قومی اسمبلی،سیکورٹی ایکسچینج کمیشن نے آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کا آغاز کردیا

پاکستان میں رجسٹرڈ آف شور کمپنیوں کی جانب سے سرمایہ کاری نہیں کی گئی،کچھ کمپنیوں نے غیر ملکی دائرہ کار کے تحت رجسٹرڈ کمپنیوں سے لین دین کیا،قومی اسمبلی میں تحریری جواب حکومت کوئی ایسی سکیم نہیں لائی جس سے کالے دھن کو سفید کیا جاسکے،ایک قدم اٹھایا تھا کہ لوگ زیادہ سے زیادہ ٹیکس ادا کریں لیکن اس میں پیش رفت نہیں ہوئی،شیخ آفتاب

منگل 27 ستمبر 2016 10:54

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔27ستمبر۔2016ء)وزارت خزانہ کی جانب سے قومی اسمبلی کو تحریری طور پر بتایا گیا کہ سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے،پاکستان میں رجسٹرڈ آف شور کمپنیوں کی جانب سے سرمایہ کاری نہیں کی گئی ہے،کچھ کمپنیوں نے غیر ملکی دائرہ کار کے تحت رجسٹرڈ کمپنیوں سے لین دین کیا ہے جو کہ کمپنیز آرڈیننس1984 کے حوالے سے منع نہیں ہیں،ایس ای سی پی نے ایسی کمپنیوں کے ساتھ رابطوں کا آغاز کردیاا ہے جہاں عدم تعمیل دیکھنے کو ملے گی وہاں قانون کی متعلقہ تشریح کے مطابق ضروری قانونی کارروائی کا آغاز کیا جائے گا۔

پیر کو ایوان زیریں میں وقفہ سوالات کے دوران شیخ آفتاب نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ وزیراعظم کے صوابدیدی فنڈز جو کہ ایک بلین ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی کو بھی وزیراعظم ہاؤس کے ملازم کو کچھ ہو جاتا ہے تو یہ اس پر کام آتا ہے،2013-14ء میں شادی کیلئے 56لاکھ 46ہزار اور وفات کی صورت میں 2لاکھ70ہزارروپے خرچ ہوئے،پارلیمانی سیکرٹری فنانس نے بتایا کہ2015-16ء میں10لاکھ 78 افراد نے ٹیکس گوشوارے جمع کروائے ہیں اور ایک سال کے اندر30فیصد لوگوں نے زیادہ ٹیکس ادا کئے ہیں اور رواں سال کارکردگی زیادہ بہتر نظر آئے گی جس میں تمام سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں اور حکومت نے کوئی ایسی سکیم نہیں لائی جس سے کالے دھن کو سفید کیا جاسکے،ایک چھوٹا سا قدم اٹھایا تھا کہ لوگ زیادہ سے زیادہ ٹیکس ادا کریں لیکن اس میں کوئی بھی پیش رفت نہیں ہوئی۔

(جاری ہے)

شیخ آفتاب نے بتایا کہ ٹارگٹ ہے کہ2025میں ملک میں سے غربت کم کی جائے گی اس مقصد کیلئے بلوچستان کا دورہ بھی کیا ہے سی پیک شروع ہونے سے عوام کو چار لاکھ نوکریاں ملیں گی ابھی بھی ہزاروں لوگ سی پیک منصوبوں پر کام کر رہے ہیں اور بی آئی ایس پی میں 100بلین سے زیادہ پیسہ رکھا گیا ہے،وزیراعظم کے ترقیاتی پروگراموں میں جن میں پینے کا صاف پانی جیسے منصوبوں سے غربت میں کمی آرہی ہے جبکہ بیت المال سے لوگوں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں،حکومت کا زیادہ تر فوکس سی پیک پر ہے۔

وفاقی حکومت تمام صوبوں کیلئے ہے کراچیM9بنانے میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا موجودہ حکومت کے دور میں جو بھی سندھ میں منصوبے شروع ہوئے وہ کسی بھی دور میں نہیں ہوئے ہیں اور فی الحال بلوچستان میں میٹرو بس کا کوئی بھی منصوبہ شروع کرنے کا پروگرام نہیں ہے کیونکہ کوئٹہ میں ٹریفک کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔علی محمد خان نے سوال کیاکہ ملک میں ہسپتالوں کی حالت انتہائی خستہ ہے اور چلڈرن ہسپتال میں سہولیات ہی میسر نہیں ہیں اور حکومت صرف میٹروبس اور ٹرینیں بنا رہی ہے جس پر شیخ آفتاب نے جواب دیا کہ ملتان کے ہسپتالوں میں شکایات ہیں لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے انٹرمیڈیکل کالج کے ڈاکٹروں کو بلا کر تمام مسائل زیر بحث لائے گئے اور مسائل پر قابو پانے کیلئے اقدامات کرنے کی یقین دہانی کرالی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بونیر کا چپہ چپہ چھان مارا لیکن یورینیم کا ایک زرہ بھی نہیں ملا،پارلیمنٹیرین کی تنخواہیں بڑھانے کا منصوبہ جائز ہے اور وزارت فنانس اس پر عمل کریگی پوری دنیا میں موجود پارلیمنٹ ممبران میں سے پاکستان کے ممبران کی تنخواہیں انتہائی کم ہیں اور اگر آج ملک محفوظ ہے تو اس کی وجہ نواز شریف ہیں کہ جنہوں نے ایٹمی دھماکے کرکے ملک کو ایٹمی پاور بنایا اور جس کی وجہ سے انہیں اٹک قلعے میں بند بھی کیا گیا۔

پارلیمانی سیکرٹری فنانس رانا افضل نے ایوان کو بتایا کہ کمرشل بنکوں سے قرض کم کئے گئے ہیں اور گزشتہ سالوں میں کوئی بھی قرض معاف نہیں کروائے ہیں،2015-16ء میں ریکارڈ ٹیکس جمع کیا گیا 3.11ٹریلین جو گزشتہ برس سے31فیصد زیادہ ہے،ویسٹرن ملکوں میں لوگ50فیصد تک ٹیکس جمع کرواتے ہیں اور وہ بھی اپنی خوشی سے ۔ملک میں عوام کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے کام کیا جارہا ہے اور ملک کے پی ایس ڈی جی تاریخ میں ٹریڈرز کی آسانی کیلئے ایسا کیا ہے کہ آپ خود بھی ایک آسان فارم بنا کر ٹیکس ادا کریں اور ملک میں کرپشن کیلئے آٹومشن جاری ہے،سی پیک پر ایک مخصوص سیکورٹی کی ضرورت ہے اور اس منصوبے کی سیکورٹی کیلئے اگر تھوڑا بہت ٹیکس لگے گا جس کیلئے انہیں تیار ہونا چاہئے اور سی پیک کے حوالے سے کوئی بھی نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا۔

شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ موٹروے کے منصوبے ملک میں تاریخی ہیں اور کراچی میں گرین بس کا منصوبہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے اور موٹروے بننے سے کراچی کا دیگر بڑے شہروں سے فاصلہ کم ہو جائے گا اور لیاری ایکسپریس کا منصوبہ بھی جلد مکمل ہوجائے گا جس سے کراچی شہر کے حالات مکمل طور پر تبدیل ہوجائیں گے

متعلقہ عنوان :