حکومت نے پانامہ لیکس کے معاملے پر تحقیقات کیلئے چیف جسٹس کو کمیشن بنانے کے لئے خط لکھ دیا ، پاناما لیکس میں شامل تمام پاکستانی شہریوں کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنایا جائے، آف شور کمپنیوں میں سابق اور موجودہ سرکاری افسروں کی چھان بین کی جائے، سیاسی اثر و رسوخ سے اپنے اور اہلخانہ کے قرضے معاف کرانے والوں کی بھی تحقیقات کی جائیں، خط میں استدعا ،تحقیقاتی کمیشن پاناما یا کسی بھی دوسرے ملک میں قائم آف شور کمپنیوں میں ملوث پاکستانی شہریوں ،پاکستانی نژاد افراد اور آف شور کمپنیوں کے قانونی اثاثہ جات سے متعلق معلومات کا جائزہ لے گا

ہفتہ 23 اپریل 2016 09:40

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔23اپریل۔2016ء) وفاقی حکومت نے پانامہ لیکس کے معاملے پر تحقیقات کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان کو کمیشن بنانے کے لئے باضابطہ طور پر خط لکھ دیا ہے جس میں درخواست کی گئی ہے کہ پاناما لیکس میں شامل تمام پاکستانی شہریوں کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنایا جائے، حکو آف شور کمپنیوں میں سابق اور موجودہ سرکاری افسروں کی چھان بین کی جائے، ساتھ ہی سیاسی اثر و رسوخ سے اپنے اور اہلخانہ کے قرضے معاف کرانے والوں کی بھی تحقیقات کی جائیں۔

جمعہ کے روز قائم مقام سیکرٹری قانون کی جانب سے رجسٹرار سپریم کورٹ کو بھیجے گئے خط میں میں کرپشن، کک بیکس اور کمیشن کے ذریعے حاصل کی گئی رقم بیرون ملک بھجوانے کی تحقیقات کی استدعا بھی کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

ٹرمز آف ریفرنس کے مطابق کمیشن کے مقرر کردہ افسر کو کسی بھی عمارت یا جگہ میں داخل ہونے کا اختیار ہوگا۔ وہ کسی بھی عمارت سے متعلقہ دستاویز حاصل کرنے کا مجاز ہوگا۔

اسے ریکارڈ یا دستاویز ضبط کرنے کا اختیار بھی ہوگا۔ مقررہ کردہ افسر ضابطہ فوجداری کے سیکشن ایک سو دو اور ایک سو تین کے تحت کسی بھی دستاویز کی نقول حاصل کرسکے گا جبکہ جوڈیشل کمیشن کی کارروائی کو ضابطہ فوجداری کے سیکشن 193 اور 228 کے تحت عدالتی کارروائی تصور کیا جائے گا۔ ٹرمز آف ریفرنس کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتیں جوڈیشل کمیشن کی معاونت کرنے کی پابند ہوں گی۔

جوڈیشل کمیشن تحقیقات شروع کرنے کے وقت اور جگہ کا تعین خود کرے گا۔ کابینہ ڈویڑن، جوڈیشل کمیشن کے لیے انتظامی امور میں معاونت کرے گا۔ جوڈیشل کمیشن تحقیقات مکمل ہونے کے بعد اپنی رپورٹ وفاقی حکومت کو پیش کرے گا۔ خط میں درخواست کی گئی ہے کہ پانامہ لیکس میں پاکستانی شہریوں کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کیلئے کمیشن تشکیل دیا جائے اور انکوائری کمیشن پاکستان کمیشن انکوائری ایکٹ 1956ء کے تحت قائم کیا جائے خط میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے درخواست کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز پرمشتمل کمیشن قائم کیا جائے اور اس کمیشن کی سربراہی ترجیحی بنیادوں پر چیف جسٹس خود کریں خط میں کمیشن کے ٹرم آف ریفرنس بھی منسلک ہیں پاکستان کمیشن انکوائری ایکٹ 1956ء کے سیکشن تین کا سب سیکشن ایک کے تحت کمیشن کا انعقاد کرنے کیلئے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا گیا ہے انکوائری کے ٹرم آف ریفرنس پانامہ میں آف شور کمپنیوں کے پاکستانی مالکان کیخلاف قانونی کارروائی اور تحقیقات کی جائینگی بینک لون کی معافی کیلئے سیاسی اثرورسوخ استعمال کرنے کیخلاف انکوائری کی جائے کرپشن کمیشن کے ذریعے حاصل کردہ رقم غیر قانونی طور پر بیرون ملک بھیجنے کی بھی انکوائری کی جائے اس حوالے سے تمام پاکستانی قوانین کیخلاف کئے گئے عمل کو سامنے لایا جائے اوراس کیلئے مناسب کارروائی کی سفارشات جمع کی جائیں اس کمیشن کو سول قوانین ایکٹ 1988 کے تحت پاورز ہونگے قانونی دستاویزات حاصل کرنے کے اختیارات کمیشن کو دیئے گئے ہیں یہ کمیشن پاکستان پینل کوڈ 1860 کے سیکشن 193اور 228 کے تحت جوڈیشل کمیشن عدالتی کارروائی کا اختیار رکھتی ہے اور کمیشن پاکستان کے وفاقی اور صوبائی متعلقہ اداروں سے کسی بھی قسم کی امداد طلب کرسکتی ہے اور کیبنٹ ڈویژن محکمانہ امداد کمیشن کو مہیا کرنے کی پابند ہوگی ۔

