اسٹیٹ بنک ،ایس ای سی پی کے ساتھ ملکر آف شور کمپنیوں کا قانون بنا رہے ہیں،ایف بی آر

دبئی میں پراپرٹی خریدنے والے پاکستانی شہریوں کی معلومات حاصل کرنے کے تین سال سے دبئی حکومت سے رابطے کر رہے ہیں مگر وہ معلومات نہیں دے رہے ملک میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد گیارہ لاکھ جن میں 3لاکھ 9ہزار سرکاری ملازمین ہیں، 35فیصد ریونیو ڈائریکٹ ٹیکسز سے حاصل کر رہا ہں،ترجمان کی بریفنگ

منگل 7 جون 2016 10:18

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔7جون۔2016ء) فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر ) کے ترجمان ڈاکٹراقبال نے کہا ہے کہ ایف بی آر حکام اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور ایس ای سی پی کے ساتھ مل کر آف شور کمپنیوں کے حوالے سے نیا قانوں بنانے پر کام کر رہے ہیں دبئی میں پراپرٹی خریدنے والے پاکستانی شہریوں کی معلومات حاصل کرنے کے تین سال سے دبئی حکومت سے رابطے کر رہے ہیں مگر وہ معلومات نہیں دے رہے ،ملک میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد گیارہ لاکھ ہے جس میں سے 3لاکھ 9ہزار سرکاری ملازمین ہیں ایف بی آر 35فیصد ریونیو ڈائریکٹ ٹیکسز سے حاصل کر رہا ہے رواں مالی سال کے بجٹ میں148ارب میں سے 115ارب روپے کے براہ راست ٹیکس لگائے گئے ہیں جبکہ خبر رساں ادارے ذرائع کے مطابق حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں300ارب روپے کے ٹیکس لگائے ہیں پیر کو بجٹ کے بارے میں ایف بی آر ممبران نے تکنیکی بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کہ ایف بی آر حکام اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور ایس ای سی پی کے ساتھ مل کر آف شور کمپنیوں کے حوالے سے نیا قانوں بنانے پر کام کر رہے ہیں جس کو جلد مکمل کر لیا جائے گا وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آف شور کمپنیوں کے حوالے سے تینوں اسٹیک ہولڈز کو فریم ورک تیار کرنے کی ہدایت کی تھی ایف بی آر کے ترجمان ڈاکٹر اقبال نے مزید کہا کہ دبئی میں پراپرٹی خریدنے والے پاکستانی شہریوں کی معلومات حاصل کرنے کے تین سال سے دبئی حکومت سے رابطے کر رہے ہیں مگر وہ معلومات نہیں دے ریے ، ممبر ان لیڈ ریونیو رحمت اللہ وزیر نے کہا کہ پی سی بی کی بیروں ملک ہونے والی سریز کی آمدن پر ٹیکس کو ایک فیصد سے چار فیصد کیا ہے پی سی بی حکام نے اسے ختم کرنے کی تجویز دی تھی ان کا موقف تھا کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال ٹھیک نہیں ہے اس لیے پی سی بی یو اے ای کو اپنا ہوم گروانڈ سمجھتا ہے اس لیے دبئی میں ہونے والی سریز کی آمدن پر سے ٹیکس ختم جائے انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد گیارہ لاکھ ہے جس میں سے 3لاکھ 9ہزار سرکاری ملازمین ہیں، تین سال قبل یہ تعداد 8لاکھ کے لگ بھگ تھی ملک میں ہر شخص کسی نہ کسی طرح ٹیکس ادا کر رہاہے ،ہر سال بیس سے ہزار نئے لوگوں کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے رحمت اللہ وزیر نے کہا کہ ہمارے ہاں لوگ اصل آمدنی پر ٹیکس نہیں دیتے اور ایف بی آر اصل آمدنی پر ٹیکس لینے میں ناکام رہا ہے ، نان فائلرز کو ٹیکس گوشوارے جمع کروانے پر مجبور کرنے کے لئے اقدامات متعارف کروائے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں لیزنگ کا کاروبار کرنے والے نان فائلرز کے لئے 3فیصد کے حساب سے ود ہولڈنگ ٹیکس لگایا ہے اس کے علاوہ انشورنس پریمئر پر 20لاکھ سے زائد کی شرح پر ایک فیصد کے حساب سے ٹیکس لگایا ہے اس سے آمدنی میں اضافے کا امکان ہے۔ رضاکارانہ ٹیکس اسیکم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا اس اسیکم کے تحت ابھی تک 10ہزار لوگ اکٹھے ہوئے ہیں یہ اسیکم 2018تک ہے امید کر رہے ہیں کہ اس میں زیادہ سے زیادہ لوگ آ جائیں گے غریب عوام پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے ،زرعی مصنوعات پر زیرو ریٹننگ بحال کر دی گئی ہے ، زراعت پر سات فیصد سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے ، اب نیا پیکج متعارف کروایا یے اب ٹیکس ریفنڈز کا مسئلہ نہیں آئے گا ،تاجروں کا زیرو ریٹڈ کا معاملہ حل کر دیا ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل سمیت دیگر5شعبوں کو اس لیے مراعات دی ہیں کیونکہ 22ارب ڈالر کی برآمدات میں ان سیکٹرز کا حصہ 13ارب ڈالر کا ہے انہوں نے کہا کہ ، صوبوں سے درخواست کی تھی کہ این ایف سی سے فنڈز مل رہے ہیں تو خدمات پر سیلز ٹیکس کم کر دیں ،صوبے ریٹ کو کم کریں مزاکرات سے مسئلہ حل کر لیں گے ممبر کسٹم مسرور خان نے کہا کہ گذشتہ 3سالوں میں سمگلنگ کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے ہیں بلو چستان میں ڈیزل و دیگر اشیاء کی سمگلنگ میں خاطرخواہ کمی ہوئی ہے ہمارے بارڈر کی صورتحال ایسی ہے کہ کوئی ایک ادارہ سمگلنگ پر قابو نہیں پا سکتا ۔

متعلقہ عنوان :