سینٹ قائمہ کمیٹی نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کی بھارت سے کاٹن کی درآمد فوری بند کرنے کی سفارش

رواں سال پنجاب میں کپاس کی کاشت 30 فیصد کم ہوگی‘ ملک بھر میں کپاس کے بیج کے معیار کو چیک کرنے کیلئے صرف 28 افسران ،ضلعی سطح پر کپاس کے بیج کا معیار چیک کرنے کا کوئی عملہ ہی موجود نہیں ،قائمہ کمیٹی میں انکشاف بتایا جائے اب تک کتنی کمپنیوں کو چیک کیا گیا اور کتنی کو سزا دی گئی ہے، کمیٹی کو کوئی رپورٹ پیش نہیں کی گئی ،چیئرمین قائمہ کمیٹی کی بیج کے معیار کو چیک کرنیوالے ادارے کے حکام کی سرزنش

جمعرات 19 مئی 2016 10:14

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔19 مئی۔2016ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ نے بھارت سے کاٹن کی درآمد فوری طو رپر بند کرنے کی سفارش کردی ہے۔ کمیٹی میں انکشاف کیا گیا ہے کہ رواں سال پنجاب میں کپاس کی کاشت 30 فیصد کم ہوگی‘ ملک بھر میں کپاس کے بیج کے معیار کو چیک کرنے کیلئے صرف 28 افسران ہیں جبکہ ضلع کی سطح پر کپاس کے بیج کا معیار چیک کرنے کا کوئی عملہ ہی موجود نہیں ہے ۔

2015 ء میں ایک لاکھ 36 ہزار 658 میٹرک ٹن چائے درامد کی گئی جس کی مالیت 31 ارب روپے بنتی ہے جبکہ 19 کروڑ 60 لاکھ روپے کی گرین ٹی (سبز چائے) درآمد کی گئی۔ گرین ٹی اور چائے کی درآمد کا 66 فیصد حصہ کینیا سے درآمد کیا گیا۔ کمیٹی کا اجلاس بدھ کے روز چیئرمین سید مظفر حسین شاہ کی زیر صدات پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں ممبران کی اکثریت نے شرکت کی کمیٹی نے وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ذیلی ادارے PNAC پی نیک سے ملت اور غازی ٹریکٹر کے انجنوں کے معیار سے متعلق رپورٹ آئندہ اجلاس میں طلب کرلی ہے۔

(جاری ہے)

چیئرمین کمیٹی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ سیڈ ایکٹ تو بن گیا ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔ ہمارے ہمسایہ ممالک زراعت پر سبسڈی دے رہے ہیں۔ انڈیا میں فصل پیداواری لاگت کا تعین کیا جاتا ہے اس کے بعد سپورٹ قیمت طے کی جاتی ہے لیکن پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ چیئرمین کمیٹی نے بیج کے معیار کو چیک کرنے والے ادارے کے حکام کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے کہ اب تک کتنی کمپنیوں کو چیک کیا گیا اور کتنی کمپنیوں کو سزا دی گئی ہے۔

اس حوالے سے کمیٹی کو کوئی رپورٹ پیش نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ بیج معیاری نہ ہونے کی وجہ سے کاٹن کی فصل اچھی نہیں ہوئی۔ ہمسایہ ملک بھارت میں بارہ اہم فصلوں کی کاشت سے پہلے پیداواری لاگت کا تعین کیا جاتا ہے اس کے بعد امدادی قیمت طے کی جاتی ہے گزشتہ سال پاکستان میں کاٹن کی فصل کی پیداواری لاگت 28 سو روپے فی ایکڑ تھی جبکہ قیمت 18 سو روپے تھی مظفر حسین شاہ نے کہاکہ 22 کروڑ روپے کی لاگت سے چلی پراسیس پلانٹ ضلع عمر کوٹ کندری کے مقام پر لگایا گیا تھا جس کو ابھی تک آپریشنل نہیں کیا گیا جبکہ یہ منصوبہ 2015 ء میں مکمل ہوگیا تھا۔

