وفاقی وزیرخزانہ نے 17-2016 کیلئے44 کھرب روپے کا بجٹ پیش کر دیا

وفاقی ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں دس فیصد اضافہ ٗ صنعتی برآمدات کے5بڑے شعبوں ٹیکسٹائل، چمڑے، قالین بافی، کھیلوں کی مصنوعات اور سرجری کے آلات کوزیرو ریٹڈ سیلز ٹیکس کے نظام کے تحت کر دیا جائیگا ٗدفاع کیلئے 860 ارب روپے مختص موبائل فونز ٗ سیمنٹ ٗ سگریٹ ٗ پان ٗ چھالیہ مہنگے ٗڈی پی اے ٗیوریا کھاد ٗ لیپ ٹاپ کمپیوٹرز سستے ہوگئے سیلز ٹیکس میں نان رجسٹر ڈتاجروں پر ٹیکس کی شرح 17.5 سے بڑھا کر 20 فیصد کر دی گئی ٗ پرائز بانڈ کی انعامی رقم پر بھی نان فائلرز کیلئے ٹیکس پندرہ سے بڑھا کر بیس فیصد کر دیا گیا ٗمزدور کی کم از کم تنخواہ 14ہزار روپے کر دی گئی

ہفتہ 4 جون 2016 10:33

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔4 جون۔2016ء) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئندہ مالی سال برائے 17-2016 کیلئے 44 کھرب روپے کا بجٹ پیش کر دیا ہے ٗ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں دس فیصد اضافہ کر دیا گیاہے ٗ صنعتی برآمدات کے5بڑے شعبوں ٹیکسٹائل، چمڑے، قالین بافی، کھیلوں کی مصنوعات اور سرجری کے آلات کوزیرو ریٹڈ سیلز ٹیکس کے نظام کے تحت کر دیا جائیگا ٗ دفاع کیلئے بجٹ میں 860 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ٗموبائل فونز ٗ سیمنٹ ٗ سگریٹ ٗ پان ٗ چھالیہ مہنگے جبکہ ڈی پی اے ٗیوریا کھاد ٗ لیپ ٹاپ کمپیوٹرز سستے کر دیئے گئے ٗ زرعی آلات پر ڈیوٹی 5 فیصد سے کم کر کے دو فیصد کر دی گئی ٗ ٹیوب ویل کیلئے بجلی کا یونٹ 8 روپے کے بجائے 5 روپے 35 پیسے کا ہو گیا ٗ ایل ای ڈی لائٹس پر درآمدی ڈیوٹی 20 سے کم کر کے 5 فیصد کر دی گئی ہے۔

(جاری ہے)

سولر پینل کے حصول کی درآمد پر ڈیوٹی کی چھوٹ پر ایک سال کی توسیع برقرار رکھی گئی ہے ٗ جائیداد کی خرید و فروخت پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جائیگا ٗ سیلز ٹیکس میں نان رجسٹر ڈتاجروں پر ٹیکس کی شرح 17.5 سے بڑھا کر 20 فیصد کر دی گئی ٗ پرائز بانڈ کی انعامی رقم پر بھی نان فائلرز کیلئے ٹیکس پندرہ سے بڑھا کر بیس فیصد کر دیا گیا ٗمزدور کی کم از کم تنخواہ 14ہزار روپے کر دی گئی ۔

جمعہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیرصدارت شروع ہوا جس میں وفاقی ویزخزانہ اسحاق ڈارنے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے ہوے کہاکہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی پیش گوئیاں کرنے والے ناکام ہوگئے، ہماری حکومت نے ملک کو نا صرف دیوالیہ ہونے سے بچایا بلکہ معیشت بھی مستحکم کی اور معاشی ترقی بھی ہوئی اور مہنگائی کو روکا گیا ٗ اقتصادی اشاریئے ہماری کارکردگی کے عکاس ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہر بجٹ میں ہماری کارکردگی پچھلے سال سے بہتر رہی ہے، رواں سال معاشی ترقی کی شرح 4.7 فیصد ہے اور یہ مزید بہتر ہوتی اگر کپاس کی فصل کو نقصان نہ ہوتا جس کی وجہ سے قومی پیداوار میں کمی واقع ہوئی۔وزیز خزانہ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی ملازمین کو یکم جولائی 2016 سے رننگ بیسک پر 10 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس دیا جائے گا، 2012 اور 13 کے ایڈہاک الاؤنس کو بنیادی تنخواہ میں شامل کردیا گیا ہے، وفاقی ملازمین کی پنشن میں بھی 10 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے ٗ وفاق کے 85 سال سے زائد عمر کے پنشنرز کی پنشن میں 25 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے، وفاقی ملازمین کے لیے ایم فل الاؤنس 2500 روپیماہانہ کردیا گیا ہے اور ایڈیشنل چارج اور ڈیپورٹیشن الاؤنس 6 ہزار روپے سے بڑھا کر 12 ہزار روپے کردیا گیا ہے، گریڈ 1 سے 15 کے وفاقی ملازمین،کنونس الاؤنس میں 50 فیصد اضافہ کیا گیا، اس کے علاوہ مزدور طبقے کی کم سے کم اجرت 13 ہزار سے بڑھا کر 14 ہزار روپے کردی گئی ہے۔

اسحاق ڈار نے اعلان کیا کہ وفاق کے خطیب کی پوسٹ گریڈ 12 سے 15، مؤذن کی پوسٹ گریڈ 7 اور خادم کی گریڈ 6 کردی گئی جب کہ یوڈی سی کی پوسٹ گریڈ 9 سے 11، ایل ڈی سی کی پوسٹ گریڈ 7 سے اپ گریڈ کرکے 9، اسسٹنٹ کی پوسٹ گریڈ 14 سے 16 اور اسسٹنٹ انچارج گریڈ 15 سے 16 کردیا گیا ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ بجٹ میں بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کے لیے 115 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں وزیر خزانہ نے کہاکہ معذور افراد کا اسپیشل کنونس الاؤنس 1 ہزار روپے ماہانہ کیا جارہا ہے۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ 77۔ 2015-16ء کے 3,400 ارب روپے کے مقابلے میں 2016-17 کے جاری اخراجات کا تخمینہ 3,282 ارب روپے ہے جوکہ نارمل ٹرمز میں اخراجات کی کمی کو ظاہر کرتا ہے تاہم دفاعی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم نے افواج پاکستان کے دفاعی بجٹ کے لیے 2015-16 کے 776 ارب روپے کے مقابلے میں 2016-17 میں 860 ارب مختص کیے ہیں جوکہ 11 فیصد کا اضافہ ہے۔ ایک ترقی پذیر معیشت کی سرمایہ کاری کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ترقیاتی بجٹ کے لیے مناسب رقوم رکھی گئی ہیں۔

2015-16 کے نظرثانی شدہ 661 ارب روپے کے مقابلے میں 2016-17 میں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے 800 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ جوکہ 21 فیصد کا اضافہ ہے۔ اس میں سیکورٹی بڑھانے کے لیے خصوصی ترقیاتی پروگرام اور عارضی بے گھر افراد کی واپسی اور بحالی کے لیے بھی رقوم رکھی گئی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم بجٹ 2015-16 میں بجٹ خسارے کو کم کرکے 4.3 فیصد پہ لا رہے ہیں۔

