سینٹ کی 86سفارشات فنانس بل میں شامل،تنخواہوں میں 13فیصد اضافہ کیا،اسحاق ڈار

وزیرخزانہ آف شور کمپنیوں کے قانون میں ترمیم سے دستبردار، ترمیم اپوزیشن کے اعتراض کے بعد واپس لے رہے ہیں، پاکستان کے سب سے زائد قرضے پیپلز پارٹی کے دور میں بڑھے موجودہ حکومت کے 3سال میں 4ہزار 800ارب روپے قرضہ لیا گیا پاک فوج کے رہائشی الاؤنس میں25فیصد اضافہ کیا گیا،اسحاق ڈار، بجٹ پر جاری بحث کو سمیٹتے ہوئے اظہار خیال

ہفتہ 18 جون 2016 10:15

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔18جون۔2016ء)وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں آف شور کمپنیوں سے متعلق قانون میں ترمیم سے دستبردار ہوگئے۔ وزیر خزانہ نے واضح کیا ہے کہ اس ترمیم پر اپوزیشن کی جانب سے اعتراض کے بعد اسے واپس لے رہے ہیں۔ ترمیم کے ذریعے بیرون ملک پاکستانیوں کے اثاثوں تک ایف بی آر کو رسائی دینا چاہتے تھے۔

انہوں نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کے سب سے زائد قرضے پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں بڑھے اور پیپلز پارٹی 9ہزار ارب کے قرضے بڑھانے کی ذمہ دار ہے ۔ موجودہ دور حکومت کے 3سال میں 4ہزار 800ارب روپے ا قرضہ لیا گیا ہے ۔ پاک فوج کے رہائشی الاؤنس میں25فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ 2015-16ء کا ایڈ ہاک ضم کرکے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں13فیصد اضافہ کا فیصلہ کیا ہے ۔

(جاری ہے)

سینٹ کی جانب سے دی گئی 139بجٹ سفارشات میں سے86کو فنانس بل کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ ٹریکٹروں کی درآمد پر سیل ٹیکس16سے 5فیصد، ہارویسٹر اور پلانٹر کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی ختم کر کے زرعی ادویات پر سیل ٹیکس میں مکمل چھوٹ ، ڈیری سیکٹر کی مشینری پر سیل ٹیکس 17سے5فیصد کرنے ، کیپیٹل گین ٹیکس جون 2019تک 5فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ زرعی مشینری، خام مال، یوریا، ڈی اے پی کی دی گئی سبسڈی کا اطلاق یکم جولائی کی بجائے22جون سے ہو گا۔

جمعہ کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2016-17ء کے بجٹ پر جاری بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین اور قائمہ کمیٹیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی معاشی پالیسیوں میں بجٹ کو مرکزی کردار حاصل ہے انہوں نے قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی اور سینٹ سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کا بھی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مثبت مشوروں سے حکومت استفادہ کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ سینٹ سے139سفارشات موصول ہوئی ہیں جس میں 34سفارشات کو اصولی طور پر 22کو جزوی طور پر منظور کیا گیا ہے اور 86تجاویز کلی یا جزوی طور پر منظور ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن تیس سالہ میڈیم میکرو اکنامک فریم ورک کے لئے تجاویز دے تاکہ اس کی روشنی میں نئی پالیسی منظور کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اکتوبر2008ء میں افراط زر کی شرح25فیصد جبکہ موجودہ شرح3فیصد سے کم ہے اور قیمتوں میں استحکام ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے کسان کی پیداواری لاگت میں کمی کے لئے زرعی ادویات کی قیمتوں میں کمی، زرعی مشنری پر ٹیکسوں کے خاتمے کے اقدامات کئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند سال سے خاص حلقے معشت پر بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں ۔ ہمیں اپنے رویوں پر غور اور ملک کے استحکام کا خیال رکھنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی کی رفتار کا اندازہ مختلف زاویوں سے لگایا جاتا ہے۔

ہمیں اپنے سسٹم پر اعتماد کرنا چاہیئے اور مزید بہتری کے لئے مل کر کام کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں کپاس کی فصل کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ تاہم اس کے باوجود معاشی ترقی کی شرح بہتر رہی ہے اور آنیوالے سالوں میں معیشت مزید ترقی کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے اقتصادی راہداری توانائی، موٹروے اور دیگر منصوبوں میں صوبوں کے ساتھ کوئی تفریق نہیں ہے۔

