کراچی بد امنی کیس ‘سکیورٹی گارڈ زکی آڑ میں”را“ اور ”طالبان“کے ایجنٹ بھرتی ہو رہے ہیں، چیف جسٹس

اداروں نے ذمہ داری ادا نہیں کی ، سکیورٹی گارڈز کی بھرتی پر نظر رکھیں ، ان معاملات پر کسی قسم کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا،ہسپتالوں کے سکیورٹی گارڈز کی کوئی اسکریننگ نہیں ہوتی،جسٹس انور ظہیر جمالی کے ریمارکس

جمعہ 12 اگست 2016 11:08

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔12اگست۔2016ء)چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کراچی بد امنی کیس کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد چاہتے ہیں لیکن اداروں نے ذمہ داری ادا نہیں کی اس لئے ہمیں معاملے کو دیکھنا پڑا۔جمعرات کے روز سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں بینچ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران حکومت سندھ نے امن و امان کے قیام کے لئے کئے گئے اقدامات سے متعلق 5 سالہ کارکردگی کی رپورٹ اور سی سی ٹی وی کیمروں کے کیس میں نظرثانی کی درخواست جمع کرائی۔

امن و امان سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس اور رینجرز نے ستمبر 2013 سے اب تک 17 ہزار سے زائد آپریشنز کئے، جن میں 80 ہزار ملزمان کو گرفتار کیا گیا، گرفتار ملزمان میں ٹارگٹ کلنگ اور قتل کے 15 سو سے زائد ملزمان شامل ہیں جبکہ غیر قانونی اسلحہ کے جرم میں1500 سے زائد اور دھماکہ خیز مواد رکھنے پر 450 ملزمان گرفتار کئے گئے۔

(جاری ہے)

پولیس کوسیاسی عناصرسے پاک کرنے کے لئے موثراقدمات کئے گئے، خلاف ضابطہ ترقی پانے والوں اور ڈیپوٹیشن پر آئے افسران کو واپس بھیجا گیا، سنگین نوعیت کے105کیس فوجی عدالتوں کو بھیجے جاچکے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سندھ میں 10 لاکھ سے زائد افغان باشندے موجود ہیں جن پر کڑی نظر رکھی جارہی ہے۔سماعت کے دوران جسٹس امیر ہانی مسلم نے شہر میں سی سی ٹی وی کیمروں سے متعلق استفسار کیا تو چیف سیکرٹری سندھ نے بتایا کہ نئے کیمروں کے لیے 10ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، 10ہزار نئے کیمروں کے ٹینڈڑز پر وقت لگے گا، اس وقت تک8ہزارپرانے کیمروں کی مرمت پررقم خرچ کرنیکی اجازت دی جائے۔

چیف سیکرٹری سندھ کے موقف پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کراچی بد امنی کیس کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد چاہتے ہیں،اداروں نے ذمہ داری ادا نہیں کی،اس لیے ہمیں معاملے کو دیکھنا پڑا، مسئلہ رقم مختص کرنے کا نہیں بلکہ رقم صحیح جگہ خرچ بھی ہونی چاہیے، نئے ٹھیکوں میں غیر شفافیت برداشت نہیں کریں گے۔ عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ ماہ تک کے لیے ملتوی کردی۔

بینچ نے سانحہ کوئٹہ پر افسوس اور برہمی کا اظہار کیا ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہسپتال جیسے ادارے آسان اہداف ہیں، صرف کاغذوں پر سکیورٹی اقدامات کئے جاتے ہیں، مزید سانحے کا انتظار نہ کریں فوری اقدامات کریں، اگر موثر اقدامات نہ ہوئے تو ایسے واقعات ہوتے رہیں گے، ہسپتالوں میں تعینات سکیورٹی گارڈز کو تربیت فراہم کی جائے، سکیورٹی گارڈز کی سکریننگ بھی ضروری ہے، کوئی بعید نہیں کہ ان کے روپ میں طالبان اور را کے ایجنٹس ہوں۔

یہ وہی لوگ ہیں جو جعلی شناختی کارڈز بنوا کر بھرتی ہوتے ہیں۔ تاہم پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ سکیورٹی گارڈز کی بھرتی پر نظر رکھیں ، ان معاملات پر کسی قسم کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہسپتالوں کے سکیورٹی گارڈز کی کوئی اسکریننگ نہیں ہوتی۔ آئی جی سندھ کا کہنا تھا ہسپتالوں میں سکیورٹی گارڈز کی ٹریننگ کا معاملہ دیکھ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت آئندہ ماہ تک ملتوی کر دی۔

متعلقہ عنوان :