آئندہ سال اسے مزید کم کرکے 3.8 فیصد پر لانے کا ہدف رکھا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ ، ہائرایجوکیشن کے لیے 21.5 ارب ، ریلوے کے لیے 78 ارب ، متاثرین فاٹا کے لئے 100 ارب، سرحدی امورکے ترقیاتی منصوبوں کے لئے 22 ارب، پانی کے منصوبوں میں 32 ارب، پاکستان بیت المال کے فنڈزکو 4 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ آئندہ مالی سال میں ترقیاتی پروگرام کے لیے 800 ارب روپے مختص کرنے کی کی تجویز ہے اور کارپوریٹ ٹیکس 31 فیصد کردیا گیا ہے، وزیراعظم کے انٹرن شپ پروگرام ، دیگرمنصوبوں پر ایک ارب روپے خرچ ہوں گے، موبائل فونزکی درآمد پرسیلز ٹیکس میں 500 روپے اضافہ کیا گیا اور مواصلاتی نظام کیلئے 188 ارب روپے رکھے ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ مالی خسارہ کم ہوکر 4.3 فیصد پر لایا جارہا ہے ٹیکس میں جی ڈی پی کی شرح بڑھ چکی ہے۔ شرح سود 40 سال کی کم ترین سطح 5.75 فیصد پر آ گئی ہے اور برآمدات 32.7 ارب ڈالر رہی۔ روپے کی قدر کئی سالوں سے مستحکم سطح پر موجود ہے۔ ملک کے زرمبادلہ ذخائر 21 ارب 60 کروڑ کی ریکارڈ سطح پر ہیں۔ انہوں نے کہا ملک کی تینوں اسٹاک ایکسچینج ایک بن چکی ہے۔

آئندہ مالی سال مالی خسارے میں کمی کر کے 3.8 فیصد پر لایا جائے گا۔ ایکٹ میں ترمیم کر کے وفاق کے قرضوں کا نیا ہدف مقرر کیا جا رہا ہے۔ ملک کے مجموعی قرضوں کو 60 فیصد تک لائے اور آئندہ 15 سال میں مجموعی قرضوں کو 50 فیصد تک لایا جائے گا۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہاکہ جب حکومت میں آئے تو بدترین توانائی بحران کا سامنا تھا۔ بہتر اقدامات سے لوڈشیڈنگ کی صورتحال بہتر بنائی۔

مارچ 2018 تک 10 ہزار میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کی جائے گی جس سے ملک میں جاری توانائی بحران ختم ہو جائے گا وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ توانائی کے شعبے پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ شعبے کیلئے مجموعی طور پر 380 ارب روپے کا ریکارڈ بجٹ رکھا گیا۔ وفاقی بجٹ میں خیبر پختونخوا میں تعمیر کئے جانے والے داسو ڈیم کے لئے 42 ارب روپے مختص کئے گئے ۔

نیلم جہلم ہائیڈل کے لیے 61 ارب روپے رکھے گئے۔ ایل این جی سے بجلی پیدا کرنے کے 3 منصوبوں کیلئے 60 ارب رکھنے کی تجویز ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کیلئے 32 ارب روپے رکھے گئے۔ تربیلا چوتھے توسیعی منصوبہ کے لیے 16 ارب مختص کئے گئے۔ چشمہ نیو کلیئر تھری اور فور کیلئے 22 ارب رکھنے کی تجویز ہے۔ گومل زام ڈیم کیلئے 2 ارب ، کچھی کینال کیلئے 5 ارب مختص کئے گئے ۔

اٹامک انرجی کمیشن کیلئے 27 ارب 56 کروڑ رکھنے کی تجویز ہے۔ بلوچستان میں 100 چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے لئے 20 ارب روپے رکھے گئے۔ بجٹ میں ست پارہ ڈیم، نائے گاج ڈیم کی تعمیر کے لئے بھی فنڈ رکھے گئے۔ حکومت توانائی کے شعبے کو 157 ارب روپے فراہم کرے گی ۔ پاور سیکٹر 253 ارب روپے کے فنڈز کا خود بندوبست کرے گا۔ واپڈا کے توانائی منصوبوں کیلئے 130 ارب روپے مختص۔

پانی کے منصوبوں کیلئے واپڈا کو 31 ارب روپے ملیں گے۔ پن بجلی کے منصوبوں کے لیے 119 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ آئندہ مالی سال کے لئے 1675 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ پیش کر دیا گیا۔ وفاق کے ترقیاتی بجٹ کا حجم 800 ارب صوبوں کے ترقیاتی بجٹ کا حجم 875 ارب روپے رکھا گیا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا آئندہ مالی سال کے لئے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہاکہ اقتصادی راہداری تاریخی منصوبہ ہے جو خطوں کو ملائے گی جس پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔

