Aalmi Maholiati Coneference - Article No. 851

Aalmi Maholiati Coneference

عالمی ماحولیاتی کانفرس - تحریر نمبر 851

درجہ حرارت میں کمی کا ہدف پورا کر پائے گی

بدھ 30 دسمبر 2015

Mariette Roux
پیرس میں ہونیوالی موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کانفرس میں دنیابھرکے185ممالک کے وزراء نے شرکت کی اور اس بات پراتفاق کیاہے کہ خوفناک موسمی تبدیلی کیخلاف مشترکہ جنگ لڑیں گے اب ایسا ممکن بھی دکھائی دیتا ہے۔اس بات میں کوئی شبہ نہیں رہاکہ گرین ہاؤس گیسزکے اخراج کوروکنے کیلئے یہ معاہدہ طے پاچکاہے۔
صنعتی سطح پردرجہ حرارت کو دو ڈگری سیلسیاس(3.6ڈگری فارن ہائٹ) تک محدود کیاجائیگا۔پہلے مرحلے میں اسے1.5ڈگری سینٹی گریڈتک لایا جائیگا کیونکہ گرین ہاؤسزگیسز کے اخراج سے ایک سینٹی گریڈدرجہ حرارت پہلے ہی بڑھ چکاہے۔گیسوں کااخراج روکنے کیلئے 185 ممالک نے پیرس ماحولیاتی کانفرس میں دستخط کردئیے ہیں اور اس کوعملی شکل دے دی ہے۔

(جاری ہے)

موسم تبدیلیوں سے دنیاکو3ڈگری سینٹی گریڈبڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے بچاناہے۔

ایساصرف انتہائی سخت اقدامات سے ہی ممکن ہوسکتاہے جس کیلئے رکن ممالک کوبروقت سرگرمیوں کیلئے ان کی حوصلہ افزائی ضروری ہے جس سے2سینٹی گریڈدرجہ حرارت میں کمی کاہدف ممکن ہو سکے گا۔ یہ اس بات کویقینی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ رکن ممالک کی سرگرمیوں کوزیادہ سے زیادہ مربوط بنایاجائے تاکہ دو ڈگری سینٹی گریڈیااس سے کم ہدف حاصل کیاجاسکے۔ڈبلیوڈبلیوایف کی ماہرتسنیم ایسوپ کاکہناہے کہ2سینٹی گریڈ درجہ حرارت کمی سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات،خطرات،طوفانوں،قحط سالی،سمندری طوفان،پانی کیلئے جنگیں،بھاری نقل مکانی اور بیماریوں کے پھیلاؤپرقابوپایاجاسکے گا۔

یہ اس بات کااعتراف بھی ہے کہ حالیہ عالمی ماحولیات کانفرس کامعاہدہ کافی نہیں ہے۔اس کے نتیجے میں2سینٹی گریڈ تک کمی لاناانتہائی مشکل ہے۔31صفحات کی دستاویزات کے مختلف سیکشنوں پر اختلاف کی صورت میں مشترکہ اقدامات سے ایک ”ریچینگ اپ”مینکنزم قائم کیاجاسکتاہے۔
ایک تاثریہ بھی پایاجاتاہے کہ گیسوں کارضا کارانہ اخراج اوراس کیلئے کاربن ڈائی آکسائیڈمیں کمی کیلئے کوئی سنگل ٹائم ٹیبل حاصل نہیں کیاجاسکاجسے سائنس دانوں نیایک حائل رکاوٹ قراردیاہے۔
کلائیمٹ ایکشن ٹریکرکے مطابق موسمیاتی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کیلئے ایک ٹول کوفروغ دیاگیاہے۔زیادہ ترممالک کے وعدے”ناکافی“ دکھائی دیتے ہیں اور لگ بھگ تمام حکومتوں کو2015یا2030ء میں اپنی سرگرمیوں کوبڑھانے کی سخت ضرورت ہے۔
پہلاقدم 2018ء میں اس کے آغاز کیلئے اقدامات کرناہوں گے،تاکہ دوسال پہلے معاہدے پر عمل درآمدشروع ہو سکے تاکہ تمام ممالک کی مجموعی فوسل ایندھن جیساکہ تیل،کوئلہ اور گیس پرپابندی لگا کرنئے قابل عمل ذرائع سولراور ہواسے توانائی کو فروغ دیاجائے۔
ان نکات کو2020ء کے اگلے راؤنڈ میں رکن ممالک کے ساتھ بروئے عمل لایاجائیگا۔کرسچن ایڈ کے محمداڈو کاکہناہے کہ یہ ایک نمایاں کوششوں کوتیزکرنے پرزوردیاجائیگا جوغربت کے موضوع پرکام کررہی ہیں۔کئی عالمی مشاہدہ کاروں کوتحفظات ہیں کہ جب تک 2020ء کے ابتدائی معاہدے کاجلددوبارہ جائزہ نہیں لیاجاتا3سینٹی گریڈکمی کوکم ازکم اگلے سال دس کیلئے الک کردینا چاہئے۔

ڈبلیوڈبلیوایف کی تجریہ کارتسنیم ایسوپ کاکہناہے کہ چندممالک نے2025ء اگلے دس سالوں کیلئے اپنا ہدف مقرر کر رکھا ہے جبکہ دیگر نے 2030ء 15سال کیلئے ہدف مقررکیاہے۔اس صورتحال میں اس چیزکومشکل سے مشکل تر بنا دیا گیا ہے کہ ہمیں مطلوبہ سطح پرٹمپریچرکم کرنے میں مددمل سکے۔جونہی اس معاہدے پر عمل درآمدشروع ہوگا،تمام رکن ممالک کو اپنی کاوشوں کا اگلے پانچ سالوں کے دوران جائزہ لیناہوگا۔
یہ جائزہ پانچ سالوں کے بعد 2023ء میں لیا جائیگا۔ یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیرممالک دونوں کواپنے مقاصد الگ الگ طے کرنے چاہئیں۔
مثال کے طور پرامریکہ خالصتاََمعاہدے کی ذمہ داری رضاکارانہ طور پرپوری کرنا چاہتاہے اور اس معاہدے کی کانگریس سے منظوری لیناچاہتا ہے۔اس کے برعکس چین،بھارت اور دیگرترقی پذیرممالک نے اربوں ڈالرکی فنانسنگ کی یقین دہانی پر انتہائی کم قیمت فوسل ایندھن کے بجائے نئے انتہائی مہنگے سولراور ہواکے ذرائع کواستعمال کرنے کاعندیہ دیا ہے۔

Browse More Healthart