Kiya Ap Bhi Apne Bache Ka Motapa Chupana Chahte Hain - Article No. 801

Kiya Ap Bhi Apne Bache Ka Motapa Chupana Chahte Hain

کیا آپ بھی اپنے بچے کا موٹاپا چھپاتے ہیں؟ - تحریر نمبر 801

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ موٹاپے کے صحت پر برے نتائج مرتب ہوتے ہیں تاہم والدین مشکل سے ہی اپنے بچوں کے موٹاپے کو دیکھ پاتے ہیں۔برطانیہ میں تقریبا 3000 کنبوں پر مبنی ایک مطالعے میں یہ پایا گیا

جمعرات 29 اکتوبر 2015

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ موٹاپے کے صحت پر برے نتائج مرتب ہوتے ہیں تاہم والدین مشکل سے ہی اپنے بچوں کے موٹاپے کو دیکھ پاتے ہیں۔برطانیہ میں تقریبا 3000 کنبوں پر مبنی ایک مطالعے میں یہ پایا گیا کہ صرف چار والدین نے اپنے بچوں کے موٹاپے کے بارے میں بات کی جبکہ طبی جانچ میں 369 بچے موٹاپے کا شکار پائے گئے۔جنرل پریکٹس نامی برطانوی جرنل میں محققین کا کہنا ہے کہ معاشرے میں موٹاپا نیا معمول بن گیا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اس مطالعے سے موٹاپے کی وبا کی ’زیادتی‘ کا اندازہ ہوتا ہے۔نیشنل چائلڈ میزر پروگرام کے مطابق چھ سال کے بچوں میں ہر پانچواں بچہ موٹاپے کا شکار ہے جبکہ ان میں 14 فی صد حد سے زیادہ وزن کے زمرے میں آتے ہیں۔لندن سکول آف ہائجین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن اور گریٹ آرمنڈ سٹریٹ ہسپتال کی ٹیم نے تقریبا 3000 خاندانوں کو ایک سوال نامہ دیا جس میں پوچھا گیا کہ آیا ان کے بچے موٹاپے کا شکار یا مقررہ حد سے وزنی یا اس سے کم یا صحت مند درجے کے وزن میں آتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس کے جواب میں 31 فیصد والدین نے اپنے بچوں کے وزن کا تخمینہ کم لگایا جبکہ درست جانچ سے پتہ چلا کہ بچے موٹاپے کی جانب مائل ہیں۔گریٹ آرمنڈ سٹریٹ کے پروفیسر رسل وائنر نے کہاکہ ماڈرن والدین اپنے بچوں کے موٹاپے کو نہیں پہچانتے۔ اگر والدین ہی نہیں پہچانیں گے کہ ان کا بچہ موٹا ہے تو پھر وہ صحت مند وزن حاصل کرنے کے لیے ان کی کس طرح مدد کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ اس سے صحت عامہ کے بحران میں اضافہ ہوتا ہے۔چیف میڈیکل افسر ڈیم سیلی ڈیویز نے اپنی سالانہ رپورٹ میں اس بات کو اٹھایا کہ مقررہ حد سے زیادہ وزن نیا معمول بنتا جا رہا ہے پروفیسر وائنر نے کہاکہ ہمیں ایسے طریقوں کی ضرورت ہے جس ہم والدین کو یہ تعلیم دے سکیں کہ جب ان کے ہاں ولادت ہو تو ان کے بچے کا سائز کیا ہونا چاہیے اور دوسرے والدین سے اپنے خدشات کے بارے میں بات کرنے سے خوفزدہ نہ ہوں۔
اس مطالعے کے نتائج پر رائل سوسائٹی فار بپلک ہیلتھ کی شرلی کریمر نے کہاکہ سکول کی تعلیم کے دوران متحرک طرزِ زندگی اور صحت مند غذا کی اہمیت و افادیت پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے تاکہ معاشرہ غذا اور اچھی صحت کے رشتے کو سمجھ سکے۔انہوں نے کہاکہ اس میں والدین اپنے بچوں کے اہم رول ماڈل ہوتے ہیں اور یہ ضروری ہے کہ صحت کو متاثر کرنے والے تمام عوامل سے وہ واقف ہوں۔اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ صرف والدین کا ہی کام نہیں بلکہ پورے معاشرے کو بھی اچھی غذا کے پیغام کو عام کرنے میں تعاون کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ جنک فوڈ کی تشہیر کو محدود کرنے اور کھانوں کی اچھی غذائیت کا لیبل لگانے سے اس میں تعاون ملے گا۔

Browse More Weight Loss