بلوچستان ڈرون حملہ پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کیخلاف تھا جس پر اقوام متحدہ میں قرار داد لائیں گے ،سرتاج عزیز

جنوبی ایشیاء میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کا فیصلہ پاکستان نے کرنا ہے، نیوکلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے کو کوششیں کی جا رہی ہیں ،مشیر خارجہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری ممکن نہیں ، کلبھوشن یادیو کے انکشافات پر مبنی ڈوزیر تیار کر رہے ہیں،، بھارت بلوچستان اور کراچی میں مداخلت کررہا ہے 15 سال سے افغانستان میں طاقت کے ذریعے مسئلہ حل نہیں ہوا، بات چیت کا عمل دوبارہ شروع کرنے کیلئے کوششیں کررہے ہیں،طالبان کے کچھ دھڑے ہیں مذاکرات کے مخالف ہیں، کل وقتی وزیر خارجہ نہ ہونے کے باوجود 12گھنٹے روزانہ کام کرتا ہوں، دفتر خارجہ میں پریس کانفرنس

جمعہ 10 جون 2016 10:30

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔10جون۔2016ء) مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ 21 مئی کو بلوچستان میں ہونے والے ڈرون حملے نے افغان امن عمل کو متاثرکیا۔ امریکی سینئرمشیر اور نمائندہ خصوصی کو بڑھتے ہوئے بھارت امریکی دفاعی تعلقات اور افغان امن عمل کے حوالے سے اپنے تحقیقات سے آگاہ کریں گے۔ مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے دفتر خارجہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ڈرون حملے نے افغان امن عمل کو متاثرکیا جس کی شدید مذمت کرتے ہیں ، یہ حملہ پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کی خلاف ورزی ہے جس کے خلاف اقوام متحدہ میں قرارداد لائیں گے۔

اقوام متحدہ میں ڈرون حملے کی قرارداد پہلے بھی آئی ہے ، حالیہ ڈرون حملے کے بعد قرار داد کو ریوائیو کیا جائے گا ، سرتاج عزیز نے کہا کہ امریکا اور بھارت کے دفاعی تعلقات بڑھنے پر تشویش ہے۔

(جاری ہے)

امریکہ کے ساتھ تعلقات مناسب ہیں ، امریکہ ہماری سکیورٹی کو اہمیت نہیں دے رہا ، جب انہیں ضرورت ہوتی ہے آجاتے ہیں ، جب نہیں ہوتی چلے جاتے ہیں ، خطے میں عدم توازن پاک امریکہ تعلقات پر بھی اثرانداز ہوگا۔

امریکہ سے تعلقات غور طلب ہیں۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ سٹریٹجک توازن کے بغیر بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری ممکن نہیں ، کلبھوشن یادیو کے انکشافات پر مبنی ڈوزیر تیار کر رہے ہیں ، آنے والے ہفتوں میں اقوام متحدہ سمیت دیگر ممالک کو ثبوت فراہم کریں گے ، بھارت پاکستان کے نان سٹیٹ ایکٹرز کی بات کرتا ہے، بھارت کے سٹیٹ ایکٹرز پاکستان کے علاقوں بلوچستان اور کراچی میں مداخلت کر رہے ہیں۔

بھارت گزشتہ 70 سالوں سے کوشش کرتا رہا کہ پاکستان کو تنہا کردے ، بھارت نے تسلیم کیا کہ پٹھان کوٹ واقعہ میں کوئی پاکستان ایجنسی ملوث نہیں۔ بھارت جب دہشتگردی کی بات کرتا ہے تو ہمارے تحفظات زیادہ ہیں ، کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات نہیں ہوتی تو پاک بھارت تعلقات بہتر نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا کہ کل وقتی وزیر خارجہ ہونا ضروری نہیں ، خارجہ پالیسی بہتر ہونی چاہیے ، وزیر اعظم کے بیرون ملک دوروں پر تنقید بلاجواز ہے۔

انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیاء میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کا فیصلہ پاکستان نے کرنا ہے، نیوکلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے کو ششیں کی جا رہی ہیں امید ہے کہ دنیا اسے قبول کرے گی اور پاکستان کے ساتھ نہ انصافی نہیں ہونے دے گی، تاثر غلط ہے کہ جب بھارت کو امریکہ کی جانب سے نیوکلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کی حمایت کی گئی ہے،روس سے ہیلی کاپٹر کے حصول اور دیگر امور کے حوالے سے بات چیت کا سلسلہ جار ی ہے ،امریکی اہلکاروں سے آج ہونے والی ملاقات میں خالیہ مریکی ڈرون حملے کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر بات چیت کی جائے گی، سرتاج عزیز نے کہا کہ نیوکلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے کو کوششیں کی جا رہی ہیں امید ہے کہ دنیا اسے قبول کرے گی اور پاکستان کے ساتھ نہ انصافی نہیں ہونے دے گی،یہ تاثر غلط ہے کہ جب بھارت کو امریکہ کی جانب سے نیوکلئیر سپلائر گروپ کی رکنیت کی حمایت کی گئی ہے اس وقت پاکستان کی جانب سے رکنیت کے حصول کے ضمن میں کوششوں کی جا رہی ہیں،جبکہ اصل میں پاکستان کی جانب سے اس حوالے سے ڈیڑھ دو ماہ پہلے سے ہی سفارتی کوششوں کا سلسلہ جاری ہے ،پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو جاری رکھنا چاہتا ہے لیکن پٹھان کوٹ کے واقعہ کو بہانہ بنا کر مذاکراتی عمل کو تعطل کا شکار جا رہا ہے،جنوبی ایشیاء میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کا فیصلہ پاکستان نے کرنا ہے اور پاکستان چین،بھارت، وسط ایشیائی ریاستوں کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ استحکام آنے سے ہی بھارت سے تعلقات بہتر ہوں گے، پاکستان افغانستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے پرامن تعلقات چاہتا ہے لیکن ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد افغان مذاکرات کا عمل تعطل کا شکارہوگیا،انہوں نے کہا کہ پندرہ سال سے افغانستان میں طاقت کے ذریعے مسئلہ حل نہیں ہوا اور اس وقت بھی دیگر کیو سی جی رکن ممالک کے ساتھ پاکستان کوشش کر رہا ہے کہ بات چیت کا عمل دوبارہ شروع ہو سکے،طالبان کے بھی مختلف دھڑے ہیں جن میں کچھ بات چیت کے حق اور کچھ مخالفت کر رہے ہیں،انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ بارڈر کو مخفوظ بنانے کی ضرورت ہے تا کہ وہا ں سے امن مخالف شر پسند کارروائیاں نہ کر سکیں۔

