سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے بیٹے کا تاحال کچھ پتا نہیں چل سکا

وزیراعظم کا چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کے اغواء پر اظہار تشویش اویس شاہ کی بازیابی کیلئے تمام اقدامات بروئے کار لائے جائیں،ہدایت چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کا پوش علاقے سے اغوا ہونا سنجیدہ سیکورٹی لیپس ہے،قائم علی شاہ

بدھ 22 جون 2016 10:23

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔22جون۔2016ء)سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے بیٹے اویس شاہ کا تاحال کچھ پتا نہیں چل سکا۔پیر کی دوپہر 2 بجے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ سجاد علی شاہ کے بیٹے اویس دفتر سے نکلنے کے ٹھیک دس منٹ بعد کراچی میں کلفٹن شون سرکل پر سپر اسٹور پہنچے۔دو بج کر بائیس منٹ پر دوست کو فون کیا جس کا دفتر اسی عمارت میں واقع ہے۔ اویس شاہ نے دوست سے کہا کہ وہ سینڈوچ لے کر اوپر آتے ہیں۔

سوا تین بجے اویس شاہ کا گھر والوں سے آخری بار رابطہ ہوا جس کے بعد وہ لاپتہ ہوگئے۔ کسی کا اْن سے رابطہ نہیں ہوسکا۔شام پانچ بجے پولیس کو اطلاع ملی کہ باوردی افراد کسی شخص کو گاڑی میں کہیں لے جارہے ہیں۔رات ساڑھے نو بجے کے آس پاس پولیس کو اطلاع ملی کہ گاڑی میں جس شخص کو لے جایا گیا وہ چیف جسٹس کے بیٹے ہوسکتے ہیں۔

(جاری ہے)

تاحال پولیس سراغ لگانے کی بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔

چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے کے ممکنہ اغواء کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحقیقات جاری ہیں۔ کراچی میں داخل ہونے اور باہر جانے کے لئے تین مرکزی راستے استعمال کئے جاتے ہیں، جن میں سپر ہائی وے، نیشنل ہائی وے اور حب ریور روڈ شامل ہیں۔ سپر ہائی وے براستہ حیدر آباد والا راستہ اندرون سندھ اور پنجاب کے تمام شہروں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

نیشنل ہائی وے حیدر آباد ٹھٹھہ، بدین، نوابشاہ اور اندرون سندھ کے دیگر شہروں تک جانے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ حب ریور روڈ، حب چوکی اور بلوچستان کے مختلف شہروں کی جانب جانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن ان مرکزی راستوں کے علاوہ بھی ان شاہراہوں سے کئی لنک روڈز نکلتی ہیں جو شہر سے اخراج میں مدد دے سکتی ہیں۔سپر ہائی وے سے بذریعہ ناردرن بائی پاس بلوچستان جانے کے لئے لنک روڈ استعمال کیا جاتا ہے۔

نیشنل ہائی وے بھی نوابشاہ سے آگے جا کر سپر ہائی وے سے مل جاتی ہے۔ حب ریور روڈ، ناردرن بائی پاس پر چلغوزی بابا مزار اور ہمدرد یونیورسٹی لنک روڈ والے راستے بھی بلوچستان جانے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔اویس علی شاہ کے اغواء کے بعد شہر کے تمام داخلی و خارجی راستوں کی ناکہ بندی کر دی گئی ہے۔ پولیس کی بھاری نفری شہر میں داخل ہونے اور باہر جانے والی تمام گاڑیوں اور افراد کی تلاشی لے رہی ہے۔

