سرحد پر کشیدگی کے باوجود ایندھن اسٹریٹجک سطح سے نیچے آ گیا

ملک میں تیل کی سپلائی میں خلل ، ذخیرہ کرنے کی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے آئل کمپنیاں معیاری طریقہ کار سے ہٹ کر کام کرنے پر مجبور ملک بھر میں کہیں بھی پٹرولیم مصنوعات کی قلت نہیں، حکو متی عہدیدار

منگل 22 نومبر 2016 10:50

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔22نومبر۔2016ء) بندرگاہ پر رش اور پائپ لائن میں رکاوٹوں کی وجہ سے ملک میں تیل کی سپلائی میں خلل پیدا ہوگیا ہے جبکہ ذخیرہ کرنے کی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے آئل کمپنیاں معیاری طریقہ کار سے ہٹ کر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ میڈ یا رپو رٹ کے مطا بق ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں دو اہم پٹرولیم مصنوعات موٹر پٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی سطح لازمی اسٹریٹجک سطح سے نیچے چلی گئی ہے اور یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ملکی سرحدوں پر کشیدگی عروج پر ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت دفاع نے متعدد بار متعلقہ حلقوں کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا کہ اسٹریٹیجک ذخیرے کے لیے سپلائی میں اضافہ کیا جائے لیکن حکومت اور آئل انڈسٹری دونوں ہی وزارت دفاع سے درخواست کرتے رہے ہیں کہ وہ اضافی ذخیرہ خانوں کی تعمیر کے لیے درخواستوں کی کلیئرنس کی رفتار تیز کرے۔

(جاری ہے)

6 آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سیز) کی مجموعی طور پر 51 درخواستیں جو ملک کے مختلف علاقوں میں اسٹوریج ڈپوز بنانا چاہتی ہیں، وزارت دفاع کے پاس زیر التواء ہیں۔

سابق سیکریٹری پٹرولیم نے بتایا کہ ’اگر تمام این او سیز آج ہی جاری کردیے جائیں تو بھی ذخیرے کی استعداد میں کمی کو پورا کرنے میں ایک سال کا عرصہ لگے گا، انرجی سیکیورٹی کے تناظر میں یہ بہت ہی سنگین معاملہ ہے‘۔ایک حکومتی عہدے دار نے بتایا کہ وزارت پٹرولیم وزارت دفاع سے درخواست کرتی رہی ہے کہ مارکیٹنگ کمپنیوں کو نئے ذخیرہ خانے تعمیر کرنے کے لیے این او سی کے اجراء کے حوالے سے ایک وقتی میکینزم تیار کرلیا جائے۔

موجودہ صورتحال کا ذمہ دار طلب میں اضافے، ذخیرے کی گنجائش میں کمی اور پورٹ پر رش کو قرار دیا جارہا ہے۔یہ معاملہ وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل، آئل ریفائنریز اور او ایم سیز کے نمائندوں کے درمیان ہونے والی ماہانہ پراڈکٹ ریویو میٹنگ میں اٹھایا جاتا رہا ہے۔حکومتی عہدے دار کا کہنا ہے کہ ’ملک بھر میں کہیں بھی پٹرولیم مصنوعات کی قلت نہیں تاہم پٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کم سے کم 20 دن کا ذخیرہ رکھنے کے لازمی شرط سے کم ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’پٹرول 2 لاکھ 57 ہزار ٹن جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل میں 3 لاکھ 15 ہزار ٹن قلت کا سامنا ہے‘۔حکومتی عہدے دار نے بتایا کہ وزارت پٹرولیم کے ڈائریکٹر جنرل آئل او ایم سیز سے درخواست کررہے تھے کہ کہ وہ اپنے انوینٹری لیول میں اضافہ کریں جبکہ پاک عرب ریفائنری (پارکو) کی ذیلی کمپنی پاک عرب پائپ لائن کمپنی (پیپکو) مسلسل یہ شکایتیں کررہی ہیں کہ او ایم سیز پائپ لائنز کا غلط استعمال کررہی ہیں اور پائپ میں ہی تیل ذخیرہ کررہی ہیں۔

پیپکو اور پارکو نے شکایت کی کہ ’وائٹ آئل پائپ لائن (ڈبلیو او پی) سسٹم چوک تھا اور او ایم سیز اسے بطور اسٹوریج سسٹم استعمال کررہی تھیں، ڈبلیو او پی سسٹم ترسیلی نظام ہے نہ کہ اسٹوریج سسٹم‘۔پیپکو نے وضاحت کی کہ متوقع فروخت سے کہیں زیادہ مقدار میں تیل پائپ لائن میں داخل کردیا گیا اور او ایم سی کی جانب سے انہیں نکالا نہیں گیا۔نتیجتاً حکام کے لیے مزید آنے والے بحری جہازوں کو ہموار طریقے سے لنگر انداز کرنے میں مشکلات پیش آنے لگیں۔

آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل ریفائنریز اور او ایم سیز کی جانب سے یہ مطالبہ کررہی ہے کہ پائپ لائن سسٹم میں موجود اسٹاک کا ریگولر ڈیٹا فراہم کیا جائے تاکہ رکن کمپنیوں کو کہا جاسکے کہ وہ اپنی مصنوعات کو جلد از جلد نکال لیں۔حکام کا کہنا ہے کہ، مثال کے طور پر پٹرول سے بھرے کم سے کم تین جہازوں کو جیٹی پر رش کی وجہ سے ستمبر 24/ ستمبر 29 کے شیڈول کے مطابق جگہ نہ مل سکی۔جب ایک جہاز بندرگاہ پر آتا ہے تو اس کے مالک کو ایک نوٹس دینا پڑتا ہے جس میں دو تاریخیں درج ہوتی ہیں ، ان میں سے ایک تاریخ جہاز کے لوڈنگ پورٹ پر آنے اور دوسری لنگر اندازی کے لیے تیار ہونے کی ہوتی ہے۔

متعلقہ عنوان :