تحقیقاتی کمیشن جو چیف جسٹس آف پاکستان تشکیل دیں گے پاناما یا کسی بھی دوسرے ملک میں قائم آف شور کمپنیوں میں ملوث پاکستانی شہریوں ،پاکستانی نژاد افراد اور آٓف شور کمپنیوں کے قانونی اثاثہ جات سے متعلق معلومات کا جائزہ لے گا۔جمعہ کو وزارت قانون کے مطابق وزیر اعظم کے میڈیا آفس کی طرف سے جاری دسیتاویز میں کہا گیا ہے کہ تحقیقاتی کمیشن کے درج ذیل ٹرمز آف ریفرینس ہوں گے ۔

ٹرمز آف ریفرنس کے مطابق کمیشن پاکستانی نژاد افراد اور قانونی اداروں کے سمند ر پار کمپنیوں سے تعلق کا جائزہ بھی لے گا ۔ کمیشن عوامی عہدوں پر فائز موجودہ اور سابقہ عہدیداروں کے سمندر پار کمپنیوں سے تعلق کا بھی جائزہ لے گا ۔کمیشن سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے اپنی یا اہل خانہ کے بینک قرضے معاف کرانے اور بدعنوانی سے حاصل کی گئی رقوم پاکستان سے باہر منتقل کرنے کی بھی جانچ پڑتال کرے گا ۔

کمیشن اس بات کا بھی جائزہ لے گا کہ پانامہ یا کسی دوسرے ملک میں سمندر پار کمپنیاں قائم کرنے میں پاکستانی قانون کی خلاف ورزی تو نہیں کی گئی ۔الزام ثابت ہونے کی صورت میں کمیشن قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کی ذمہ داری کا بھی تعین کرے گا اور اس سلسلہ میں مناسب سفارشات بھی دی جائیں گی ۔کمشین کی شرائط کے مطابق کمیشن تحقیقات کے سلسلہ میں ٹیکس اور اکاونٹس کے ماہرین کی خدمات سے بھی استفادہ کر سکے گا ۔

کمیشن کو دستیاویزات طلب کرنے کا بھی اختیار ہو گا جبکہ حلف پر شہادتیں بھی لے سکے گا۔ کمیشن کسی بھی شخصیت کے استحقاق سے قطع نظر معلومات حاصل کر سکے گا ۔کمشین دسیتاویزات کی رسائی کے لئے کسی بھی عمارت یا جگہ تک رسائی حاصل کر سکے گا اور حساب کتاب سمیت کسی بھی قسم کی دستیاویزات قبضہ میں لے سکے گا ۔کمیشن کی کاروائی عدالتی کاروائی تصور ہو گی جبکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تمام متعلقہ حکام معاونت کریں گے ۔کمیشن اپنے تعین کردہ مقام اور تاریخ پر انکوائری شروع کر ے گا اور شرائط کار کے مطابق وفاقی حکومت کو رپورٹ پیش کرے گا ۔کابینہ ڈویژن بھی کمیشن کو سہولیات فراہم کرے گا ۔