امر یکہ نے پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی فروخت میں مدد پر پابندی لگا دی

اوباما انتظامیہ پاکستان کو ایف 16 فروخت کے حق میں ہے مگر امریکی پیسہ خرچ نہیں کیا جا سکتا،امریکی محکمہ خارجہ فیصلے سے ایف 16 کی فروخت کھٹائی میں پڑ نے کا خدشہ،پاکستان کو آٹھ ایف 16 طیارے خریدنے کیلئے اب ساری قیمت اپنی جیب سے خرچ کرنا پڑے گی ہتھیاروں کی فروخت ایک طویل عمل ہے ہم اس مخصوص صورتحال پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے، ترجمان پاکستانی سفارت خانہ ،ایف 16 کی فنڈنگ پر ’بات چیت ختم نہیں ہوئی‘طارق فاطمی ، کانگریس کو رضامند کرنا اوباما انتظامیہ کی ذمہ داری ہے،یہ سودا ابھی ختم نہیں ہوا ہے،بی بی سی ریڈیو کو انٹرویو

ہفتہ 30 اپریل 2016 09:48

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔30اپریل۔2016ء)پاکستان کو امریکہ سے آٹھ ایف 16 طیارے خریدنے کے لیے اب ساری قیمت اپنی جیب سے خرچ کرنا پڑے گی کیونکہ کانگریس نے اس کے لیے کسی طرح کی امریکی مدد دینے پر پابندی لگا دی ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر نے برطانوی خبررساں ادارے کو بتایا کہ اوباما انتظامیہ اب بھی پاکستان کو ایف 16 فروخت کے حق میں ہے لیکن اس کے لیے امریکی پیسہ خرچ نہیں کیا جا سکتا۔

امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے کے ترجمان ندیم ہوتانہ نے کہا ہے کہ ہتھیاروں کی فروخت ایک طویل عمل ہے اور اس وقت ہم اس مخصوص صورتحال پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔خیال کیا جا رہا ہے کہ اس فیصلے سے ایف 16 کی فروخت اب کھٹائی میں پڑ گئی ہے کیونکہ ماہرین کے مطابق پاکستان جہازوں کے لیے مکمل قیمت اپنی جیب سے خرچ نہیں کرے گا۔

(جاری ہے)

محکمہ خارجہ کے افسر کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کو یہ فیصلہ سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر باب ہارآر کے حکم پر لینا پڑا ہے کیونکہ کانگریس کے پاس یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اس رقم کو جاری نہ کرے۔

اس کے علاوہ انتظامیہ نے اس سال کے لیے دوسری ممالک کو دی جانے والی فوجی امداد میں پاکستان کے لیے 74 کروڑ بیس لاکھ ڈالر کا بجٹ کانگریس کے سامنے پیش کیا تھا اس کو بھی فی الحال روک دیا گیا ہے۔محکمہ خارجہ کے افسر کا کہنا تھا کہ یہ رقم پاکستان کو نہیں دیا جا سکتی لیکن اگر کانگریس اپنا ذہن تبدیل ہے تو اسے جاری کیا جا سکتا ہے،ان کا کہنا تھا کہ اوباما انتظامیہ اس معاملے پر کانگریس کے ساتھ مل کر کام کرتی رہے گی۔

پاکستان کے لیے یہ فیصلہ ایک بہت بڑا دھچکا مانا جا رہا ہے کیونکہ گذشتہ ماہ جب سے سینیٹ نے آٹھ ایف -16 طیاروں کی فروخت کو منظوری دے دی تھی تو لگا تھا کہ ساری دشواریاں ختم ہو گئی ہیں۔امریکی محکمہ دفاع کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق ان آٹھ طیاروں اور اس سے منسلک دوسرے آلات کی قیمت تقریباً 70 کروڑ ڈالر ہے۔اب تک یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ اس میں سے تقریباً 43 کروڑ ڈالر امریکی مدد کے تحت پاکستان کو ملتے اور تقریباً 27 کروڑ اسے اپنی جیب سے خرچ کرنے پڑتے۔

