ہم ایسی جمہوریت کو نہیں مانتے ، جس میں مقامی حکومتوں کے پاس اختیارات نہ ہوں ، مصطفی کمال ، فوجی آپریشنز سے مسائل حل نہیں ہوتے ،مسائل حل کرنے کے لیے گڈ گورننس کا نظام بہتر بنانا ہو گا ،ملک میں احتساب نیب یا کسی اورادارے کے تحت نہیں بلکہ اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم سے احتساب کا عمل مضبوط ہو گا ، کراچی کے عوام ایسے منی پاکستان کی بنیاد رکھیں گے ، جہاں کا کریہ کریہ روشن اور ہر علاقہ ترقی کرے گا ،کراچی کو را کے ایجنٹوں کا نہیں بلکہ حب الوطنوں کا شہر بنائیں گے، آج حب الوطنی کے سفر کا آغاز کر دیا ہے، ملک کے کونے کونے میں جا کر محب ، بھائی چارگی اور امن کا پیغام عام کریں گے، باغ جناح میں پاک سرزمین پارٹی کے پہلے جلسہ عام سے خطاب

پیر 25 اپریل 2016 09:27

کراچی ( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔25اپریل۔2016ء ) پاک سرزمین پارٹی کے رہنما سید مصطفی کمال نے کہا ہے کہ ہم ایسی جمہوریت کو نہیں مانتے ، جس میں مقامی حکومتوں کے پاس اختیارات نہ ہوں ۔ فوجی آپریشنز سے مسائل حل نہیں ہوتے ۔ مسائل حل کرنے کے لیے گڈ گورننس کا نظام بہتر بنانا ہو گا ۔ ملک میں احتساب نیب یا کسی اورادارے کے تحت نہیں بلکہ اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم سے احتساب کا عمل مضبوط ہو گا ۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کے عوام ایسے منی پاکستان کی بنیاد رکھیں گے ، جہاں کا کریہ کریہ روشن اور ہر علاقہ ترقی کرے گا ۔ کراچی کو را کے ایجنٹوں کا نہیں بلکہ حب الوطنوں کا شہر بنائیں گے ۔ آج حب الوطنی کے سفر کا آغاز کر دیا ہے ۔ ملک کے کونے کونے میں جا کر محب ، بھائی چارگی اور امن کا پیغام عام کریں گے ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو باغ جناح میں پاک سرزمین پارٹی کے تحت پہلے عوامی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

جلسے کے شرکاء نے پاکستانی پرچم اٹھا رکھے تھے ۔ سید مصطفی کمال نے سورة فاتحہ سے تقریر کا آغاز کیا ۔انہوں نے کہا کہ جلسے میں آنے والے تمام لوگوں کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ آج پاکستان کی تاریخ میں ایسا دن ہے اور آج ایک ایسی بنیاد رکھی گئی ہے ، جس کو آنے والے مورخ سنہرے لفظوں سے لکھیں گے ۔ آنے والی نسلیں جب اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں گی تو انہیں بہت ساری مایوسی کے ساتھ بہت سے اچھے راستے بھی ملیں گے ۔

پاکستان میں ہمارے ایسے آباوٴ اجداد گزرے ہیں ، جنہوں نے وقت کے فرعونوں کے سامنے سر نہیں جھکایا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں آج 30 دن ہوئے ہیں ۔ دنیا میں شاید کوئی ایسی پارٹی بنی ہو ، جس نے 30 دنوں میں لاکھوں کا مجمع جمع کرکے ورلڈ ریکارڈ قائم کیا ہو ۔ میں اس ریکارڈ پر عوام کو مبارکباد دیتا ہوں ۔ سید مصطفی کمال نے کہا کہ دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا جلسہ ہوا ہو ، جس سیاسی جلسے میں اس سیاسی جماعت کا جھنڈا نہ ہو ۔

