بیرون ملک پاکستانی قیدیوں کی زیادہ تعداد منشیات سمگلنگ میں ملوث ہے،سرتاج عزیز

سٹاف میں کمی کی وجہ سے دیگر ممالک میں قید پاکستانیوں کو مشکلات کا سامنا ہے پاکستان کے پاس دو اتاشی موجود ہیں جن کی مصروفیت بہت زیادہ ہیں،مشیر خارجہ کا سینٹ وقفہ سوالات میں جواب

جمعرات 22 دسمبر 2016 10:14

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔22دسمبر۔2016ء) مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے سینٹ کو بتایا کہ سٹاف میں کمی کی وجہ سے دیگر ممالک میں قید پاکستانیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے پاکستان کے پاس دو اتاشی موجود ہیں جن کی مصروفیت بہت زیادہ ہوتی ہیں جس کی وجہ سے تمام لوگوں کو سننے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قیدیوں کی زیادہ تر تعداد ڈرگز سمگلنگ میں ملوث ہیجس کی وجہ سے بعض ممالک نے پاکستانیوں کے لئے اپنے ممالک کے دروازے بند کر دیئے ہیں اور وہ پاکستانیوں کو ویزے نہیں دیتے ہیں۔

دیگر ممالک میں364پاکستانی قید ہیں جبکہ354پاکستانی مختلف مقدمات میں نظر بند ہیں،پاکستانی سفارت خانے تمام قیدیوں کی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ بدھ کو سینٹ کے اجلاس میں وقفہ سوالات میں سوالوں کا جواب دیتے ہوئے مشیر خارجہ نے ایوان کو بتایا کہ پاکستان2005ء میں ایس سی او میں آبزرور بنا شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن کی مکمل رکنیت کے لئے 2010ء میں درخواست دی گئی ایس سی او کے ہیڈ آف سٹیٹ کونسل اجلاس میں جولائی2015ء میں پاکستان کو رکنیت دینے کا فیصلہ کیا اور پاکستان کو رکن بنانے کی کارروائی شروع کی گئی ۔

(جاری ہے)

پاکستان نے ایس سی او کے 34معاہدات کی توثیق کی اور اب ہم رکن بننے کے لئے تمام ضوابط پورا کرنے کے عمل میں ہیں۔ وفاقی وزیر برائے فوڈ اینڈ سکیورٹی سکندر بوسن نے ایوان بالا کو بتایا کہ گزشتہ برس 1لاکھ دس ہزار ٹن آموں کی ایکسپورٹ ہوئی جبکہ 3لاکھ ٹن آلو کی ایکسپورٹ کی گئی۔ گزشتہ برس کی نسبت رواں برس کسانوں کو زیادہ منافع دیا گیا ہے جبکہ بلوچستان حکومت کی ڈیمانڈ پر بلوچستان کے راستے سے دوسرے ملک سے آنے والے سیب کو روکا گیا جس سے مقامی لوگوں کو فائدہ پہنچا۔

بلوچستان میں حکومت کا ایک بھی کولڈ سٹور نہیں ہے۔ حکومت نے بلوچستان کے لوگوں کو فوائد پہنچائے ہیں تاکہ وہ اپنی فصلوں کو بڑھا سکیں اور زیادہ منافع کما سکیں ۔ وزیر مملکت برائے تعلیم بلیغ الرحمن نے ایوان کو بتایا کہ ملک کی یونیورسٹیوں کی تعلیمی معیار کو دیکھنے کے لئے نیشنل کوالٹی ایشورنس کمیٹی موجود ہے اور2003ء میں اپنے قیام سے اب تک اس کے 21اجلاس منعقد ہو چکے ہیں۔

ایچ ای سی نے ملک میں کام کرنے والی تمام یونیورسٹیوں کی کوالٹی کا جائزہ لیا اور ان میں بہتری لانے کے لئے ایک لائحہ عمل وضع کر رکھا ہے جو کوالٹی ان ہانسمنٹ سیل کے نام سے جانا جاتا ہے اور یونیورسٹیوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی کارکردگی اور درجہ بندی جاننے کے لئے اقدامات کئے ہیں جن میں کوالٹی ایشورنس 15فیصد منیجنگ کوالٹی 28فیصد، ریسرچ 39فیصد سہولیات 8فیصد سپیشل کمیونٹی ڈویلپمنٹ 10کی بنیاد پر یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔

پاکستان یونیسکو کا مستقل ممبر ہے اور پاکستان نے یونیسکو کو 10ملین روپے جاری کئے تھے لیکن یونیسکو نے کہا کہ یہ رقم پاکستان کو خود ضرورت ہے اور اسی رقم میں سے7ملین روپے بچوں کی لازمی تعلیم کے حوالے سے پروگراموں میں خرچ کی گئی۔ ایوان کو بتایا گیا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران 3438 افراد اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن کے ذریعے بیرون ملک جا چکے ہیں جن کی تفصیلات یہ ہیں پنجاب2294سندھ سے529کے پی کے سے438بلوچستان سے41آزاد کشمیر سے37گلگت سے7ٹرائبل ایریا سے22فیڈرل ایریا سے70لوگ شامل ہیں۔

دی ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹس انسٹی ٹیوشن میں پنشن کے حوالے سے ایوان کو بتایا گیا کہ ای او بی ائی میں کم از کم پنشن5254روپے ماہانہ ہے۔ انسٹیٹیوشن نے بینک الفلاح کے ساتھ ای او بی آئل پنشنرز کو کسی بھی بینک سے بذریعہ اے ٹی ایم پنشن نکالنے کی سہولت فراہم کرنے کا معاہدہ کیا ہے ۔ ای او بی آئی میں کم از کم پنشن 3600روپے سے بڑھا کر5250روپے کر دی گئی ہے اس ضمن میں وفاقی حکومت نے835ملین روپے کی اضافی رقوم کی گرانٹ جاری ہے۔

بلیغ الرحمن نے ایوان کو بتایا کہ سرکاری شعبے میں فائن آرٹس کی ڈگری دینے والے دو ادارے موجود ہیں نیشنل کالج آف آرٹس لاہور اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف فیشن ڈیزائن تاہم ملک بھر میں 17سرکاری شعبے اور 11نجی شعبے کی یونیورسٹیاں فائن آرٹس کے پروگرام چلا رہے ہیں لاہور میں 2011ء میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف فیشن ڈیزائن کا قیام عمل میں لایا گیا۔