نیٹو کا افغانستان کی مالی امداد اور عسکری تربیت جاری رکھنے کا اعلان

پاکستان کے سوا تمام پڑوسی ممالک سے تعلقات کا ثمر مل رہا ہے ، اشرف غنی پاکستان کا افغان صدر کے بیان پر مایوسی کا اظہار

اتوار 10 جولائی 2016 11:53

کابل ،وارسا (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔10جولائی۔2016ء)نیٹو فورسز نے افغانستان کے لیے عسکری تربیت اور مالی معاونت کو مسلسل جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اس امر کا اعلان وارسا میں جاری مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اجلاس میں کیا گیا ہے۔نیٹو رہنماوٴں نے ہفتے کے روز اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ مغربی دفاعی اتحاد افغانستان کے لیے امداد اور فورسز کی تربیت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔

افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ پاکستان کے سوا تمام پڑوسی ممالک سے تعلقات کا ثمر مل رہا ہے پاکستان عملی طور پر اچھے اور برے دہشتگردوں میں امتیاز کی پالیسی برقرار رکھے ہوئے ہے اشرف غنی نے ہفتہ کے روز اپنے بیان میں پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کو تمام پڑوسی ممالک سے تعلقات کا ثمر مل رہا ہے سوائے پاکستان کے انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشتگردوں کیخلاف کارروائی نہیں کررہا اور آج بھی اچھے اور برے دہشتگردوں میں امتیازی کی پالیسی پر عمل کررہا ہے ۔

(جاری ہے)

دوسری جانب نیٹو کے سیکرٹری جنرل ڑینس اسٹولٹن برگ نے وارسا میں اس اتحاد کے سربراہی اجلاس کے موقع پر کہا کہ کابل حکومت اور افغان فورسز کی مدد کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا، تاکہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے محفوظ پناہ گاہ کبھی نہ بن پائے۔ اس اجلاس میں مغربی دفاعی اتحاد متوقع طور پر افغانستان میں اپنے تربیتی فوجی مشن کی معیاد میں توسیع کا اعلان کر سکتا ہے۔

اس سے قبل امریکی صدر باراک اوباما نے بھی اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں موجود آٹھ ہزار چار سو امریکی فوجیوں کو اگلے برس بھی تعینات رکھا جائے گا، تاکہ طالبان کے خلاف افغان فورسز کی صلاحیتں متاثر نہ ہوں۔افغان سکیورٹی فورسز کے لیے نیٹو کا ’سپورٹ مشن‘ 2017 ء کے آخر تک برقرار رہے گا اور اس دوران مغربی دفاعی اتحاد کے ماہرین افغان فورسز کو مشاورت اور تربیت فراہم کرتے رہیں گے۔

واضح رہے کہ افغانستان کی فورسز کے ساتھ تعاون کرنے اور انہوں تربیت دینے والی غیر ملکی افواج میں سے زیادہ تر سال رواں میں ہندو کش کی اس ریاست میں اپنی موجودگی میں واضح کمی کی منصوبہ بندی کر چْکی تھیں تاہم افغانستان میں طالبان کی پْر تشدد کارروائیوں اور شورش زدگی کے تسلسل کے سبب غیر ملکی افواج کو اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنا پڑی۔

خاص طور سے گزشتہ برس شمالی افغان صوبے قندوز پر طالبان کے عارضی قبضے کے بعد افغانستان میں اہم کردار ادا کرنے والے غیر ملکی فوجی دستوں کو انخلاء کے منصوبے پر دوبارہ غور وخوض کرنا پڑا۔امریکی صدر باراک اوباما نے گزشتہ بْدھ کو اعلان کیا تھا کہ اْن کا ملک افغانستان متعینہ اپنے فوجی دستوں کے انخلاء کے منصوبے میں سْست روی لاتے ہوئے 8,400 امریکی فوجیوں کو آئندہ برس یعنی 2017ء تک افغانستان میں تعینات رکھے گا۔

اوباما نے اپنے بیان میں افغانستان کی موجودہ صورتحال کو ’نازک‘ قرار دیا ہے۔افغانستان میں اس وقت قومی سکیورٹی فورسز کی امداد کے لیے جاری سرگرمیوں میں 39 ممالک کے قریب 13 ہزار فوجی، جن میں ایک ہزار جرمن فوجی بھی شامل ہیں۔نیٹو لیڈروں کی طرف سے 2020 ء تک افغان سکیورٹی فورسز کی مالی امداد کو جاری رکھنے کے امکانات بھی نظر آ رہے ہیں۔

بتایا گیا ہے کہ غالباً چار بلین ڈالر سالانہ امداد جاری رکھی جائے گی۔ہفتے ہی کو نیٹو کے سربراہان وارسا میں جاری اجلاس کے دوران اس بارے میں بھی فیصلہ کرنے والے ہیں کہ آیا شام میں فعال ’اسلامک اسٹیٹ‘ انتہا پسند گروپ سے نبرد آزما ہونے کے لیے وہاں نیٹو کے نگران طیارے تعینات کیے جانا چاہییں؟ نیٹو اجلاس میں اس بارے میں بھی فیصلہ متوقع ہے کہ شورش زدہ ملک عراق میں نیٹو کے فوجی ٹرینرز کو دوبارہ بھیجا جائے۔

ادھرپاکستان نے افغان صدر اشرف غنی کے پاکستان مخالف بیان پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغان رہنماؤں کی جانب سے پاکستان مخالف جارحانہ بیانات کا سلسلہ جاری رہنا اور افغانستان میں تمام ناکامیوں کا الزام پاکستان پر لگانا بدقسمتی ہے۔ہفتہ کے روز جاری بیان کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ نے افغان صدر کے نیٹو اجلاس کے دوران دیئے گئے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو افغان صدر اشرف غنی کے بیان پر مایوسی ہوئی ہے ۔

چونکہ افغانستان میں امن ہمارے حقیقی مفاد میں ہے لہذا پاکستان افغانستان میں امن کے قیام میں مدددینے کیلئے ہر ممکن کوششیں جاری رکھے گا ، افغان قیادت پاکستان کے خلاف جارحانہ بیانات جاری رکھے ہوئے ہے اہم افغان قیادت سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کی توقع کرتے ہیں اور موثر بارڈر مینجمنٹ اور تحریک طالبان پاکستان کے پاکستان مخالف دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنے کے ذریعے تعاون کی توقع کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم الزام تراشی کے باوجود افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں ۔دونوں ملکوں کے درمیان افغان حکومت کی جانب سے غلط قیاس آرائیوں پر مبنی مسلسل الزام تراشی کی بجائے قریبی تعاون وقت کی ضرورت ہے ۔

متعلقہ عنوان :