منصوبے پر 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی۔ گوادر کی ترقی کیلئے خصوصی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ لاہور کراچی موٹروے سے ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ بجٹ میں ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے شعبے کیلئے 260 ارب مختص کئے گئے۔ ترقیاتی بجٹ میں سب سے بڑا حصہ 188 ارب روپے این ایچ اے کو ملے گا۔ پاک چین اقتصادی راہداری کیلئے 125 ارب مختص کئے گئے۔ لاہور سے خانیوال موٹروے کیلئے 34 ارب روپے رکھے جائیں گے۔

ملتان سکھر موٹروے کے لیے 22 ارب 87 کروڑ رکھنے کی تجویز ہے۔ برہان سے ڈی آئی خان موٹروے 22 ارب روپے مختص کئے گئے۔ ریلوے کے مجموعی بجٹ کا حجم 114ارب روپے ہو گا۔ 78 ارب حکومت فراہم کرے گی جبکہ ریونیو سے 36 ارب روپے حاصل کرنے کا ہدف ہے۔ ترقیاتی بجٹ میں ریلوے کے لئے 41 ارب روپے مختص کئے گئے۔ پورٹس اینڈ شپنگ کیلئے بھی 12 ارب 80 کروڑ روپے رکھنے کی تجویز ہے۔

بجٹ تقریر میں اسحاق ڈار نے کہا کاشتکاروں کو معیاری بیج کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ اسحاق ڈار نے بجٹ میں کاشتکاروں کے لیے بڑے پیکج کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ ڈی اے پی کی بوری کی موجودہ قیمت 2800 روپے ہے، حکومت سے حالیہ مذاکرات کے نتیجہ میں انڈسٹری نے اس قیمت میں بھی 50 روپے کم کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ یکم جولائی 2016ء سے ڈی اے پی کی قیمت کو 2500 روپے پر لایا جائے۔

اس سلسلہ میں ماضی کی طرح وفاقی اور صوبائی حکومتیں سبسڈی کی رقم جو 10 ارب روپے ہو گی، برابر برابر ادا کریں گی۔ زرعی آلات پر ڈیوٹی 5 فیصد سے کم کر کے دو فیصد کر دی گئی ۔ زرعی ادویات پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا۔ ٹیوب ویل کے لیے بجلی کا یونٹ 8 روپے کے بجائے 5 روپے 35 پیسے کا ہو گیا ۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ زراعت پاکستان کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ 44فیصد آبادی کو براہ راست روزگار مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا جی ڈی پی میں 21فیصد حصہ ہے۔

قومی غذائی تحفظ کا انحصار بھی زراعت پر ہی ہے لہٰذا زرعی شعبے کی کارکردگی میں بہتری سے جی ڈی پی اور زرعی پیداوار میں اضافہ دیہی آبادی کی آمدنی میں اضافے کا باعث ہوتا ہے۔وزیر خزانہ نے کہاکہ اجناس کے بڑھتے ہوئے ذخائر، کم ہوتی ہوئی قیمتیں اور غیر موزوں موسمی حالات کی وجہ سے زراعت کا شعبہ عالمی طور پر بحران کا شکار رہا ہے جس کے نتیجے میں زرعی آمدن میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔

وزیراعظم محمد نواز شریف نے زرعی پیداوار کے لئے سستی کھاد، بیج، قرضے اور پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے ستمبر 2015ء میں 341ارب روپے کے تاریخی کسان پیکج کا اعلان کیا تھا وزیرخزانہ نے کہاکہ انہوں نے کاشتکاروں کیلئے تاریخ کا سب سے بڑا پیکج دیا جس سے کسانوں کے مسائل کم ہوں گے اور زراعت ترقی کرے گی۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ زرعی قرضوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے اور قرضوں کے نرخ میں کمی کیلئے حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔

اسحاق ڈار نے کہاکہ کاشتکاروں خاص طور پر چھوٹے کسانوں کو زرعی قرضوں کی سہولیات میں اضافہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ گذشتہ 3 سالوں میں زرعی قرضوں کا حجم 2012-13ء میں 336 ارب روپے سے بڑھ کر 2015-16ء میں 600 ارب روپے ہو رہا ہے۔ اگلے مالی سال 2016-17ء کیلئے اس حجم کو بڑھا کر 700 ارب روپے کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ حکومت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذریعے زرعی ترقیاتی بینک، نیشنل بینک آف پاکستان، بینک آف پنجاب اور پنجاب کوآپریٹو بینک کے مارک اپ کو 2 فیصد تک کم کرنے کیلئے حکمت عملی تشکیل دی ہے۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ ، لائیو سٹاک اور پولٹری کے شعبہ جات کی درآمد پر عائد 5 فیصد کسٹم ڈیوٹی کی شرح کو کم کرکے 2 فیصد کیا جا رہا ہے۔ٗ فش فیڈ کیلئے کسٹم ڈیوٹی 5 فیصد سے کم کر کے 2 فیصد کی جا رہی ہے ٗمچلی اور جھینگے کی خوراک پر ڈیوٹی ختم کر دی گئی اور مچھلی کے بچوں کی درآمد پر بھی کسٹم ڈیوٹی کو بھی ختم کر دیا ہے۔ اسحاق ڈار نے کہاکہ مچھلی کی خوراک پر 10 فیصد ڈیوٹی عائد ہے جبکہ کیکڑے/جھینگے کی خوراک پر یہ ڈیوٹی 20 فیصد ہے۔

ان دونوں کی خوراک کی درآمد پر عائد ڈیوٹی کو ختم کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح زندہ چھوٹی مچھلیوں کی درآمد پر عائد 10 فیصد کسٹم ڈیوٹی کو بھی ختم کیا جا رہا ہے وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت ٹیکسٹائل کی صنعت کو جدید بنانے پر ٹیکس کریڈٹ کی چھوٹ 3 سال تک بڑھانے کا اعلان کرتی ہے اور خام مال اور مشینری پر کسٹم ڈیوٹی 5 فیصد سے کم کر کے 3 فیصد کر دی گئی ہے۔

ایل ای ڈی لائٹس پر درآمدی ڈیوٹی 20 سے کم کر کے 5 فیصد کر دی گئی ہے۔ سولر پینل کے حصول کی درآمد پر ڈیوٹی کی چھوٹ پر ایک سال کی توسیع برقرار رکھی گئی ہے۔ اسحاق ڈار نے کہاکہ جائیداد کی خرید و فروخت پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جائے گا۔ سیل ٹیکس میں نان رجسٹر تاجروں پر ٹیکس کی شرح 17.5 سے بڑھا کر 20 فیصد کر دی گئی۔ انعامی بانڈ کی رقم پر نان فائلرز سے ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دی گئی ہے۔

1 کروڑ سالانہ سیل پر 1 فیصد ٹیکس لاگو ہو گا۔ صوبوں میں وصول کی جانے والے سیلز ٹیکس والی اشیاء پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کر دی گئی۔ ان کا مزید کہنا تھا سیمنٹ پر فی کلو پر 1 روپے سیلز ٹیکس لگ گیا اور 5 فیصد فیڈرل ڈیوٹی ختم ہو گئی۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ بجٹ میں سگریٹ پر مزید سیلز ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کم درجے کے سگریٹ پر 23 پیسے ٗ اعلیٰ درجے کے سگریٹ پر 55 پیسے ٹیکس عائد کرنے ٗپان اور چھالیہ پر عائد موجودہ ڈیوٹی کو دگنا کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