ہاں ایک سیاسی جماعت تھی ، جس نے اپنے جلسے میں سیاسی جھنڈا نہیں بلکہ قومی پرچم لہرایا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہر دور میں سنتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے لیکن آج پاکستان ایک نازک دور کی لکیر بھی کراس کر چکا ہے ۔ ہم فرقوں میں ، قومیتوں میں اتنے تقسیم ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنی پاکستانی شناخت ہی ڈھونڈنا مشکل ہو گئی تھی ۔ دو لوگوں کی شروع کی ہوئی جماعت میں لاکھوں لوگ شامل ہو گئے ہیں ۔

ملک بھر سے لوگ جوگ در جوگ ہمارے قافلے میں شامل ہو رہے ہیں ۔ سید مصطفی کمال نے کہا کہ جلد منشور کا اعلان کریں گے ۔ ہمارے ملک میں جمہوریت ہے اور ہر کوئی چاہتا ہے کہ ملک میں جمہوریت ہو ۔ ہم ایسی جمہوریت کو نہیں مانتے ، جو اسلام آباد کے ایوانوں تک رہے یا سندھ اور بلوچستان میں رہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ گلی کوچوں میں اور ہر پاکستانی کے گھر کی دہلیز پر جمہوریت ہو ۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایسی جمہوریت چاہتے ہیں کہ جس میں اختیارات نچلی سطح تک ہو اور بنیادی مسائل کا حل یونین کونسلوں کی سطح پر ہو ۔ سکیورٹی کا نظام کمیونٹی پولیس کے پاس ہو ۔ اگر آپ ہمیں ہمارے بنیادی مسائل کا حل کا اختیار نہیں دے سکتے تو ہم ایسی جمہوریت کو رد کرتے ہیں ۔ ہمیں ہمارا حق اپنی دہلیز پر چاہئے ۔ مقامی حکومتوں کا نظام جمہوریت کی پہلی سیڑھی ہے ۔

یہ نظام وزیر اعلیٰ اور وزراء چلا رہے ہیں ۔ پینے کا پانی ، تعلیم ، صحت ، سڑکیں بنانا ، ارکان پارلیمنٹ کا کام نہیں بلکہ مقامی نمائندوں کا کام ہے ۔ آج اربوں روپے کا بجٹ خرد برد ہو رہا ہے ۔ ارکان پارلیمنٹ کا کام قانون سازی کرنا ہے ۔ بااثر افراد نے بجٹ کو خرد برد کرنے کے لیے کمپنیاں بنا رکھی ہیں ۔ ہم ایسی جمہوریت کو نہیں مانتے ۔ جمہوریت جب مضبوط ہو گی ، جب اختیارات مقامی حکومتوں کے نمائندوں کے پاس ہوں گے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں فوجی آپریشن ہو رہے ہیں ۔ کراچی اور بلوچستان میں بھی آپریشن ہو رہا ہے ۔ ان فوجی آپریشنز سے ملک کے مسائل حل نہیں ہوں گے ۔ گڈ گورننس بہتر کرکے اور عوام کی خدمت کرکے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں ۔ فوجی آپریشنز کے بعد جو علاقے کلیئر ہوئے ہیں ، وہاں عوام کے مسائل حل کرنا ہوں گے ۔ وہاں تعلیم عام کرنا ہو گی اور لوگوں کو روزگار دینا ہو گا ۔

انہو ں نے کہا کہ دنیا بھر میں یونین کونسلوں کو اختیارات دیئے بغیر عوام کی خدمت نہیں کی جا سکتی ۔ انہوں نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے نظام کے لیے کسی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے ۔ کوئی بھی وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ گاوٴں گوٹھوں میں جا کر خدمت نہیں کر سکتا ۔ عوامی خدمت مقامی حکومتوں کی نظام کی مضبوطی سے ممکن ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لوگ بات کرتے ہیں صبح کی ۔

لوگ بات کرتے ہیں کہ نئے صوبے بنائیں جائیں ۔ جب تک مقامی حکومتیں مضبوط نہیں ہوں گی ، تب تک نئے صوبے بنانے کا فائدہ نہیں ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم لوکل گورنمنٹ کا نظریہ پیش کر رہے ہیں ، جہاں یونین کونسلوں میں اختیارات مقامی لوگوں کے پاس ہوں گے ۔ نہ کرپشن ہو گی اور نہ نیب کی ضرورت ہو گی ۔ مقامی لوگوں کے پاس اختیارات ہوں گے تو محلے والے ہی اس شخص کا احتساب کر سکتے ہیں ۔

نیب نے آج تک کتنے لوگوں کو پکڑا اور کتنا پیسہ ریکور کیا ۔ ملک میں کرپشن مقامی حکومتوں کے نظام کو اختیارات ملنے کی وجہ سے ختم ہو گی ۔ انہوں نے کہا کہ ایک شخص کو سارے اختیارات اور پیسہ دے دیا جاتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ کھل کر خرچ کرو ۔ جب وہ خرچ کرتا ہے تو اس کے پیچھے نیب کو لگا دیا جاتا ہے ۔ اسی وجہ سے آج تک کرپشن ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی پاکستان میں اس کا پیسہ واپس لایا گیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے فارمولے پر ہی عمل کرکے ختم ہو سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں ہر دروازے پر ووٹ مانگنے نہیں بلکہ عوام سے ملنے جاوٴں گا اور ان کو کہوں گا کہ تم اپنے نظریہ پر قائم رہو۔ اگر سندھی ہو ، مہاجر یا کسی بھی قوم سے ہو اپنی قوم سے جڑے رہو ۔ پیپلز پارٹی سے ، مسلم لیگ (ن) سے ہو ، ایم کیو ایم سے ہو یا تحریک انصاف ہو ، کسی بھی جماعت سے ہو اپنی جماعت میں رہو لیکن میرا پیغام محبت اور امن کے لیے ہو گا ۔

میں لوگوں کو کہوں گا کہ جڑے رہو ۔ نفرتیں ختم کرو ۔ انہوں نے کہا کہ میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ میری بات سنو ۔ میں آپ کی بات سنو گا اگر آپ کو میری بات سمجھ آئے گی تو میرے ہو جانا ۔ نہیں تو ہم دونوں ایک دوسرے کے گلے ملیں گے اور کسی سے اختلافات نہیں رکھیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر مجھے فالو کرنا چاہتا ہو اور آج اس جلسے میں آ چکے ہو تو میری اس بات کو مانو کہ کسی مت لڑنا اور جس سے ناراض ہو کر آئے ہو اسے جا کر منا لینا ۔

میں حیران ہوں کہ 30 دنوں کی پارٹی میں اتنا جوش اور ولولہ ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ کسی سے دشمنی نہیں کرنی ۔ مصطفی کمال نے کہا کہ آج کے دن کے بعد کوئی پاکستانی کسی کی جان نہیں لے گا ۔ ہم ایسا معاشرہ بنانا چاہتے ہیں کہ لوگ کسی کو بھی ووٹ دیں ، جب واپس آئیں تو گلے ملیں اور ایک دوسرے کو جیت اور ہار کی مبارکباد دیں ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی دنیا بھر کا مشہور شہر تھا ۔

اس شہر کے پڑھے لکھے لوگوں کی ایک شناخت تھی ۔ دنیا بھر میں ان لوگوں کا ایک مقام تھا لیکن آج بدقسمتی سے اس شہر کے لوگوں پر ٹارگٹ کلر ، موبائل چھیننے اور را کے ایجنٹ کے الزامات لگے ۔ مختلف لوگوں کو مختلف ناموں اور گینگز سے ان کی شناخت ہوتی ہے ۔ ہم ان کی شناخت کو بدلیں گے ۔ کراچی ملک کا معاشی حب ہے ۔ یہ شہر زخمی زخمی ہو گیا ہے ۔ جو 70 فیصد انکم کما کر پورے ملک کو دیتا ہے ۔