منیجنگ کمیٹی بنائی جائے اور جلد اس پر کام شروع کیا جائے۔ 27 مئی کو کمیٹی کندری عمر کوٹ میں پلانٹ کا معائنہ کرے گی انہوں نے کہاکہ یہ کاٹن ٹیکسٹائل منسٹری کے پا س ہے وہ طاقتور اور اثر و رسوخ والے ہیں اس لئے کاٹن ان کے پاس ہے جبکہ کاٹن کو منسٹری نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے پاس ہونا چاہیے تھی۔ وفاقی زویر نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ سکندر حیات بوسن نے کہا کہ کپاس کے بیج کے حوالے سے انٹرنیشنل کمپنیاں آجائیں گی تو مقابلے کی فضاء بنے گی جس سے بیج کا معیار بہتر ہوجائے گا۔

پاکستان گندم کی 26 ملین میٹرک ٹن کی فصل ہے جبکہ خریداری 7 بلین میٹرک ٹن کی ہوتی ہے ۔ پاکستان میں پیداواری لاگت بہت زیادہ ہے گندم کی قیمت 14 سو روپے فی ٹن بھی کردی جائے تو بھی کسانوں کو منافع نہیں ملے گا۔ اس لئے فصلوں کی پیداواری لاگت کم کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر گندم افغانستان جاتی تو مارکیٹ میں گندم کا ریٹ سرکاری ریٹ سے پچاس روپے کم ہوجاتا ۔

افغانستان پاکستا ن کی بجائے دوسرے ممالک سے گندم خرید رہا ہے کیونکہ پاکستان میں گندم کی قیمت زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ لو منافع کی خاطر فصلیں کاشت کرتے ہین اگر منافع ہی نہ ملے تو کون فصلیں کاشت کرے گا۔ ملت ٹریکٹر اور غازی ٹریکٹر کے معیار ٹھیک نہیں رہا اگر شو روم سے ٹریکٹر لے کر آنا ہو تو ساتھ مستری لے کر جانا پڑتا ہے اس طرح ان کا معیار گر چکا ہے اگر ان کے مقابلے میں باہر سے دوسرے ٹریکٹر درآمد کئے جائیں تو وہ ان کے مقابلے میں بہت اچھے رہین گے۔

ان پر ڈیوٹی کم کردی جائے تو لوگ باہر سے ٹریکٹر خریدنے میں زیادہ دلچسپی لیں گے۔ اب ان پر 34 فیصد ڈیوٹی ہے اس کو کم کردیا جائے تو دوسرے ٹریکٹر بھی مارکیٹ میں آجائیں گے جس سے مقابلے کی فضا قائم ہوگی اور اس سے معایر بہتر ہوگا۔ کسان سپورٹ پروگرام سروس پرائیویٹ لمیٹد کے حکام نے بھرتیوں کے حوالے سے اس ماہ کے آخر تک معاملہ حل ہوجائے گا اور آئندہ میٹنگ میں اس کی رپورٹ پیش کردی جائے گی۔

ایم ڈی پاسکو نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 9 لاکھ میٹرک ٹن باردانہ سندھ میں تقسیم کر چکے ہیں ۔ جبکہ ٹارگٹ 9 لاکھ سے زائد ہے اب تک 7 لاکھ 58 ہزار بیگ 18 مئی تک واپس آچکے ہیں۔ سندھ میں خریداری مکمل ہوچکی ہے کمیٹی نے واہگہ بارڈر کے ذریعے انڈیا سے کاٹن کی امپورٹ سختی سے روکنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے پاکستان کے کاٹن کے کاشتکاروں کو نقصان ہورہا ہے جبکہ پانچ لاکھ گانٹھیں بھارت سے واہگہ بارڈر کے ذریعے درآمد کی جاتی ہیں کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ کپاس کی قیمت ابھی سے طے کردی جائے تاکہ کپاس کی کاشت میں کمی نہ آئے۔

متعلقہ عنوان :