مشیر خارجہ نے کہا ہے کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے پرعزم ہیں، اقوام متحدہ کے فورم سے دنیا میں امن کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے اور مسئلہ کشمیر کو دنیا کے ہر فورم پر اٹھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم ممالک کے ساتھ برادرانہ تعلقات پاکستان کے لئے انتہائی اہم ہیں جبکہ 34 مسلم ممالک کے اتحاد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور پابندیوں کے بعد ایران سے تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط بنائیں گے۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ معیشت کی کامیابی کے لیے سیاسی استحکام بہت ضروری ہے، چین پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن گیا ہے، پاکستان اور چین کے درمیان دو طرفہ تجارت 19 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے، اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کے لیے بہت زیادہ اہم ہے جب کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کو اہم جانتا ہے اور روس کے ساتھ بھی تعلقات بہتری کی طرف گامزن ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کل وقتی وزیر خارجہ نہ ہونے کے باوجود 12گھنٹے روزانہ کام کرتا ہوں، جب ذولفقار علی بھٹو وزیر اعظم تھے تب بھی انہوں نے وزیر خارجہ کا قلمبندان اپنے پاس رکھا جبکہ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے پہلے دور میں بھی اس عہدے کو اپنے پاس ہی رکھا تھا ،خارجہ پالیسی بنانے کا ایک اپنا طریقہ ہوتا ہے،انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے جو تعلقات 50سے 60سال میں رہے ہیں اس میں انہوں نے جب انکو ضرورت پڑی ہے تو انہوں نے پاکستان کی طرف دیکھا ہے اورانکے اس رویئے اور پالیسی پر امریکی قیادت کے ساتھ بات چیت ہوتی رہی ہے،انکی جانب سے اب کہا جاتا ہے کہ عارضی کے بجائے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو سٹرٹیجک حوالے سے دیکھا جائے گا،انہوں نے کہا کہ اگر بھارت کے ساتھ امریکہ تعلقات بڑھنے اور بھارت کی جانب سے ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہونے سے جنوبی ایشیاء خطے کا توازن متاثر ہو گا،انہوں نے کہا کہ اس وقت امریکہ دنیا میں جیوگرافیائی اور سیاسی آنے والے تبدیلیوں سے بھارت کو امریکہ کی جانب سے زیادہ اہمیت دینے سے خطے کے امن کو خطرہ بھی لاحق ہو سکتا ہے،کیونکہ خطے میں پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوتیں ہیں۔

سرتا ج عزیز نے کہا کہ بھارت کے ساتھ ہمیشہ پاکستان کی کوشش ہوتی ہے کہ کشمیر پر بات کی جائے اور ہندوستان میں مسلمان مخالف پالیسیوں کی وجہ سے امریکی کانگریس میں بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں،پاکستان کشمیریوں کی سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گا،سی پیک منصوبے کی سکیورٹی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان اس عمل سے واقف ہے کہ مخالفین اس میں سکیورٹی مسائل پیدا کر سکتے ہیں ،اور مخالفین کے عزائم کو روکنے کے لیے پا کستان ہر ممکن اقدامات کریں گا،انہوں نے کہا کہ کلبھوشن یادیو سے جو اور معلومات ملی ہیں اس حوالے سے دنیا کے اہم ممالک ،اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کو آگاہ کیا جائے گا،انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے پٹھانکوٹ حملے کے بعد اپنی تحقیقاتی ٹیم بھارتی بھیجی اس وقت پٹھانکوٹ کے حوالے سے اچھی پیشررفت ہوئی ہے اور امید ہے بھارت اب مذاکرات کے لیے راضی ہو گا۔

قبل ازیں حکومت کی جانب سے تین سال پورے ہونے پر انہوں حکومت کی خارجہ پالیسی کی کارکردگی بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھارت ،افغانستا ن اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے،انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ جو عدم اعتماد موجود ہے اسکو ختم کرنے کے لیے کوششیں کی جائیں گی اس سلسلے میں کیو سی جی کا عمل وجود میں لایا گیا،بھارت کے ساتھ تمام امور بشمول کشمیر کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں،انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے،اور سعودی عرب،ایران،ترکی اور دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہت اچھے ہیں،پاکستان سعودی عرب اور ایران کے ساتھ جو کشیدگی پائی جاتی ہے اسے کم کرنے کے لیے وزیر اعظم نواز شریف نے دونوں ملکوں کا دورہ کیا ،پاکستان یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات میں اچھی پیشرفت ہوئی ہے اور یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دیا گیا ۔

۔