کراچی سینٹرل ایشیا کا کردار ادا کرتا ہے ۔ یہ شہر ایک انکم انجن ہے لیکن آج اس شہر پر ایک بدنما داغ لگ چکا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس شہر نے جس نے بھی آکر سیاست کی ، اس نے صرف اپوزیشن کا کردار ادا کیا لیکن یہاں کے لوگوں کی بات نہیں دی ۔ یہاں کے لوگوں کے بنیادی مسائل پر بات نہیں کی ۔ کراچی میں ماس ٹرانزٹ کی بات کسی نے نہیں کی ۔ کسی نے ان ماوٴں سے ہمدردی نہیں کی ، جن کے بچوں کو ایجنٹ بنایا گیا ۔

کسی نے بھی یہاں کے لوگوں کے گھروں میں جا کر ان کے بچوں کے لیے تعزیت نہیں کی ۔ مصطفی کمال نے کہا کہ ہم اس شہر کو پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت بنائیں گے ۔ یہاں کوئی سندھی ، پختون ، پنجابی ایک دوسرے سے دست و گریباں نہیں ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم کراچی کی روشنیوں کو بحال کریں گے ۔ کراچی کو را کے ایجنٹوں کا نہیں بلکہ حب الوطنوں کا شہر بنائیں گے ۔

ایسا شہر بنائیں گے ، جو ملک کے دفاع ، تعلیم اور معاشی نظام میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرے ۔ آج ہم نے وطن پرستی کی بنیاد رکھ دی ہے ۔ ابھی ہمیں بہت سفر طے کرنا ہے ۔ آپ اس جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئے ہیں ۔ اس جھنڈے کی حرمت کو بحال رکھیں گے اور اپنے طرز عمل سے یہ ثابت کر دیں گے کہ ہم ایک ہیں ۔ پاکستانی ہیں اور اپنے طرز عمل سے گھروں میں موجود وہ لوگ جو ہمارا پیغام سن رہے ہیں ، وہ بھی ہمارے قافلے میں شامل ہو جائیں گے ۔

مصطفی کمال نے کہا کہ میں ان لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم ان کے پاس نہیں آئے تھے ۔ آج 24 اپریل کے جلسے کے بعد پاکستانیوں تیار ہو جاوٴ۔ ہم ایک ایک گلی میں آنے والے ہیں ۔ انہوں نے اپنے خطاب کے اختتام پر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا ۔ انیس قائم خانی نے کہا کہ جلسے میں آنے والے تمام لوگوں کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ آ ج کا دن 24 اپریل تاریخ میں وہ دن ہو گا ، جس دن انیس قائم خانی اور مصطفی کمال نے قومی پرچم کو اٹھایا ہے اور بتایا ہے کہ اس پرچم میں کتنی طاقت ہے ۔

تین مارچ کو صحافیوں نے کہا تھا کہ کہ یہ دو لوگ ہیں لیکن پھر ہمارا قافلہ شروع ہوا اور آج لاکھوں لوگ شامل ہو چکے ہیں ۔ تم سمجھتے تھے کہ ہمیں گھروں میں قید کر دو گے ۔ تم یہ سمجھتے تھے کہ چند لوگوں کے ہاتھوں میں ٹماٹر اور جوتے دے کر تم یہ سمجھتے تھے کہ ہمارا راستہ روک دو گے لیکن اب ہمارے پاس ایم کیو ایم کا نہیں بلکہ پاکستان کا پرچم ہے اور قومی پرچم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر اب تم نے کچھ کیا تو تمہارا ایسا گھیراوٴ کریں گے کہ تمہارا پاکستان میں جینا دوبھر ہو جائے گا ۔

انہوں نے کہا کہ جب کوئی وطن پرستی کے قافلے میں شامل ہوتا تھا تو میں کہتا تھا کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے ، آگے دیکھنا کیا ہوتا ہے ۔ انیس قائم خانی نے کہا کہ میں آج کہتا ہوں کہ تم نے مجھے نفرت سکھائی لیکن مصطفیٰ کمال نے مجھے پیار کرنا سکھایا ۔ آج پھر کہتا ہوں کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ۔ آج کراچی میں جلسہ کیا ہے ۔ اب پاکستان کے تمام بڑے اور چھوٹے شہروں میں جلسے کریں گے اور ہر جگہ پارٹی کا نہیں بلکہ پاکستان کا قومی پرچم لہرایا جائے گا ۔

