناؤمیں مشکلات پیدا ہوتی ہیں اگر کوئی ان پڑھ ہے تو ووٹ نہیں دے سکتا ، ایک بیلٹ پر اگر محمد شریف کے دو نام ہوں گے تو شریفین میں سے ووٹر کس کا انتخاب کرے گا ، بری نیت قرار دے کر کسی قانون کو ختم نہیں قرار دیا جاسکتا ، الیکشن کمیشن کا کام صاف و شفاف انتخابات کو یقینی بنانا ہے، بابر اعوان نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے اوپن رائے شماری کے تحت انتخابات کرائے گئے ہیں ، خفیہ راے شماری کے تحت انتخابات پر سوال اٹھتے ہیں ، ہارنے والا کہتا ہے ، دھاندلی ہوئی جیتنے والے کہتے ہیں صاف و شفاف الیکشن ہوئے ، الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ صاف و شفاف انتخابات کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ شفاف انتخابات کے لئے شو آف ہینڈ ضروری ہے تو 2013 کے عام انتخابات کو کیوں تسلیم کیا گیا، پیپلز پارٹی کو اگر جمہوری تقاضو ں کا اتنا خیال تھا تو 4 بار بلدیاتی نظام میں ترامیم کیوں کیں، اگر ہاتھ دکھا کر میئر ڈپٹی، میئر اورچیئرمین کا انتخاب اتنا ہی شفاف ہے تو وزیر اعظم کا انتخاب بھی ایسے ہونا چاہیے، شفافیت کے لئے تو پھر مردم شماری بھی ضروری ہے، 1998 مردم شماری سے پتہ لگتاہے کہ ملک میں کتنے ووٹر ہیں، مردم شماری 2008 میں ہونا تھی لیکن اب تک نہیں ہوئی ،تاہم ایک غلطی کو دوسری غلطی کا جواز نہیں سمجھا جا سکتا ، بعض اوقات حالات کو دیکھتے ہوئے قانون ساز مصلحت سے کام لیتے ہیں ، ملک کا جمہوری نظام لولا لنگھڑا ہے ہمیں اس کو چلانا ہے ، بابر اعوان نے کہا کہ سسٹم ٹھیک ہے اس کو بیساکھیاں تھما کر لولا لنگھڑا کر دیا گیا ہے ، عدالت نے استفسار کیا کہ 2008سے پھر مردم شماری کیوں نہیں کرائی گئی ، بابر اعوان نے کہا کہ اس غلطی کو پچھلی حکومت پر ڈال کر دہرایا نہیں جا سکتا موجودہ حکومت بھی مردم شماری کرا سکتی ہے ،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں 2 سیاسی جماعتیں لگاتار حکومت کرتی آ رہی ہیں اور دونوں سے ہی غلطیاں ہوئی ہیں،فرض کریں اگر عدالت حکم دیتی ہے جب تک ملک میں مردم شماری نہیں ہو گی کوئی انتخابی عمل نہیں ہو گا تو ملک کہاں کھڑا ہو گا ، بابر اعوان نے کہا کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ انتظامیہ اپنی ذمہ داریوں کو ٹال کر عدالت پر ڈالتی ہے ، زچیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ملک میں 2 سیاسی لگاتار حکومت کرتی آ رہی ہیں اور دونوں سے ہی غلطیاں ہوئی ہیں۔

ملک میں اصلاحات کی ضرورت ہے ہر معاملے پرہم سے کہا جاتا ہے کہ از خود نوٹس لیں یا سپریم کورٹ کمیشن بنائیں، یہ سب کہنے کی باتیں ہیں، عدالت اور انتظامیہ کے اختیارات الگ الگ ہیں عدالت قانون کے دائر ہ میں رہ کر کام کرنے کی پابند ہے عدالت کو بتایا جائے کہ بتایاجائے کہ کسی معاملے کی تفتیش کی ذمہ دار انتظامیہ ہوتی ہے یا عدلیہ، کہنے کو بہت کچھ ہے مگر ہمارے لیے مناسب ہے کہ لب کشائی کم کریں۔