ادھروزیراعظم محمد نواز شریف نے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کے اغواء پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اویس شاہ کی بازیابی کیلئے تمام اقدامات بروئے کار لائے جائینگے۔ منگل کے روز وزیراعظم محمد نواز شریف کو وزارت داخلہ اور دیگر حکام نے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے اویس شاہ کی بازیابی کے حوالے سے اقدامات پر بریفنگ دی گئی اس موقع پر وزیراعظم نے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کے اغواء پر گہری اور شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور خفیہ ایجنسیاں اپنی کوششوں کو مزید تیز کریں اور اویس شاہ کی گرفتاری کیلئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ وزیر داخلہ سہیل انور سیال اور پولیس افسران کے ہمراہ سندھ ہائی کورٹ پہنچے جہاں انہوں نے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس سجاد علی شاہ سے ملاقات کی اوران کے مغوی بیٹے کی بازیابی کے لئے ہر ممکن اقدام کرنے کی یقین دہانی کرائی۔دوسری جانب سابق صدر آصف علی زرداری نے اویس علی شاہ کے اغواء پر تشویش کا اظہار کیا اور وزیر اعلیٰ سندھ کو ہدایت کی کہ اویس علی شاہ کی بازیابی کے لئے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنائی جائے اور ٹیم میں تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نمائندوں کو شامل کیا جائے۔

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ اویس علی شاہ کی بازیابی کے لئے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں۔وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سید سجاد علی شاہ کے بیٹے ایڈوکیٹ سید اویس شاہ کا پوش علاقے سے اغوا ہونا سنجیدہ سیکیورٹی لیپس ہے لیکن میں نے اس معاملے کو سنجیدہ لیا ہے اور انشاء اللہ ہم اسے جلد ہی بازیاب کرا لیں گے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کے روزوزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ امن و امان کے حوالے سے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔اجلاس کے ایجنڈا میں ایڈوکیٹ اویس شاہ کی بازیابی ، شہر میں امن و امان برقرار رکھنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کے لئے حکمت عملی اور 21ویں رمضان کے حوالے سے سیکیورٹی پلان اور کراچی آپریشن کا جائزہ شامل تھا ۔ اجلاس کو بریفینگ دیتے ہوئے انسپیکٹر جنرل سندھ پولیس اے ڈی خواجہ نے بتایا کہ ایڈوکیٹ اویس شاہ کو دوپہر ڈھائی بجے کے قریب ایک شاپنگ سینٹر کے احاطے سے 4مسلح افراد نے اغوا کیا ۔

ہم نے شاپنگ سینٹر کے باہر پارک کی گئی انکی گاڑی حاصل کر لی ہے اور 3 عینی شاہدین کے بیانات بھی ریکارڈ کر لیئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اویس شاہ کی فیملی نے افطار کے وقت پولیس کو اطلاع دی کہ وہ پراسرار طریقے سے گم ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے احکامات پر میں اور چیف سیکریٹری سندھ چیف جسٹس سندھ جسٹس سید سجاد علی شاہ کے ہاں گئے اور ان سے انکے بیٹے کی اغوا کے بارے میں بات چیت کی تب تک وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے ڈی جی رینجرز اور حساس اداروں سے ذاتی طور پر بات کر کے تمام فورسسز کو ہائی الرٹ کر دیا تھا ۔

آئی جی سندھ نے مزید کہا کہ رینجرز اور حساس اداروں کے تعاون سے ایڈوکیٹ اویس شاہ کو اغوا کرنے والی مشکوک کار کی نشاندہی کی گئی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ تمام اداروں کی باہمی کاوشوں سے یہ کیس بہت جلد ہی حل کیا جائیگا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا کہ یہ ایک بہت ہی سنجیدہ سیکیورٹی لیپس ہے اور یہ کس طرح ممکن ہوا کہ چار مسلح افراد آئے اور ایک شاپنگ سینٹر کے احاطے سے دن کے ڈھائی بجے کسی کو اغوا کر لیا اور پولیس اور دیگر ایجنسیوں کو تب تک پتہ ہی نہ چلا جب تک مغوی کی فیملی نے اسکی رپورٹ نہیں کی جو کہ حیرت انگیز اور افسوسناک بات ہے ۔

ڈی جی رینجرز بلال اکبر نے کہا کہ کراچی آپریشن تیزی سے جاری ہے لیکن اسکو مزید موثر اور جامع حکمت عملی اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے جس سے شہر میں دیر پا اور پائیدار امن قائم ہوگا۔ سید اویس شاہ کے اغواکے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشت گرد تنظیمیں اس ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتی ہیں ۔ اور یہ ایک بہت ہی سنجیدہ معاملہ ہے اور ہم سب مختلف زاویوں سے سنجیدگی کے ساتھ کام کر رہے ہیں وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے تمام اداروں کو احکامات دیئے کہ شہر سے دہشت گردوں اور کریمنلز کے خاتمے کے لئے آپریشن کلین اپ میں مزید تیزی لائی جائے کیونکہ اب بہت ہو چکا اور کریمنلز کی سرگرمیوں کو بالکل بھی برداشت نہیں کیا جائیگا۔

