کراچی ، لانڈھی میں دو ٹرینوں میں تصادم ، 21 افراد جاں بحق، 50سے زائد زخمی

لانڈھی ریلوے اسٹیشن اور جمعہ گوٹھ کے درمیان کھڑی فرید ایکسپریس کو زکریا ایکسپریس نے پیچھے سے ٹکر ماری

جمعہ 4 نومبر 2016 11:05

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔4نومبر۔2016ء)کراچی کے علاقے لانڈھی میں دو ٹرینوں میں تصادم کے نتیجے میں 21 افراد جاں بحق اور 50سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ڈویژنل سپرینٹنڈنٹ ریلوے ناصر نذیر نے میڈیا کو بتایا کہ لانڈھی ریلوے اسٹیشن اور جمعہ گوٹھ کے درمیان کھڑی فرید ایکسپریس کو زکریا ایکسپریس نے پیچھے سے ٹکر ماری۔انہوں نے مزید بتایا کہ دونوں ٹرینوں میں تقریباً ایک ہزار کے قریب مسافر موجود تھے۔

ابتدائی معلومات کے مطابق ریسکیو ذرائع کا کہنا تھا کہ حادثے میں 9 افراد ہلاک اور 30 سے زائد افراد زخمی ہوئے تاہم بعد ازاں جناح ہسپتال کی شعبہ حادثات کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی نے تصدیق کی کہ جناح ہسپتال میں 11 افراد کی لاشیں پہنچائی گئیں۔تاہم جناح ہسپتال کے انتظامی عہدے داروں نے بتایا کہ اب تک 21افراد کی لاشیں ہسپتال کے مردہ خانے میں لائی جاچکی ہیں جبکہ زخمیوں کی حتمی تعداد کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں بتایا جاسکتا کیوں کہ امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔

(جاری ہے)

ریلوے ذرائع نے بتایا کہ جس ٹرین نے ٹکر ماری اس کے ڈرائیور اور اسسٹنٹ ڈرائیور نے سنگلنز کو نظر انداز کیا جس کی وجہ سے بظاہر حادثہ رونما ہوا اور 21 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔پیچھے سے آنے والی ٹرین کو پہلے یلو سگنل ملا جس کا مطلب ہے کہ رفتار کم کرلیں اور پھر سرخ سنگل دیا گیا جس کا مطلب ہوتا ہے کہ ایک منٹ کے لیے ٹرین کو مکمل طور پر روک لیں اور انتہائی آہستہ سے آگے بڑھیں کیوں کہ آگے کوئی خطرہ ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈرائیورز اور اسسٹنٹ ڈرائیورز نے دونوں سگنلز کو نظر انداز کردیا۔واقعہ کے بعد سے ڈرائیور اور اسسٹنٹ ڈرائیور لاپتہ ہیں جنہیں تلاش کیا جارہا ہے۔قبل ازیں وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر برائے لیبر سینیٹر سعید غنی نے بتایا کہ ریلوے حکام نے پیچھے سے آنے والی ٹرین کو غلطی سے گرین سگنل دے دیا اور اس نے پہلے سے کھڑی ہوئی ٹرین کو پیچھے سے ٹکر ماردی۔

ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ دونوں ٹرینیں پنجاب سے کراچی آرہی تھیں جبکہ زکریا ایکسپریس نے فرید ایکسپریس کو پیچھے سے ٹکر ماری۔حادثے کے بعد کراچی میں ٹرینوں کی آمد و رفت مکمل طور پر معطل ہوگئی جبکہ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ وہ ڈی ایس ریلوے سے مکمل رابطے میں ہیں جو اس ہنگامی صورتحال کی نگرانی کررہے ہیں۔

شہر میں حکومتی سطح پر ریسکیو کا موثر انتظام نہ ہونے کی وجہ سے زخمیوں کو ٹرین کی بوگیوں سے نکالنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ متعدد زخمیوں کو لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت جناح ہسپتال منتقل کیا۔صبح کے وقت دفتری اوقات کی وجہ سے ٹریفک بھی جام تھا اور ایمبولینس اور دیگر بھاری مشینری کو جائے حادثہ تک پہنچنے میں کافی وقت لگا۔اس کے علاوہ فوج اور رینجرز کے جوانوں نے بھی زخمیوں کو ملبے سے نکالنے میں ریسکیو اہلکاروں کی معاونت کی۔

ٹرین کی سب سے زیادہ متاثر ہونے والی بوگیوں کو کاٹ کر زخمیوں اور لاشوں کو نکالا گیا جبکہ دوسرے ٹریک پر گرنے والے ملبے کو صاف کرکے اسے آمد و رفت کے لیے کھول دیا گیا ۔واضح رہے کہ اس سے قبل ستمبر کے مہینے میں ملتان میں بھی پشاور سے کراچی جانے والی عوام ایکسپریس اور مال گاڑی میں تصادم کے نتیجے میں 4 افراد ہلاک جبکہ 50 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔

نومبر 2015 میں بلوچستان کے ڈسٹرکٹ بولان میں ہونے والے ٹرین حادثے میں ہلاکتوں کی تعداد 21 ہو گئی تھی۔کوئٹہ سے راولپنڈی جانے والی جعفر ایکسپریس کے بریک ضلع بولان میں آب گم کے مقام پر فیل ہو گئے تھے، جس کے نتیجے میں انجن سمیت متعدد بوگیاں پٹڑی سے اتر گئی تھیں۔اسی طرح گزشتہ برس جولائی میں پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ میں ہیڈ چھنانواں کے قریب پل ٹوٹنے کے نتیجے میں فوجی دستوں کو لے جانے والی خصوصی ٹرین کی 4 بوگیاں نہر میں گرنے سے متعدد فوجیوں سمیت 19 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

متعلقہ عنوان :