انہوں نے کہا کہ اب یہ حرکتیں کرنا چھوڑو ۔ ہماری چند ماوٴں بہنوں کو آگے لانا چھوڑ دو ۔ اگر تم میں ہمت ہے تو بھارت کا پرچم چھوڑ کر پاکستان کا پرچم اٹھاوٴ ۔ اب ہر وقت ایک ہی نعرہ ہو گا ۔ پاکستان زندہ باد ، پاکستان زندہ باد ۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ صرف کراچی اور حیدر آباد کی پارٹی ہو گی لیکن میں اس جلسے کے توسط سے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ پورے پاکستان کی پارٹی ہو گی ۔

آج پاکستان کی ایک ہی امید اور ایک ہی آس ہے ، جو مصطفی کمال ہے ۔ انیس قائم خانی نے کہا کہ آج سب کو بتانا ہے کہ چاہے سندھی ، اردو ، پنجابی بولنے والے ہوں وہ اپنے حوصلے بلند رکھیں اور سب کو بتادیں کہ ابھی پارٹی شروع ہوئی ہے ۔ بلقیس مختیار نے کہاکہ ہمارے آباوٴ اجداد نے قربانیاں دے کر اور اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان بنایا تھا لیکن اس کے نام نہاد اور ملک دشمن لیڈروں نے اسے دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ہمارے نام نہاد لیڈر ایک دوسرے سے ملتے بھی ہیں ۔ ان کی دعوتیں بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو حلیم بھی کھلاتے ہیں اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ کر حکومت بھی کرتے ہیں لیکن عوام کو کچھ نہیں دیا ۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے ہمیں کیا شناخت دی بھتہ خور ، وطن دشمن اور دہشت گرد بنوادیا ۔ تہذیب و تمدن اور تعلیم ، مذہب چھین لیا ۔ اب ہمارے پاس کھونے کو کچھ نہیں بچا ۔

انہوں نے کہا کہ اب ہمیں پاکستان کی تقدیر کو بدلنا ہے ۔ اس سفر کا آغاز مصطفی کمال نے کیا ہے ۔ مصطفی کمال کے ہاتھ مضبوط کریں ۔ انہوں نے کہا کہ کوئی کسی بھی مذہب یا فرقے سے تعلق رکھتا ہے ۔ خدا کے لیے ماوٴں کی گودیں نہ اجاڑوں ۔ بہنوں کو بیوہ نہ کرو ۔ ان نام نہاد لیڈروں نے ملک کو کھوکھلا کر دیا ہے ۔ جب تک مائیں ، بہنیں اور بزرگ زندہ ہیں تب تک کوئی اس ملک کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا ۔

انہوں نے کہا کہ ہم را کے ایجنٹ نہیں ۔ چار پانچ افراد نے پوری قوم پر بدنما داغ لگایا ۔ اب مصطفی کمال نے پاکستان کا نعرہ لگایا ہے اور وہ قوم کو بچانے آئے ہیں ۔ اپنی ماوٴں ، بہنوں اور بزرگوں سے کہوں گی کہ وہ شعور کا مظاہرہ کریں ، جس قوم کی مائیں ، بہنیں باشعور ہوں اس کا کوئی نام و نشان نہیں مٹا سکتا ۔ بلقیس مختار نے ہم نہ ہوں ہمارے بعد پاک سرزمین شاد باد کا نعرہ لگوایا اور شرکاء سے عہد لیا کہ وہ اس وطن کے تحفظ اور استحکام کے لیے مصطفیٰ کمال کے ہاتھ مضبوط کریں ۔ انہوں نے کہا کہ دیگر قوم کے لوگ اردو بولنے والوں کے دل بڑا کریں ۔ ہم وطن پرست ہیں ، وطن دشمن نہیں ۔