آئندہ مالی سال کے بجٹ میں لیپ ٹاپ اور ڈیسک ٹاپ پر سیلز ٹیکس ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے وزیر خزانہ نے کہاکہ اس وقت سیمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی کی شرح 5 فیصد ہے۔ اس نظام میں تبدیلی کرکے ایک روپیہ فی کلو کی شرح سے ڈیوٹی لگانے کی تجویز ہے۔موبائل فون درآمد پر ٹیکس کی شرح کو موجودہ قیمتوں کے مطابق لانے کے لئے اعلیٰ اور درمیانے درجے کے موبائل فون پر سیلز ٹیکس کو بالترتیب 500 اور 1000 روپے سے بڑھا کر 1000 اور 1500 روپے کرنے کی تجویز ہے۔

نچلے درجے کے موبائل فون پر ٹیکس کی شرح بدستور 500 روپے رہے گی۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ سگریٹ کے استعمال کی حوصلہ شکنی اور اس مضر صحت شے سے زیادہ ٹیکس کے حصول کے لئے سگریٹ پر ایکسائز ڈیوٹی کو دو مرحلوں میں بڑھانے کی تجویز ہے جس میں پہلا مرحلہ 30 نومبر تک ہے۔ نچلے درجہ کے سگریٹ کے ریٹ میں تقریباً23 پیسہ فی سگریٹ اور اعلیٰ درجہ کے سگریٹ میں تقریباً 55 پیسہ فی سگریٹ اضافہ کی تجویز ہے۔

126۔ اس وقت Aerated Water پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 10.5 فیصد کی رعایتی شرح سے نافذ ہے۔ اس کو بڑھا کر 11.5 فیصد کی رعایتی شرح لاگو کرنے کی تجویز ہے۔حکومت نے بجٹ میں مقامی ٹی وی چینلز پر چلنے والے غیرملکی ڈراموں اور سیریلز پر ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے اور بیرون ملک اشتہارات پر لاگت کر 20 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی ہے۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ ملک میں فی کس آمدنی میں اضافہ ہوا ہے اور یہ بڑھ کر 1561 ڈالر فی کس ہوگئی ہے ٗ مہنگائی میں 2.8 فیصد کی کمی آئی ہے جو کہ گذشتہ 10 سال میں سب سے کم ترین سطح پر ہے۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ گذشتہ مالی سال کے دوران مالی خسارہ 4.3 فیصد تک آگیا جسے مالی سال 17-2016 میں کم کرکے 3.8 کردیا جائے گا۔وزیر خزانہ نے کہاکہ گزشتہ تین سالوں کے دوران ٹیکسوں کی وصولی میں 60 فیصد اضافہ ہوا جب کہ جون کے اختتام تک ٹیکسوں کی وصولی کا 3104 ارب روپے کا ہدف حاصل کر لیں گے۔اسحاق ڈار نے بتایا کہ دیہی علاقوں کو ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے 4 نئے منصوبے شروع کیے جارہے ہیں جس کے لیے 11 ارب 94 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔

انھوں نے بتایا کہ ہماری حکومت نے ترقیاتی اخراجات میں کمی کیے بغیر مالی نظم و ضبط کو برقرار رکھا، حکومت نے گذشتہ مالی سال کے لیے ترقیاتی بجٹ 348 ارب روپے سے بڑھا کر 661 ارب روپے کیا تھا، جبکہ مالی سال 17-2016 میں ترقیاتی اخراجات کے لیے 800 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہاکہ پاکستان کی صنعتی برآمدات 5بڑے شعبوں یعنی ٹیکسٹائل، چمڑے، قالین بافی، کھیلوں کی مصنوعات اور سرجری کے آلات پر مشتمل ہیں۔

ان پانچ شعبوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے یکم جولائی 2016ء سے ان شعبوں کو زیرو ریٹڈ سیلز ٹیکس کے نظام کے تحت کر دیا جائے گا۔ اسحاق ڈار نے کہاکہ ملازمتوں کی دستیابی اور صنعتی ترقی کو فروغ دینے کیلئے جون 2018ء تک روزگار کے مواقع فراہم کرنے والی صنعتوں کو 50 ملازموں پر واجب الادا ٹیکس پر دیا جانے والا ٹیکس کریڈٹ ایک فیصد سے بڑھا کر 2 فیصد کرنے کی تجویز ہے اور یہ رعایت جون 2019ء تک قائم ہونے والی صنعتوں کو 10 سال کیلئے حاصل ہو گی۔

اسحاق ڈار نے کہاکہ سرمایہ کاری پر دیئے جانے والے استثنیٰ کی 30 جون 2017ء کو ختم ہونے والی مدت میں 30 جون 2019ء تک اضافہ تجویز کیا گیا ہے ٗانڈسٹریل سیکٹر کی جی ڈی پی میں مزید اضافہ کیلئے دو ہزار سے زائد اشیاء خصوصاً مشینری اور خام مال پر موجودہ پانچ فیصد کسٹم ڈیوٹی کو کم کر کے تین فیصد کرنے کی تجویز ہے جس سے صنعتی شعبے کو 18 ارب روپے کا فائدہ ہوگا۔

اسحاق ڈار نے کہاکہ وفاقی وزارت صحت نے صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر وزیراعظم ہیلتھ انشورنس سکیم کا آغاز کیا ہے۔ اس کا مقصد غریب طبقے کو صحت کی سہولیات فراہم کرنا ہے۔ اس سکیم کے تحت متعدد موذی امراض کے علاج اور ہسپتال داخل ہونے کیلئے بیمہ کی سہولت مہیا کی جائے گی۔ 2015-18 ء کے دوران اس سکیم کے تحت 9 ارب روپے پریمیم ادا کیا جائے گا۔ ابتدا میں یہ سکیم 23 اضلاع میں شروع کی جارہی ہے۔

آہستہ آہستہ اس کا دائرہ کار معاشرے کے غریب ترین طبقے تک پھیلایا جائے گا۔ آئندہ مالی سال میں سکیم میں شریک ہسپتالوں کی طبی سہولتیں بہتر بنانے کیلئے نرم شرائط پر قرضے فراہم کئے جائیں گے۔ ان قرضوں کی مدد سے شریک ہسپتال صحت کی سہولیات بشمول ماں اور بچے کیلئے طبی سہولیات کو بہتر بنانے پر توجہ دے سکیں گے۔ قرضہ رعایتی نرخوں پر دستیاب ہوں گے جس کیلئے مارک اپ پر Subsidy دی جائے گی اور قرضہ کے رسک میں شراکت کی جائیگی۔


وفاقی وزیر برائے خزانہ اسحاق ڈار نے سینٹ میں مالیاتی بل 2016 پیش کر دیا ہے چیئرمین سینٹ نے پیر 6 جون تک اراکین سینٹ سے بجٹ سفارشات جمع کرانے کی ہدایت کر دی ہے ۔ سینٹ میں پارٹی کے پارلیمانی لیڈروں کو بجٹ پر تقریر کرنے کے لئے 25 منٹ اور دوسرے اراکین سینٹ کو 15 منٹ کا ٹائم دیا جائے گا ۔سینٹ کا اجلاس چیئرمین سینٹ رضا ربانی کی زیر صدارت جمعہ کے روز منعقد ہوا جس میں ممبران کی تعداد کافی کم رہی ۔

اجلاس میں رمضان المبارک میں سینٹ کا اجلاس کے حوالے سے ٹائم طے کرنے کے لئے چیئرمین سینٹ نے اعتزاز احسن اور شاہد اللہ سے کہا کہ بتائیں کہ رمضان البمارک میں اجلاس کس وقت بلایا جانا چاہئے اس پر اعتزاز احسن نے ایک بجے کا کہا اور شاہد اللہ نے 3 بجے کا کہا جس پر چیئرمین نے کہا کہ رمضان المبارک میں سینٹ کا اجلاس 2:30 پر بلایا جائے گا جس سے سینٹ کے ملازمین کو کافی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اس طرح سے فیصلہ کیا گیا کہ پیر کو اجلاس ڈھائی بجے بلایا جائے گا ۔

متعلقہ عنوان :