اقتصادی راہداری کا منصوبہ ملک کے چپے چپے کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ براہ راست ٹیکس ماضی میں کم رہے اور گزشتہ تین سالوں میں براہ راست ٹیکسوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی شرح تسلی بخش سطح تک پہنچ جائے گی اور ایس آر او کلچر ختم کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روزمرہ اشیا کو سیلز ٹیکس سے استثنیٰ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو یہ تاثر دیا جا رہاہے کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات پر زیادہ ٹیکس وصول کر رہی ہے یہ درست نہیں ہے حکومت صرف ایک پراڈکٹ پر زیادہ لے رہی ہے جبکہ چار اشیاء پر کم لے رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سال 2017ء میں 15روپے اور اب 18روپے سیلز ٹیکس وصول کیا جا رہاہے جبکہ مٹی کے تیل پر 5روپے 58پیسے سیلز ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ 1947ء سے لیکر30جون 1999ء تک پاکستان کا کل سرکاری قرضہ 2ہزار940ارب تک تھا۔ یہ حکومت2008ء کے درمیان 5800ارب روپے تک جبکہ2000سے 2013ء تک 14318ارب روپے 14سالوں میں ملکی قرضے ہیں 12ہزار ارب سے ہوا اس کا حساب مشرف اور پیپلز پارٹی دے گی۔

انہوں نے کہا کہ 31مارچ 2016ء تک کل سرکاری قرضہ19168ارب ہے جس میں4800ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے انہوں نے کہا کہ گزشتہ 3سالوں میں 3.3فیصد پر قرضے لیے گئے ہیں جبکہ گزشتہ 3سالوں میں یہ شرح جی ڈی پی کی3.1فیصد پر آ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک کے پاس زر مبادلہ کے ذخائر 2008ء میں2.8ارب ڈالر تھے مگر اب ذخائر 16ارب 60کروڑ ڈالر پر پہنچ گئے ہیں۔ جس کا مطلب 13ارب 80کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاس 21ارب 50کروڑ ڈالر کے ذخائر ہیں جو جلد ہی 22ارب ڈالر سے تجاوز کرجائینگے ۔ انہوں نے کہا کہ قرضوں میں اضافہ لازمی ہوا تاہم یہ دیکھنا ہوگا کہ کس دور میں ترقیاتی منصوبے کتنے ہوئے ہیں ہمارا خسارہ کم ہوا ہے انہوں نے کہا کہ سابقہ ادوار میں لئے گئے بارہ ہزار ارب کے قرضوں کا استعمال کس طرح کے منصوبوں پر ہوا تھا اگر اس کا حساب لیا جائے تو مایوس کن ہوگا ۔

