سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کا اجلاس

تین سالہ بجٹ اور اس کے استعمال کے معاملات کے علاوہ ٹرینوں کے آئے دن حادثات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا کمیٹی نے ریلوے ٹریک کو بہتر اور اپ گریڈ کرنے کی سفارش کر دی، آئندہ اجلاس میں ملازمین کی صوبہ وائز تفصیلات طلب کر لی تین سالوں کے دوران مجموعی طور پر تین سو ریلوے حادثات ہوئے ہیں ، 11سالوں کے دوران ریلوے حادثات کے دوران مجموعی طور پر 146افراد جاں بحق،ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں ، ریلوے کی زمینوں پر قابضین کے خلاف سخت ترین کاروائی کی جارہی ہے، کمیٹی کو بریفنگ

جمعرات 8 دسمبر 2016 11:39

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔8دسمبر۔2016ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کو بتایا گیا کہ گذشتہ تین سالوں کے دوران مجموعی طور پر تین سو ریلوے حادثات ہوئے ہیں جبکہ گذشتہ 11سالوں کے دوران ریلوے حادثات کے دوران مجموعی طور پر 146افراد جاں بحق جبکہ ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں ،ریلوے میں ہونے والے زیادہ تر حادثات فنی خرابی کی بجائے انسانی کوتاہی کی وجہ سے ہوئے ہیں ، ریلوے کی زمینوں پر قابضین کے خلاف سخت ترین کاروائی کی جارہی ہے کمیٹی نے ریلوے ٹریک کو بہتر اور اپ گریڈ کرنے کی سفارش کر دی اور آئندہ اجلاس میں ملازمین کی صوبہ وائز تفصیلات طلب کر لی ہیں ۔

قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سردار فتح محمد حسنی کی صدارت میں پارلیمنٹ لاجز میں منعقد ہوا ۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں کمیٹی کی طرف سے وزارت ریلوے کی زمین ، شالیمار ہسپتال اور ڈی ایچ اے بہاولپور سے واپس وزارت کو دینے کے حوالے سے سفارشات پر عملدرآمد ، وزارت ریلوے کے پچھلے تین سالہ بجٹ اور اس کے استعمال کے معاملات کے علاوہ ٹرینوں کے آئے دن حادثات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

کمیٹی کو ریلوے کے چیف آپریٹر محمود حسین نے بتایا کہ ایک سال میں 36 ہزار مسافر ٹرینیں اور 7 ہزار مال بردار ٹرینیں چلتی ہیں ۔ روزانہ 180 ٹرینیں چلتی ہیں ۔ پچھلے تین سالوں کے دوران کل تین سو ریلوے حادثات ہوئے ۔ 2016 میں72 ، 2015 میں 110 اور 2014 میں72 حادثات ہوئے ۔ پچھلے 11 سالوں میں ریلوے حادثات کے نتیجہ میں146 افراد جاں بحق ہوئے اور 1008 زخمی ہوئے۔

کسی بھی حادثے کی انکوائری باہر سے کرائی جاتی ہے تاکہ اپنے لوگوں کو بچایا نہ جا سکے ۔زیادہ تر حادثات کی بنیادی وجہ انسانی کوتاہی سامنے آئی ہے ۔ جعفر ایکسپریس اور علی پور چھٹہ ٹرین حادثوں کی بنیادی وجہ ڈرائیور تھے دونوں اوور سپیڈ تھے ۔ علی پور چھٹہ کی سپیڈحد 30 کلو میٹر فی گھنٹہ تھی جبکہ وہ 82 کلو میٹر فی گھنٹہ جا رہا تھا موڑ پر کنڑول نہ کر سکا اور حادثہ ہوگیا ۔

اسی طرح کراچی حادثے والا ڈرائیور اپنی فیملی کو دیکھنے پچھلی بوگیوں میں تھا اور اسسٹنٹ ڈرائیور ٹرین چلا رہا تھا ۔ پیلا اور سرخ اشاروں کے باوجود 90 کلو میٹر فی گھنٹہ کی سپیڈ سے ٹرین چلاتا رہا جو حادثے کا سبب بنا۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وفاقی وزیر ریلوے ادارے کی بہتری کیلئے دن رات محنت کر رہا ہے اور بہتری نظر بھی آرہی ہے مگر ان حادثات کی وجہ سے کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھتے ہیں ۔

وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ انسانی کوتاہی کو کم کرنے کیلئے اقدامات اٹھا رہے ہیں دنیا بھر سے معلومات حاصل کر رہے ہیں ایک ماہ میں ماسٹر پلان تیا رکر لیں گے ۔ ہر ٹرین کو چلنے سے پہلے چیک کیا جاتا ہے۔ اگلے دس سالوں میں تین اہم کام کرنے ہیں جن میں سو فیصد ایم ایل ون کی اپ گریڈیشن ، ایم ایل ٹو اٹک کشمور ، کوٹری کو اپ ڈیٹ کریں گے اور ایم ایل تھری روہٹری ، سبی ، کوئٹہ ، تعفتان وغیرہ پر کام کیا جائے گا۔

وفاقی وزیر نے یقین دلایا کہ حادثات کے ذمہ دار لوگوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی اور کسی ایک بندے کی کوتاہی سے سینکڑوں افراد کی زندگیوں کو داؤ پر نہیں لگایا جائے گا۔ ممبر بورڈ پنجاب ریونیو محمد ثاقب نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ریلوے کی بہاولپور میں12.8ایکٹر زمین ڈی ایچ اے سے واپس وزارت کو بھیجنے کی سمری وزیراعلیٰ پنجاب کو بھیج دی ہے چھ ہفتوں میں مسئلے کا حل ہو جائے گا۔

شالیمار ہسپتال سے 18 ایکڑ زمین وزارت ریلوے کو واپس دلوانے کیلئے چار ہفتے لگیں گے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ قائمہ کمیٹی کو پہلے بھی دو ہفتوں تک معاملات طے کرنے کی یقینی دہانی سینئر ممبر بورڈ پنجاب ریونیو نے کرائی تھی آج پھر دہرایا جارہا ہے ۔ ایک ماہ کے اندر دونوں معاملات حل کیے جائیں جس پر محمد ثاقب نے بتایا کہ وزارت ریلوے نے پنجاب حکومت کی 40 ایکڑزمین پر قبضہ کر رکھا ہے جسے وفاقی وزیر نے معاملہ حل نہ کرنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ نیا شوشا چھوڑا جارہا ہے پہلے کبھی نہیں بتایا گیا ۔

سینیٹر اسلام الدین شیخ نے کہا کہ سکھر ریلوے اسٹیشن کے قریب وزارت ریلوے کی انتہائی قیمتی زمین ہے جس پر لوگ قبضہ کر لیتے ہیں جسے چھوڑانا بہت مشکل ہو جاتاہے اس پر وزارت کوئی مشترکہ منصوبہ شروع کر دے ۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کے چیئرمین کو مشترکہ کمیٹی کیلئے خط لکھا جائے گا تاکہ معاملہ کو حل کیا جا سکے ۔

ممبر خزانہ غلام مصطفی نے قائمہ کمیٹی کو وزارت ریلوے کے بجٹ اور اس کے استعمال کی تفصیلات سے آگاہ کیا انہوں نے کہا کہ تنخواہ کی مد میں بجٹ کا 39 فیصد ، پنشن میں 27 فیصد اور ایندھن میں20 فیصد خرچ ہو جاتا ہے باقی بہت کم بچتا ہے جو اپ گریڈیشن پر خرچ کیا جائے ۔ 11 ہزار کلو میٹر ریلوے ٹریک ہے ۔ قائمہ کمیٹی نے ریلوے ٹریک کو بہتر اور اپ گریڈ کرنے کی سفارش کر دی اور آئندہ اجلاس میں ملازمین کی صوبہ وائز تفصیلات طلب کر لیں ۔

قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز زاہد خان، تاج محمد آفریدی ، نسیرن جلیل ، لیفٹینٹ جنرل(ر)صلاح الدین ترمذی، اسلام الدین شیخ، ثمینہ عابد کے علاوہ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ، سیکرٹری ریلوے بورڈ ، ممبر ریونیوپنجاب کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

متعلقہ عنوان :