Kamar Aur Gardan K Dard Se Kaisay Bachain - Article No. 1001

Kamar Aur Gardan K Dard Se Kaisay Bachain

کمر اور گردن کے درد سے کیسے بچیں - تحریر نمبر 1001

ہمارے ہاں درس وتدریس کے شعبے کوبہت اہمیت حاصل ہے خاص طور پر خواتین کے لیے۔ معاشرے میں اساتذہ کو بہت عزت دی جاتی ہے اور کہاجاتا ہے کہ ان کے ہاتھوں میں بچوں اور قدم کامستقبل ہوتا ہے۔

جمعرات 1 ستمبر 2016

ڈاکٹر وردہ اجمل :
ہمارے ہاں درس وتدریس کے شعبے کوبہت اہمیت حاصل ہے خاص طور پر خواتین کے لیے۔ معاشرے میں اساتذہ کو بہت عزت دی جاتی ہے اور کہاجاتا ہے کہ ان کے ہاتھوں میں بچوں اور قدم کامستقبل ہوتا ہے۔
بہت سی خواتین اساتذہ معالجین کے پاس گردن، کمر اور جوڑوں کے درد کی شکایت لے کرآتی ہیں۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ تقریباََ 90فیصد خواتین اساتذہ ان تکلیف سے دوچار ہوتی ہیں۔

ہانگ کانگ کی گئی ایک تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ 3 سے69 فیصد خواتین اساتذہ کو گردن کادرد ہوتا ہے۔ چین کی ایک تحقیق سے بھی ثابت ہوا ہے کہ 6ء 45 فیصد خواتین اساتذہ کی کمر میں درد ہوتا ہے، جب کہ برازیل کی تحقیق کے مطابق 41فیصد کواتین اساتذہ کمر اور گردن کی تکلیف میں مبتلا ہوتی ہیں۔

(جاری ہے)

میری (مصنفہ) تحقیق کے مطابق 10 فیصد خواتین اساتذہ میں گردن کا درد، ۵ء۲۹ فیصد میں کمرکا درد ۶ء۱۳ فیصد میں ٹانگوں کا درد اور 49 فیصد میں گردن ، کمراور ٹانگوں تینوں قسم کا دردپایاجاتا ہے۔

ان تکلیف میں نہ صرف درد، بلکہ پٹھوں کا کھچاؤ ، سوجن اور جوڑوں کا درد بھی شامل ہے۔
تحقیق کے مطابق خواتین اساتذہ کا گردن جھکا کرکاپیاں چیک کرنا، بلیک بورڈ زیادہ استعمال کرنا، زیادہ دیرتک کھڑے رہنا اور ذہنی دباؤ ان تکلیف کی اہم وجوہ ہیں، جوان کی زندگی کو بری طرح متاثر کررہی ہیں۔ ان تکلیف کے اثرات نہ صرف جوڑوں ، بلکہ خواتین اساتذہ کے پورے جسم پر پڑتے ہیں۔
عمر اور وقت کے ساتھ یہ تکلیف بڑھتی چلی جاتی ہیں اور نوبت جسمانی معذوری تک پہنچ سکتی ہے۔ اگر جسم پر پڑتے ہوئے اثرات کوزیر غور لایاجائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کچھ درد کمر کے مہروں کی خرابیوں سے منسلک بھی ہوتے ہیں، جن میں گردن یاکمر کادرد شامل ہے، جو بڑھتے بڑھتے بازوؤں اور ٹانگوں تک پہنچ جاتا ہے اور جسم سن ہونے لگتا ہے ۔ اس درد کابروقت علاج اور احتیاط بہت ضروری ہے۔

ضرورت اس امرکی ہے کہ خواتین اساتذہ کوان تکلیف کے بارے میں آگاہ کیاجائے، تاکہ وہ ان سے بچ سکیں۔ ان بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ آج کل کی طرززندگی ہے ۔ اس کے علاوہ ورزش کے لیے وقت نہ نکالنا، اساتذہ کے لیے موزوں فرنیچر کادستیاب نہ ہونا اور معاشی پریشانیاں بھی شامل ہیں۔
ان بیماریوں سے بچنے کے لیے جوکوشش کواتین اساتذہ خود کرسکتی ہیں، وہ کوئی اور نہیں کرسکتا ۔
وہ اپنے لیے وقت نکال کران تکلیف کو کم کرسکتی ہیں اور اپنی زندگی کے معیار کوبہتر بناسکتی ہیں۔
اسکول کی انتظامیہ خواتین اساتذہ پر کام کا دباؤ زیادہ نہ ڈالے، کیوں کہ وہ ذہنی طور پر جتنی مطمئن ہوں گی، اپنے فرائض اتنی ہی اچھی طرح نبھاسکیں گی۔
خواتین اساتذہ کے بیٹھنے کے لیے کلاس میں رکھی ہوئی میزکی اونچائی نہ بہت زیادہ ہواور نہ بہت کم۔

انھیں چاہیے کہ روزانہ ہلکی پھلکی ورزش اور چہل قدمی کواپنا معمول بنائیں۔
خواتین اساتذہ اپنی غذاکاخیال رکھیں۔ غذا میں کیلسئیم کی مقدار بڑھائیں۔
وہ دن میں تقریباََ دس سے بارہ گلاس پانی ضرور پییں۔
اگر خواتین اساتذہ کاکام دیر تک کھڑے ہونے کا ہے توانھیں چاہیے کہ وہ ہرگھنٹے کے بعد تین چار منٹ کے لیے کرسی پربیٹھ جائیں اور لمبے سانس لیں۔

خواتین اساتذہ کو آرام دہ جوتے پہننے چاہییں، کیوں کہ بغیر ایڑی کے جوتے پاؤں کے دردکا باعث بنتے ہیں۔ جب کہ بہت اونچی ایڑی کے جوتے پہننے سے گھٹنے اور کمر متاثر ہوتے ہیں۔
پٹھوں اور جوڑوں کا درد بڑھاپے کی تکلیف ہیں، مگر بعض اوقات کام کی زیادتی اور بے پروائی کی وجہ سے یہ وقت سے پہلے بھی لاحق ہوسکتے ہیں اور وقت کے ساتھ بڑھ سکتے ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ صحت سے بھرپور زندگی کے لیے مصروفیات میں سے کچھ وقت نکالا جائے اوربیماری آنے کی صورت میں معالج سے بروقت رجوع کیاجائے، تاکہ تکلیف بڑھنے کے بجائے کم ہوسکیں۔

Browse More Backache