صحت کے اہداف کے حصول میں پاکستان 149ویں نمبر پر

مطالعے میں تمام ممالک کی ترتیب صفر سے 100 تک کے انڈیکس اسکور کے ذریعے کی گئی پاکستان کا اسکور بنگلہ دیش اور موریطانیہ کے ساتھ 38 ہے جو ہندوستان سے 6 درجے جبکہ ایران سے کئی درجے کم ہے

ہفتہ 24 ستمبر 2016 10:45

نیویارک،کراچی( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔23ستمبر۔2016ء ) اقوام متحدہ کے صحت کے شعبے میں بہتری کی جانب کوششوں کے لیے قائم ایس ڈی جی (سسٹینبل ڈیولپمنٹ گولز) کے پہلے جائزے میں پاکستان 188 ممالک کی فہرست میں 149 ویں نمبر پر ہے۔نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں گلوبل برڈن آف ڈیزیز اسٹڈی کے عنوان سے جائزہ کا افتتاح ایک خصوصی تقریب میں کیا گیا۔

مطالعے میں تمام ممالک کی ترتیب صفر سے 100 تک کے انڈیکس اسکور کے ذریعے کی ہے۔پاکستان کا اسکور بنگلہ دیش اور موریطانیہ کے ساتھ 38 ہے جو ہندوستان سے 6 درجے جبکہ ایران سے کئی درجے کم ہے۔آغاخان یونیورسٹی سینٹر فار ایکسی لینس ان ویمن اینڈ چائلڈ ہیلتھ کے بانی ڈائریکٹر اور اسٹڈی کے شریک مصنف پروفیسر ذوالفقار بھٹہ کا کہنا تھا کہ 'یہ مطالعات پاکستان کے لیے تنقیدی لحاظ سے بہت اہم ہے تاکہ وہ اس کی مدد سے موجودہ کارکردگی کے ساتھ ساتھ صحت اور ایس ڈی جی سے متعلق اہداف حاصل کرسکتے ہیں'۔

(جاری ہے)

مطالعے کے مطابق نظام میں وسعت، خاندانی منصوبہ بندی تک باآسانی رسائی، نومولود اور 5 سال سے کم عمر کے بچوں کی اموات میں کمی سمیت کئی امور میں بہتری ایس ڈی جی میں بہتر پوزیشن کے لیے مددگار ہیں۔آئس لینڈ 85 پوائنٹس کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ برطانیہ اور کینیڈا بالترتیب 82 اور 81 پوائنٹس حاصل کرکے سرفہرست 10 ممالک میں شامل ہیں جبکہ افغانستان نچلی سطح پر موجود 10 ممالک میں شامل ہیں اور وسطی افریقی ریاستیں کم تر سطح کے 20 ممالک کے ساتھ فہرست میں موجود ہیں۔

کینیا کی ایس ڈی جی میں اسکور کی پوزیشن 2000 سے 2015کے دوران 33 سے 40 درجے کے ساتھ بہتر ہوئی ہے۔اسٹڈی کے نتائج میں آمدنی، تعلیم اور پیدائش کی شرح کو صحت کی بہتری کے طورپر بھی اجاگر کیا گیا ہے اور ان معاملات پر صرف سرمایہ کاری کو ناکافی قرار دیا گیا ہے۔ممالک انفرادی طور پر اپنے اہداف کے حصول میں متحرک ہیں جس کی ایک مثال سروے میں شامل اکثر ممالک میں شرح اموات ایک لاکھ کی پیدائش کی تناسب میں 70 اموات ہیں جو ایس ڈی جی کے اہداف کو موثر طور پر چھو رہا ہے، اس کے برعکس کوئی بھی ملک بچوں میں موٹاپے کے خاتمے یا ایچ آئی وی اور تپ دق جیسے متعدی امراض کو جڑ سے ختم کرنے کے ہدف تک نہیں پہنچ سکا۔