ایک سال کے دوران 12000گدھے کی کھالیں برآمد کی گئیں ،کھالوں سے چین میں کاسمیٹک کا سامان بنایا جاتا ہے،سینیٹ قائمہ کمیٹی ترقی یافتہ علاقہ جات میں انکشاف

اٹھارویں ترمیم نے وفاقی وزارت خوراک و زراعت کو اپاہج بنا دیا ،ر وزارت کا بجٹ 32ارب سے کم ہو کر1.5ارب رہ گیا ،کسانوں کو گندم کی قیمت اخراجات سے کم مل رہا ہے جس سے کسان مالی لحاظ سے مایوس ہو رہا ہے،وفاقی وزیر خوراک سکندر حیات بوسن

منگل 31 مئی 2016 09:56

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔31 مئی۔2016ء)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات میں انکشاف ہوا کہ ایک سال کے دوران 12000گدھے کی کھالیں برآمد کی گئی ہیں اور ان کھالوں سے چین میں کاسمیٹک کا سامان بنایا جاتا ہے۔پاکستان کی 500 ارب روپے کی برآمدات میں سے 250 ارب روپے کا حلال گوشت برآمد کیا جاتا ہے۔وفاقی وزیر خوراک و زراعت سکندر حیات بوسن نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم نے وفاقی وزارت خوراک و زراعت کو اپاہج بنا دیا ہے اور وزارت کا بجٹ 32ارب روپے سے کم ہو کر1.5ارب روپے رہ گیا ہے اور کسانوں کو گندم کی قیمت اخراجات سے کم مل رہا ہے جس سے کسان مالی لحاظ سے مایوس ہو رہا ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات کے مسائل بارے فنکشنل کمیٹی کا اجلاس کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر محمد عثما ن خان کاکٹر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

(جاری ہے)

جس میں کمیٹی کے پچھلے اجلاس میں دی گئی سفارشات اور وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی کی اور اس کے ذیلی اداروں کی فاٹا اور کم ترقی یافتہ اضلاع میں قائم سینٹرز کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔

کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ کم ترقی یافتہ علاقوں کے لوگ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں اور ایسے علاقوں پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ حکمرانوں اور بیورو کریسی نے سنجید گی کے ساتھ کام نہیں کیا اگرچہ کم ترقی یافتہ علاقوں میں زیادہ تر دارو مدار زراعت پر ہے تاہم کم ترقی یافتہ علاقوں میں رہنے والے لوگ روٹی کو ترس رہے ہیں ۔

سینیٹر عثمان کاکٹر نے کہا کہ منصوبہ بندی کو درست کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔اگر کم ترقی یافتہ علاقوں پر مناسب طو رپر توجہ دی جائے پورے ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔انہوں نے تجویز دی کہ 80 فیصد منصوبے کم ترقی یافتہ علاقوں میں ہونے چاہیے ۔کمیٹی نے ٹھوس قابل عمل منصوبوں کے سلسلے میں سفارشات بھی طلب کر لیں ۔کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ کم ترقی یافتہ علاقوں میں زرعی شعبے کی ترقی اور لائیوسٹاک کی پیدا وار میں اضافے کیلئے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کیے جائیں اور اس سلسلے میں تحقیق کے شعبے کی زیادہ سرپرستی کی جائے تاکہ ملک کی معیشت کو استحکام دیا جا سکے ۔

کمیٹی نے تجویز دی کہ دور دراز علاقوں میں جدید ریسرچ سینٹرز کے قیام کیلئے اقدامات کیے جائیں جبکہ بلوچستان ،فاٹا اور دیگر دور افتادہ علاقوں میں جہاں زیتون کی کاشت ممکن ہے کیلئے زیادہ زیادہ سے فنڈز مختص کیے جائیں جبکہ پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے چھوٹے ڈیمز تعمیر کیے جائیں اور بجلی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے شمسی توانائی کے ذریعے بجلی فراہم کر کے فصلوں کو تباہی سے بچایا جائے ۔

وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی سکند حیات بوسن نے کہا کہ زراعت کے شعبے کو مسائل درپیش ہیں کپاس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ابھی تک پچھلے سال کی گانٹھیں بھی پڑی ہیں مگر ایبٹما خریدنے کو تیار نہیں اور بیرون ملک سے کپاس خریدی جارہی ہے جس سے مقامی کاشت کار کو کافی پریشانی کا سامنا ہے جبکہ ملک میں گندم کی قیمت 1300 روپے فی من ہے ۔وزارت کے حکام نے بتایا کہ زراعت کی بحالی کیلئے منصوبہ تیار کیا ہے جس پر 30 ارب روپے لاگت آئے گی اور اس سلسلے میں منظوری کیلئے وزیراعظم کو سمری بجھو ا دی گئی ہے وزارت کے حکام نے بلوچستان ، فاٹا اور دیگر کمی ترقی یافتہ علاقوں میں قائم سینٹر کی کاردگی سے کمیٹی کا آگاہ کیا کمیٹی کا بتایا گیا کہ بلوچستان کے 10 اضلاع میں ابتدائی طور پر ایک لاکھ زیتون کے پودے کاشت کیے گئے ۔

کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ کم ترقی یافتہ علاقوں میں زیتون کے درخت کی پیداوار کے حوالے سے کافی گنجائش پائی جاتی ہے انہوں نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں اور ا س منصوبے پر خصوصی توجہ دی جائے جبکہ فاٹا اور چترال میں بھی ریسرچ سینٹرز کے قیام اور انہیں فعال بنانے کیلئے اقدامات کیے جائیں ۔آج کے اجلاس میں سینیٹرز ثمینہ عابد، ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی ، مولانا تنویر الحق تھانوی ، نثار محمد خان، مسز خالدہ پروین ، گیان چند اور سردار محمد اعظم خان موسیٰ خیل نے شرکت کی ۔