ہم کسی ایک شخص یا ادارے کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہے یہ زمینی حقائق ہیں ، پورے سسٹم کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، پورے ملک کو اصلاحات کی ضرورت ہے۔ عدالت نے کہا کہ بلدیاتی نمائندوں کو چار سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے چار سال تک نمائندہ کو اختیارات ہی نہیں منتقل ہوتے ، بابر اعوان نے عدالت کے ایک سوال پر کہا کہ میں پیپلزپارٹی کا وکیل ہوں سندھ حکومت کا نئی اس کا جواب فاروق ایچ نائیک دیں گے، عدالت نے ریمارکس دیئے کیا آپ پارٹی کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے ،دوران سماعت سیکٹری الیکشن کمیشن بھی عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت میں انتخابات سے متعلق اپنی رپورٹ پیش کی ، جس پر عدالت نے کہا کہ اس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کے طریقہ کار سے متعلق کچھ نہیں کہا گیا ، کیا آپ انے موقف کے ساتھ نہیں آئے ، الیکشن کمیشن کے نمائندے نے بتایا کہ انتخابات کا شیڈول جنوری 2016میں جاری کیا گیا تھا ، دوران سماعت اقلیتی نمائدہ رمیش کمار پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ انتخابات شوآف ہینڈ کے بجائے خفیہ رائے شماری کے تحت کرائے جائیں ، مٹھی میں ہمارے پندرہ امیدواروں کو زبردستی دست بردار کیا گیا ، ہمارے امیداورں کو اغواء کیا جار ہا ہے ،عدالت نے استفسار کیا کہ کون اغوا ء کر رہا ہے اس پر بیان حلفی دیں زبانی باتوں پر کاروائی نہیں ہو سکتی ، دریں اثنا سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیس ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 226کے ساتھ قانون سازوں نے بہت چھیڑ چھاڑ کی ہے ، یہ واحد ایکٹ ہے جس کو سب سے زیادہ چھیڑا گیا ہے ، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی ووٹنگ خفیہ نہیں تقسیم سے ہوتی ہے ،سب کو پتہ ہوتا ہے کون کس کو ووٹ دے گا ، آئین کے مطابق تمام اتنخابات خفیہ رائے شماری کے تحت ہونگے ، 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی نمائندہ سے متعلق قانون سازی کا مینڈیٹ دیا گیا ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ خواتین کی مخصوص نشتوں پر لمبی بحث ہو سکتی ہے ووٹنگ کا طریقہ کاریہ ہونا چاہیے کہ ایک ووٹ امیدوار اور ایک پارٹی کو دیا جائے ، اس کی بھی وضاحت ہونی چاہیے کہ 3کروڑ ووٹ میں سے کس پارٹی کو کتنے ووٹ ملے ،300نشتوں میں 6فیصد ووٹ لینے والی سیاسی جماعت کو بھی مخصوص نشتیں ملنی چاہیے ، عدالت نے کہا کہ عورتوں کو ووٹ دینے سے روکنا آئین کے برخلاف ہے ، سیکرٹ بیلٹ کے تحت الیکشن کی شفافیت متاثر ہو سکتی ہے ، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ووٹ کا حق اور الیکشن میں کھڑا ہونا الگ بات ہے ، سینٹ کے انتخابات میں کیا ہو تا ہے سب کے سامنے ہیں اس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ اگر سینٹ انتخابات کے طریقہ کار میں خرابی ہے تو اس میں ترمیم کرلیں ، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت ہدایت کرے ترمیم کرلیں گے ، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بعض اوقات حالات کو دیکھ کر عدلیہ کو بھی مصلحت سے کام لینا پڑھتا ہے ، 21ویں آئینی ترمیم کہ فیصلہ کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ عدلیہ نے شدید تحفظات کے باوجود صرف ابزرویشن دے کر چھوڑ دیا ہے ، جمہوریت کو بچانے کے لیے ہم نے 21ویں ترمیم پر کمپرومائز کیا ، آئینی اور قانونی معاملات کو عدالت میں لے کر آنا ہی نہیں چاہیے،آئین میں جب بھی کوئی ترمیم کی جاتی ہے اس کا مقصد بہتری ہوتا ہے ،تباہی کے لیے ترمیم نہیں ہوتی ، عدالت نے کہا کہ آخری وقت میں جب چیزوں کو تبدیل کیا جاتاہے تو شکوک پیدا ہوتے ہیں ، کیا صوبائی خود مختاری کی آڑ میں ایسی قانون سازی کی جاسکتی ہے جس سے انتخابات کے کی شفافیت پر سوال اٹھیں ۔

دریں اثنا عدالت نے سندھ حکومت کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر ایم کیوایم کے وکیل فروغ نسیم کو آئندہ سماعت پر اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 14اپریل تک ملتوی کر دی ہے ۔