حساس اداروں کے نمائندگان نے وزیراعلیٰ سندھ کو اپنے کام کی تفصیلات بتائی اور کہا کہ جیو فنسنگ کے ذریعے اویس شاہ کو اغوا کرنے والی مخصوص کار کا پتہ لگایا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انکے موبائل فون کی کسی بھی سرگرمی پر نظر رکھے ہوئے ہیں جو کہ ابھی تک بند ہے ۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا کہ شہر میں اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوا ہے اور کریمنلز شاپنگ سینٹرز اور چوراہوں سمیت دیگر علاقوں سے کھلے عام لوٹ مار کر رہے ہیں جس کو ہر صورت میں ختم کیا جائے ۔

اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ نے پالیسی فیصلے لیتے ہوئے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور سندھ پولیس کو حکم دیا کہ جعلی نمبر پلیٹ والی گاڑیوں کے خلاف کاروائی شروع کی جائے۔ اس پر سینئر صوبائی وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ نے نشاندہی کی کہ کچھ افراد شہر میں اپنی ذاتی گاڑیوں پر بھی پولیس کی گاڑیوں کی جعلی نمبر پلیٹ لگا کر گھوم رہے ہیں جس کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے تمام اداروں کو حکم دیا کہ غیر قانونی ہتھیار رکھنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا جائے کیونکہ غیر قانونی ہتھیار جرائم میں استعمال ہوتے ہیں۔ انہوں نے محکمہ داخلہ کو ہدایت دی کہ تمام سیکیورٹی ایجنسیوں کی تصدیق شروع کی جائے اور انکے پاس موجود اسلحے کا بھی معائنہ کیا جائے ۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ صوبائی وزیر قانون پراسیکیوشن کو ذاتی طور پر مانیٹر کریں کیونکہ ابھی بھی بہت سی شکایات موصول ہور ہی ہیں کہ کریمنلز عدالتوں سے ضمانت لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کراچی اور صوبے کے دیگر علاقوں میں رہنے والے غیر ملکیوں کی سرگرمیوں پر بھی کڑی نظر رکھی جائیگی۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ صوبے کی سرحدوں کی داخلی اور خارجی حصوں پر اسکیننگ سسٹم کو مزید مستحکم کیا جائیگا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اس چیکنگ سسٹم کو مزید مضبوط اور آٹو میٹیک بنایا جائے ۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تما م ایجنسیوں کے مابین انٹیلیجنس رپورٹ کے تبادلے اور وزیراعلیٰ سندھ کو ہر تین گھنٹے میں پروگریس رپورٹ بھیجی جائیگی ۔

وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے آئی جی سندھ پولیس اور رینجرز کو 21ویں رمضان کو سیکیورٹی بڑھائی جائے اور اس دوران جلوسوں اور مجالسوں کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جائے ۔ اجلاس میں صوبائی وزراء سید مراد علی شاہ ، سہیل انور سیال ، مرتضی ٰ وہاب ، مولا بخش چانڈیو، چیف سیکریٹری سندھ ، ڈی جی رینجرز بلال اکبر ، آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ ، پرنسپل سیکریٹری علم الدین بلو، ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ، حساس اداروں کے صوبائی سربراہان اور دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔

بعد ازاں وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے ہاں گئے اور انکے ساتھ حساس اداروں کی معلومات اور انکے بیٹے کے اغوا کیس میں اب تک کی پروگریس کے حوالے سے بات چیت کی۔ انہوں نے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو یقین دہانی کرائی کہ میں ذاتی طور پر اس کیس کو مانیٹر کر رہا ہو ں اور انکے بیٹے کو بہت جلد بازیاب کرا لیا جائیگا۔