سینیٹ ،قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کی تحریک پیش

نیشنل سیکورٹی کمیٹی کوئی نیا طریقہ نہیں ہے بلکہ نیشنل ایکشن پلان کے بعد ناگزیر ہے تاکہ نیشنل ایکشن پلان کے اقدامات کی نگرانی کی جاسکے،شیری رحمان پاکستان کودرپیش چیلنجز کا توڑ قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی ہے،اگر پارلیمان کو مضبوط بنانا ہے تو اس کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے،سحر کامران مفادات کے تحت پالیسیاں چلتی رہی تو ملک میں نان سٹیک ہولڈرز بڑھتے رہیں گے، جہانزیب جمالدینی، عثمان کاکڑ،عبدالقیوم،بیرسٹر سیف کا اظہار خیال

جمعہ 16 دسمبر 2016 11:29

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔16دسمبر۔2016ء)سینیٹ اراکین نے قومی سلامتی کیلئے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کی تحریک پیش کردی گئی،نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی اور ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پارلیمانی کمیٹی کا قیام بے حد ضروری ہے،وزیراعظم میاں نوازشریف اور وزیرخزانہ کے قومی سلامتی پر پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی یقین دہانی کرائی تھی مگر اس پر عملدرآمد نہ کیا گیا،پارلیمنٹ ایک سپریم ادارہ ہے اور اس کے تقدس کو برقرار رکھنے کیلئے کمیٹی کا قیام از حد ضروری ہے،قومی سلامتی کے ادارے اور ملک کی داخلہ وخارجہ پالیسی کو پارلیمنٹ کے تابع بنایا جائے۔

ایوان بالا میں قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی کے قرارداد پر پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے تحریک پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ دور میں نو سال نیشنل سیکورٹی کمیٹی بھرپور طریقے سے کام کر تی رہی ہے اور یہ کوئی نیا طریقہ نہیں ہے بلکہ نیشنل ایکشن پلان کے بعد ناگزیر ہوچکی ہے تاکہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت کئے جانے والے اقدامات کی نگرانی کی جاسکے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سابقہ دور میں یہ کمیٹی مشترکہ قرارداد کے ذریعے بنی تھی اور اب پاکستان جن حالات سے دوچار ہے اس سے نمٹنے کیلئے کمیٹی کاقیام بے ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب میں دہشتگردی یا انتہا پسندی کے خلاف اب تک کوئی اقدامات نہیں کئے گئے ہیں،کالعدم تنظیموں کے بارے میں کوئی جواب نہیں دیا جاتا ہے اور نہ ہی پارلیمان کو مطمئن کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ یقین دہانی کیا گیا تھا کہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی ضروری بنے گی اور وزیراعظم نے واضح طور پر کہا تھا کہ مشترکہ قرارداد میں نیشنل سیکورٹی پارلیمانی کمیٹی بنانے کی یقین دہانی کرائی گئی۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد نے بذریعہ فون یہ بتایا تھا کہ یہ کمیٹی ضرور بنے گی۔سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ آج پاکستان کو جس قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے اس کا توڑ قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر پارلیمان کو مضبوط بنانا ہے تو اس کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کی نگرانی کرنے والا کوئی ادارہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ملکی سلامتی کے جو مسائل ایوان میں اٹھائے جاتے ہیں تو ان پر لکھی ہوئی تحریر پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ قومی سلامتی کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی جلد از جلد قائم کی جائے۔

سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ اس کمیٹی کا قیام بے حد ضروری ہے تمام معاملات پر پارلیمنٹ کا اختیار بے حد ضروری ہے اور ایسی کمیٹی بنائی جائے جو ملک میں تمام خرابیوں پر نظر رکھ سکے اور اس کے حل کے بارے میں اپنی آرا دے سکے۔انہوں نے کہا کہ اگر مفادات کے تحت پالیسیاں چلتی رہی تو پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات خراب رہیں گے اور ملک میں نان سٹیک ہولڈرز بڑھتے رہیں گے۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ قومی سلامتی کے بارے میں اہم تحریک ہے ملک کا بنیادی مسئلہ دہشتگردی ہے مگر موجودہ حکومت اس کو سنجیدہ نہیں لے رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت آئین میں ناروا تبدیلیاں کی گئیں ان کیمرہ اجلاس میں دہشتگردی کے اصل حقائق نہیں بتائے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت نیکٹا سمیت کوئی بھی ادارہ پارلیمنٹ کو جواب دہ نہیں ہے،ملک کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے قومی سلامتی کمیٹی کا قیام از حد ضروری ہے اور اس کا بااختیار ہونا بے حد ضروری ہے تاکہ کسی بھی واقعے کے بعد پمفلٹ کے ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔

سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ ملک کیلئے پارلیمانی جمہوری نظام سب سے بہتر ہے اور نیشنل سیکورٹی کی پارلیمانی کمیٹی کا قیام سب سے زیادہ ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ پبلک اکاؤنٹس،ڈیفنس اور کشمیر کمیٹی بھی مشترکہ طور پر ہونی چاہئے۔سینیٹر ترمذی نے کہا کہ بدقسمتی سے ملک میں ادارے تو بن جاتے ہیں مگر اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا ہے اگر ہم ایک نئی کمیٹی بنالیں اور اس کو سنا نہ جائے تو اس کا کیا فائدہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ اداروں کو پارلیمنٹ کا پابند بنانا ضروری ہے۔سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان سمیت ایسے منصوبے صرف بیوروکریسی کے فائدے کیسے بنتے ہیں۔انہوں نے ہکا کہ دہشتگردی ختم کرنے کیلئے ان عوامل کو ختم کراناہوگا جس سے دہشتگردی ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ عدلیہ اور اس کے روئیے ہیں اس کیلئے جامع انداز میں اصلاحات لانے ہوں گے۔

سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ جب تک ملک میں میرٹ کی بالادستی ،قانون کی حکمرانی اور ظلم کا خاتمہ زیر اس وقت تک ملک سے دہشتگردی ختم نہیں ہوسکتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کے اندر جذبہ ہو تو کمیٹیوں کے بغیر بھی حالات ٹھیک ہوسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی اور اندرونی پالیسیاں دوسروں کے مفادات کے طابع ہیں جو پرویز مشرف کے دور سے جاری ہیں۔انہوں نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کی مکمل حمایت کرتا ہوں

متعلقہ عنوان :