اس پیش رفت پر امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے کے ترجمان ندیم ہوتانہ نے کہا ہے کہ ہتھیاروں کی فروخت ایک طویل عمل ہے اور اس وقت ہم اس مخصوص صورتحال پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔ترجمان کے مطابق امریکی انتظامیہ پاکستان کی ایف سولہ جہازوں کی فروخت کی حمایت کا اعلان کر چکی ہے۔رجمان ندیم ہوتانہ کے مطابق پاکستان کے خیال میں دہشت گرد کے نیٹ ورکس سے خطرہ کی وجہ صلاحیت میں مسلسل اضافے کی ضرورت ہے اور دونوں حکومتیں اس مقصد کے لیے ان جہازوں کی فروخت سمیت دیگر اقدامات کے لیے مل کر کام کرتی رہیں گی۔

خیال رہے کہ اوباما انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو یہ طیارے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے فروخت کیے جا رہے ہیں۔لیکن امریکی کانگریس میں بہت سے ارکان نے اس پر اعتراض ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ ان کا استعمال صرف اور صرف بھارت کے خلاف ہو سکتا ہے جبکہ بھارت نے بھی اس فروخت پر اعتراضات کیے تھے۔بھارت کے اعتراضات کے بعد پاکستان کا کہنا ہے کہ اسے امریکہ سے ایف 16 طیاروں کی خریداری کے حوالے سے بھارتی حکومت کے ردعمل پر حیرانی اور مایوسی ہوئی ہے۔

اس کے بعد اوباما انتظامیہ نے بھارت اور بعض امریکی سینیٹروں کے اعتراضات کے باجود پاکستان کو آٹھ ایف16 طیاروں کی فروخت کے اپنے فیصلے کا دفاع کیا تھا۔ادھرامریکی کانگریس کی طرف سے پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فروخت کے لیے مالی مدد نہ فراہم کرنے کے فیصلے پر حکومت پاکستان کے امورِ خارجہ کے مشیر طارق فاطمی نے کہا ہے کہ کانگریس کو رضامند کرنا اوباما انتظامیہ کی ذمہ داری ہے اور یہ سودا ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔

بی بی سی اردو سروس کے ریڈیو پروگرام میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے طارق فاطمی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ امریکی کانگریس میں فارن ملٹری فنڈنگ یا بیرونی ممالک کو فوجی مالی امداد کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں لیکن امریکہ انتظامیہ کی طرف سے پاکستان کی فوجی امداد کی پیش کش اپنی جگہ موجود ہے۔یاد رہے کہ امریکی کانگریس نے ایف سولہ طیاروں کی خریداری کے لیے امریکی حکومت کی طرف سے پاکستان کو دی جانے والی امداد کی منظوری دینے سے انکار کر دیا ہے۔

اس کے باوجود طارق فاطمی نے اس یقین کا اظہار کیا کہ کیونکہ پاکستان کا مقدمہ بہت مضبوط ہے اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان بہت خدمات انجام دے رہا ہے اس لیے پاکستان کو یہ امداد مہیا کر دی جائے گی۔انھوں نے کہا کہ امریکی انتظامیہ سے اس معاملے پر بات چیت جاری ہے اور پاکستان کے سفارت کار کانگریس کے اراکین سے ملاقاتیں کر کے اس کوشش میں ہیں کہ انھیں پاکستان کے موقف سے آگاہ کیا جائے۔

طارق فاطمی نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں آٹھ ایف سولہ طیارے جن کے حصول کے لیے پاکستان نے درخواست کی ہے وہ بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور امریکہ کو اس کا پوری طرح احساس ہے۔طارق فاطمی نے کہا کہ گذشتہ دوبرس میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن پر پاکستان اپنے محدود وسائل سے دو ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ آپریشن نہ صرف پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے بلکہ اس کا فائدہ امریکہ اور افغانستان کے علاوہ خطے کے دوسرے ملکوں کو بھی پہنچ رہا ہے۔سینیٹ کی طرف سے فنڈ کی فراہمی پر پابندی کے فیصلے پر طارق فاطمی نے کہا کہ امید ہے کہ امریکہ انتظامیہ کانگریس کو رضامند کر لیے وگرنہ امریکی انتظامیہ کے پاس اور بھی بہت سے راستے ہوتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :