Tap Muhrqa Ya Taifaied - Article No. 1188

Tap Muhrqa Ya Taifaied

تپ محرقہ یا ٹائیفائڈ - تحریر نمبر 1188

یہ ہر پانچ سات سال کے بعد وبا کی صورت میں پھوٹ پڑتا ہے یہ مردوں میں زیادہ اور عورتوں میں نسبتاً کم دیکھا جاتاہے اور عموماً بیس سے تیس سال کی عمر میں زیادہ ہوتا ہے چھوٹے بچے بہت کم اس میں مبتلا ہوتے ہیں

منگل 5 دسمبر 2017

تپ محرقہ یا ٹائیفائڈ:
یہ ایک متعدی بخار ہے جو عرصے تک متواتر قائم رہتا ہے یہ تمام دنیا میں پایا جاتا ہے لیکن زیادہ تر گرم ممالک میں دیکھا جاتا ہے پاکستان میں یہ بخار زیادہ تر مارچ سے جون کے مہینے میں ہوتا ہے اور گرمی کا موسم ہوتا ہے اگر یہ زمانہ گرم اور خشک رہے تو یہ بخار اکتوبر اور نومبر میں بھی پایا جاتا ہے،اور یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ ہر پانچ سات سال کے بعد وبا کی صورت میں پھوٹ پڑتا ہے یہ مردوں میں زیادہ اور عورتوں میں نسبتاً کم دیکھا جاتاہے اور عموماً بیس سے تیس سال کی عمر میں زیادہ ہوتا ہے چھوٹے بچے بہت کم اس میں مبتلا ہوتے ہیں ،اور تیس سال کی عمر کے بعد اس کے لاحق ہونے کی شرح بتدریج کم ہوتی چلی جاتی ہیں جو بڑھاپے میں بہت کم رہ جاتی ہیں۔

(جاری ہے)

اس کے ایک حملے کے بعد اگرچہ ہمیشہ کے لیے اس سے چھٹکارا حاصل ہوتا ہے لیکن دوسرا اور تیسرا حملہ بھی ہوسکتا ہے،تھکاوٹ اور محنت مشقت کی زیادتی انسان کو اس مرض کے لیے تیار کردیتی ہیں حفاظتی ٹیکہ لگوانے سے اس مرض کے حملے سے انسان بچ سکتا ہے اس کی چھوت انسان کو انسان سے ہوتی ہیں جو بالواسطہ بھی ہوتی ہیں اور بلاواسطہ بھی، بالواسطہ اسباب یہ ہوتے ہیں گردوغبار کے ذریعے(چھوت کا یہ راستہ کچھ زیادہ قابل اعتبار نہیں)آلودہ پانی جو گندی نالیوں یا مرض برداروں کے پاخانے سے گندا ہوگیا ہو اور یہ ذریعہ اس مرض کے پھیلانے کا سب سے بڑا سبب ہوتا ہے دودھ،آئس کریم،پنیر،مکھن اور اس قسم کی دیگر اشیا کے ذریعے بھی یہ مرض خوب پھیلتا ہے،سبزیاں اور پھل جو بغیر پکائے کھائی جاتی ہیں وہ بھی اس مرض کو پھیلانے کا باعث بن جاتی ہیں اس مرض کے مریض کے استعمال میں آئی ہوئی اشیا اس کے استعمال کے برتن اور کپڑے وغیرہ بھی چھوت کا باعث ہوتے ہیں۔
بلاواسطہ ذرائع اس کی وبا میں بہت حصہ لیتے ہیں اگرچہ مقامی طورپر اسے پھیلانے میں مدد دیتے ہیں مثلاً پاخانہ،پیشاپ قے اور اس مرض کا باعث بن گئے ہوئے پھوڑوں اور زخموں سے خارج ہونے والا مواد اور اغلباً بلغم بھی،اور اصل خطرہ تو ان لوگوں سے ہوتا ہے جو ”مرض برادر“ کہلاتے ہیں اور ان کی اس خصوصیت کو آسانی سے پہچانا بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔
یہ کون لوگ ہوتے ہیں؟یہ وہ مریض ہوتے ہیں جومحرقہ تپ میں مبتلا رہ کر اب تندرست ہوگئے ہوتے ہیں،ان میں تقریباً پانچ فیصد ایسے بھی ہوتے ہیں جو مہینوں اور برسوں ہی اس مرض کے جراثیم کو اپنے فضلے میں خارج کرتے رہتے ہیں ،بظاہر یہ لوگ تندرست ہوگئے ہوتے ہیں لیکن گاہے بگاہے ان کے پیٹ میں تکلیف رہتی ہیں اور اس کا تعلق اکثر اپنے مرارہ سے بتایا جاتا ہے تقریباً پچیس فیصد مریض ایسے ہوتے ہیں جو تندرست ہوجانے کے بعد اپنے پیشاپ کے اندر ان جراثیم کو خارج کرتے رہتے ہیں اس قسم کے”مرض بردار“اس وقت زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں جب یہ کھانے پینے کی چیزیں بیچنے والے ہوں اور جن مقامات یا آبادیوں میں یہ ہر موسم میں پایا جاتا ہے اس کا سبب یہی مرض بردار سمجھے گئے ہیں نہ کہ دوسرے مقامات سے آنے والے جراثیم جو مسافروں کے ذریعے ایک مقام سے دوسرے تک پہنچ جاتے ہیں،ایسے لوگوں کو ایسی تجارت سے روک دینا مناسب ہوگا جس کا تعلق کھانے پینے کی اشیا سے ہوں یہ لوگ پاخانہ اور پیشاپ کرنے کے بعد جب طہارت کرلیتے ہیں تو اپنے ہاتھوں کو ان جراثیم سے ملوث مت کرلیتے ہیں اس لیے ہر ایسے موقع کے بعد اپنے ہاتھوں کو صابن سے اچھی طرح صاف کرلیا کریں اور اپنے تولیے اور رومال بھی علیحدہ رکھیں،ان کے ناخن ہمیشہ کٹے ہوئے ہونے چاہیں تاکہ بڑھے ہوئے ناخنوں کے نیچے مواد جمع نہ ہوسکے کیونکہ یہ مقام اکثر جراثیم کا خزانہ ہوتا ہے اور جب انگلی منہ میں جاتی ہیں توجراثیم حلق میں ترجاتے ہیں،تیماداریوں اور ملنے جلنے والوں کو حفاظتی ٹیکے کے ذریعے اس مرض سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے صاف اور خالص پانی کی بہم رسانی اور فضلاجت کو صحیح طور پر ٹھکانے لگانا اس مرض سے بچاؤ کی اہم ترین تدابیرہیں،جب وبا پھیلی ہوئی ہو یا اس مرض کے پھیلنے کا موسم ہوتو دودھ اور پانی کوہمیشہ اُبال کر استعمال کریں اور جو مسافر باہر سے آئیں ان کوبھی ان مقامات پر یہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے کچی سبزیاں بالخصوص گاجر،مولی،سلاد،ٹماٹر اور پھل وغیرہ ضرور ملوث ہوجاتے ہیں،حفاظتی ٹیکہ اس وقت لگوانا چاہیے جب زیادہ پیٹ بھر کر نہ کھایا گیا ہو اورنہ ہی جب بھوک لگی ہو،ٹیکے کے بعد خفیف سے مقامی تکلیف یا بخار وغیرہ آنے لگتاہے یہ ٹیکہ لگوانے کے بعد آرام کرنا ضروری ہوگا اگر اس بخار کے جراثیم کی چھوت پہلے ہی لگ چکی ہے تو ٹیکے کے بعد تکلیف زیادہ ہوگی،ٹیکے کا اثر ایک سال تک ہی رہتا ہے اس لئے دوبارہ ٹیکہ لگوانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے،اس مرض میں تیماداری اور مناسب غذا کا استعمال بے حد اہم ہے بستر اور کمرہ ایسا ہونا چاہیے جو مریض کی منشا کے مطابق ہو اور آرام دہ ہو اور موسم کے اعتبار سے اس میں کھلی ہوا اور دھوپ آتی ہیں صبح و شام موشم کے لحاظ سے مریض کے بدن کو تازہ پانی سے استفنج کے ذریعے صاف کرتے رہا کریں،جسم کے وہ حصے جن پر دباؤ پڑ رہا ہوتا ہے مثلاً کمر ،کولھے، کہنیاں،کندھے وغیرہ تو ان کو سپرٹ سے صاف کرکے ان پر پوڈر چھڑک دیں اور یہ عمل روزانہ کریں،پاخانہ اور پیشاپ لیٹے ہوئے ہی کرنے کی ہدایت کریں،لیکن اکثر مقامات ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے اور مریض کے لئے باعث تکلیف بھی،اس لئے بستر کے پاس ہی اگر اسے پاٹ پر بٹھا دیا جائے تو بہتر ہوگا اور یہ کوفت اس تکلیف سے بدرجہ یا کم ہوگی جو اسے پیشاپ اور پاخانہ نہ کرنے کے باعث اٹھانی پڑئے گی،غذا دینے کے بعد اس کے منہ اور دانتوں کو اچھی طرح صاف کریں اور مریض سے کہیں کہ وہ اپنی کروٹ بدلتا رہے گا اگر وہ خود ایسا نہ کرسکے تو تیمادار کو یہ فرض ادا کرنا چاہیے،محرقہ تپ میں غذا دینے کا اصول یہ ہونا چاہیے کہ مریض کو پانی حیاتین اور غذا پہنچانے والی دیگر اشیا مناسب مقدا ر میں دی جائیں لیکن اس حالت میں کہ وہ اپنا فضلہ زیادہ مقدار میں نہ چھوڑیں کیونکہ اس مرض کا عرصہ کافی لمبا ہوتا ہے اور دوسرے اس مرض میں انتڑیوں کے اندر زخم ہوجاتے ہیں،موسم کے اعتبار سے پانی کی مقدار میں بڑا اختلاف ہوگا لیکن مریض کو پیاسا نہیں رکھنا چاہیے اور نہ ہی اس قدر پانی پلائیں کہ پیٹ بھر جائے اس لیے سردیوں میں کم اور گرمیوں میں زیادہ پانی پلائیں،دیگر غذائی اشیا بھی مریض کی عادت کے مطابق دیں،چاول کھچڑی،انڈے کی زردی اور ڈبل روٹی دودھ کے ساتھ کھائیں اورمریض کو ہدایت کریں کہ وہ بیک وقت تھوڑا کھانے اور بھوک کے مطابق دن میں کئی بار کھائے،پھل میں وہ دیں جو رس والے ہوں،مثلاً سنگترہ انار وغیرہ خربوزہ،تربوز اور سیب سے پرہیز کریں پھلوں کا رس نکال کر غٹ غٹ نہ پئیں بلکہ ان کو تھوڑا تھوڑا چوسیں اور اس میں زیادتی نہ کریں،اگر ضرورت ہو تو پانی کو ذائقہ دار بنانے کے لئے اس میں گلوکوز یا لیکٹوز ملالیں جب درجہ حرارت تین دن تک طبعی حالت پر رہے یا اس سے بھی کم ہو،اور ایسا ضعف کے باعث ہوتا ہے تو اب غذا کو آہستہ آہستہ لیکن بڑی احتیاط کے ساتھ بڑھائیں کیونکہ دن دن تک مرض کے عود کو آنے کا خطرہ باقی رہتا ہے۔
بنیادی طور پر مریض کی خوراک دودھ ہی ہوتی ہیں البتہ حالت کے مطابق ایس میں ترمیم کرلینا ضروری ہوگا اگر کچھ بھی ہضم نہ ہو رہا ہو اور بالخصوص جب مریض عمر کا کچا ہو تو دودھ کو پھاڑ کر اس کا پانی پلائیں جب دودھ ہضم ہونے لگے تو دودھ کو ابالے ہوئے پانی سے پتلا کرکے دیں اور مقدار کے مطابق اس کے اندر دو تین گرین سوڈیم سٹریٹ ملادیں یا دو سے تین گرین کے برابر سیلی سلک ایسڈ ملادیں یہ دوا دودھ میں جلد حل نہیں ہوتی اس لیے پہلے چمچے میں ڈال کر اس کا دودھیا مرکب بنائیں اور پھر اسے کھولتے ہوئے دودھ میں ڈال دیں یا دودھ کے اندر ہلکی چائے کا پانی ملادیں دودھ تھوڑا تھوڑا کرکے ہلائیں مثلاً پاؤ بھر ایک وقت میں اور ہر تین چار گھنٹے کے بعد پلائیں،اگر بدہضمی کی شکایت ہوجائے تو دودھ کی مقدار کم کردیں ذائقہ اور زبان کا چٹخارا بدلنے کے لئے قدرے دہی کا استعمال بھی درست رہتا ہے،پہلے چار پانچ دنوں میں انڈا،ڈبل روٹی اور بسکٹ وغیرہ دیے جاسکتے ہیں اور ان کو بھی دودھ کے ساتھ دیں کیونکہ ان دنوں میں انتڑیوں کے اندر زخم نہیں بنے ہوئے ہوتے اگر دست آنے لگیں تو غذا کی مقدار کم کردیں

Browse More Ghiza Aur Sehat