موجودہ حکومت نے سب سے پہلے کسانوں کو پیکج دیا تھا گزشتہ سال چاول اور کپاس کے کاشتکاروں کی مالی امداد کی گئی جبکہ زرعی قرضوں کا حجم چھ سو ارب روپے کردیا اور زرعی ٹیوب ویلوں کو کم قیمت پر بجلی فراہم کی تاکہ چھوٹے کاشتکاروں کی مدد کی جاسکے ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین سالوں سے کسانوں کی پیداواری لاگت کیلئے کئی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں موجودہ بجٹ میں یوریا کی قیمت کم کرکے اس کو چودہ سو روپے لایا گیا ہے اس طرح ڈی اے پی کی قیمت کم کرکے پچیس سو روپے فی فوری کی گئی ہے بجٹ میں زرعی ٹیوب ویلوں کیلئے آف پیک ریٹ 5.35 فی یونٹ کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ حکومت پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کی توجہ دے رہی ہے دیامر بھاشا ڈیم کیلئے 132ارب روپے تربیلا کیلئے 510 ارب روپے رکھے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ قبائلی متاثرین کیلئے جامع پروگرام شروع کیا گیا ہے قبائلیوں کی واپسی کا عمل شروع اور مزید تیز کیا جارہا ہے گزشتہ دو سالو ں کے دوران ضرب عضب آ پریشن کیلئے 145ارب روپے مختص کئے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ قبائلی متاثرین کیلئے حکومت کچھ نہیں کررہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ آئین حکومت کو سپلمنٹری گرانٹس کی اجازت دیتا ہے مگر موجودہ حکومت نے اس کو محدود کیا ہے اس سال بجٹ کا چھیاسٹھ فیصد سپملنٹری گرانٹ رکھا گیا ہے اور اس میں زیادہ تر سبسڈی اور قدرتی آفات کیلئے رکھا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے توانائی کے شعبوں کی مانیٹرنگ کیلئے اقدامات کئے ہیں اصلاحات کے عمل کے نتیجے میں اداروں میں بہتری آئی ہے ۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اقتصادی راہداری خطے کی تاریخ کا گیم چینجر ہے انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق این ایف سی ایوارڈ بجٹ اور وسائل کی تقسیم پر اثر انداز نہیں ہوتا ماضی میں سولہ سال تک ایک ہی این ایف سی ایوارڈ کے تحت وسائل تقسیم ہورہے ہیں انہوں نے کہا کہ مارچ دو ہزار سولہ میں مردم شماری کے انتظامات مکمل کئے تاہم دو صوبوں میں سکیورٹی اور مہاجرین کی وجہ سے مکمل نہ ہوسکی جس کے بعد مردم شماری کو موخر کرنے کا فیصلہ ہوا تھا بجٹ میں کسانوں کی ترقی اور خوشحالی کیلئے مزید اعلانات کرتا ہوں جس میں ٹریکٹروں کی درآمد پر سیل ٹیکس پانچ فیصد کیا جارہا ہے بجٹ میں زرعی ٹیکس کی مکمل چھوٹ اور زرعی ادویات پر سترہ فیصد سے کم کرکے پانچ فیصد کیا جارہا ہے ڈی اے پی اور یوریا پر سیلز ٹیکس میں کمی پر فوری عملدرآمد ہوگا زرعی مشنری اور دیگرمشنری پر بھی اس کا اطلاق ہوجائے گا انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک میڈیا کیلئے کچھ اقدامات کئے جارہے ہیں پاکستان میں کیبل کے نظام کو ڈیجیٹل کرنے کیلئے ایک سال کیلئے کسٹم ڈیوٹی کو 35فیصد کم کرکے گیارہ فیصد سیلز ٹیکس کو سترہ فیصد سے کم کرکے پانچ فیصد کیا جارہا ہے دیہی علاقوں میں کیبل آپریٹرز پر ٹیکس کی شرح کم کرنے کی تجویز پیش کی جارہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بحری جہازوں پر امپورٹ ڈیوٹی سیلز ٹیکس ختم کیا جارہا ہے سم کارڈ اور سمارٹ کارڈ پر کسٹم ڈیوٹی بیس فیصد سے کم کرکے پانچ فیصد کررہے ہیں انہوں نے کہا کہ ڈیری سیکٹر کی مشنری اور آلات پر سیلز ٹیکس سترہ فیصد سے کم کرکے پانچ فیصد کیاجارہا ہے اسلامی نظام معیشت کو فروغ دینے کیلئے شریعہ بینکوں پر انکم ٹیکس میں دو فیصد کا ریٹ دیا جائے گا ۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکس گزاروں کی سہولت کیلئے ان کے بینک اکاؤنٹس سے جب تک دائر کردہ اپیل کا فیصلہ نہ ہوجائے ٹیکس گزار کے اکاؤنٹ سے رقم نہیں لی جائے گی اس طرح ٹیکس گزار اور ایف بی آر کے مابین تنازعے کی صورت میں اگر ایف بی آر نوے دنوں میں فیصلہ نہ کرسکے تو مصالحتی کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کیا جائے گا انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ مہنگائی کی شرح کو دیکھ کر کیاجاتا ہے اس وقت مہنگائی کی شرح دو فیصد تھی پھر ہمیں تنخواہوں میں پانچ فیصد اضافے کا فیصلہ کیا گیا اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ تینوں ایڈہاک الاؤنسز کے بعد دس فیصد اضافہ کیا جائے اس سے یہ شرح تیرہ فیصد تک کیاجائے گا اس طرح افواج پاکستان کو دیا جانے والا الاؤنس کئی سالوں سے منجمند تھا اس الاؤنس میں بھی اضافہ کرکے پچیس فیصد تک بڑھایا جارہا ہے انہوں نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہیں بہت کم ہیں ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ جونہی وزیراعظم علاج معالجہ سے واپس آئینگے تو قانون کے مطابق تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے گا انہوں نے کہا کہ ہمارا ہدف جی ڈی پی میں اضافہ پر ہے جس سے کاروبار کے مواقع غربت بے روزگاری میں کمی اور اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ سکے گی انہوں نے کہا کہ تین سالوں میں معاشی ترقی کے اہداف حاصل کئے ہیں اس کو ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر تسلیم کرنا ہوگا