Maholiyati Aloodgi - Article No. 1078

Maholiyati Aloodgi

ماحولیاتی آلودگی کا بڑا سبب ذہنی آلودگی - تحریر نمبر 1078

آج دنیا میں ترقی انسانی عظمتوں اور رفعتوں کے گن گاتی نظر آتی ہے۔ آج کا دور ایک طرف تو سائنسی ترقی کی غمازی کرتا ہے تو دوسری طرف انسانیت کی بنیادی اقدار کی تنزلی کا شکار نظر آتا ہے ایک طرف یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سائنسی ایجادات نے انسانی زندگی کوبہت بلند اور طرز زندگی کو ماضی کے مقابلے میں بہت آسان بنا دیا ہے

بدھ 22 مارچ 2017

آج دنیا میں ترقی انسانی عظمتوں اور رفعتوں کے گن گاتی نظر آتی ہے۔ آج کا دور ایک طرف تو سائنسی ترقی کی غمازی کرتا ہے تو دوسری طرف انسانیت کی بنیادی اقدار کی تنزلی کا شکار نظر آتا ہے ایک طرف یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سائنسی ایجادات نے انسانی زندگی کوبہت بلند اور طرز زندگی کو ماضی کے مقابلے میں بہت آسان بنا دیا ہے تو دوسری جانب انسانی زندگی کے لیے اتنی ہی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔
اس بر سر پیکار ترقی اور شعبہ ہائے زندگی میں ہونے والی کیمیائی طبعی، حیاتیاتی اور نباتاتی تبدیلیوں نے نسل انسانی کو منزلیں عطا کی ہیں لیکن اگر ہوش و خرد کے ساتھ اس عنوان پر غور کیا جائے تو انسانی ترقی نے اس کے اپنے ہی ماحول پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔ترقی کا مفہوم انسانی سوچ پر انحصارکرتا ہے اگر انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ جنگلات کاٹ کروسائل میں اضافہ کر رہا ہے ، صنعت کار ی کو فروغ دے کر صحت زندگی کو دوام بخش رہا ہے یا پھر غذائی اجناس اور فصلوں پر بے تحاشا کھادوں اور زہریلی کیڑے مار ادویات کا استعمال کر کے آنے والی نسلوں کے لیے خوراک کا حصول یقینی بنا رہا ہے تو پھر لفظ ترقی کی تعریف تو کرنا ہو گی لیکن یہ بھی سوچنا ہو گا کہ اپنے وسائل کو بڑھانے کے چکر میں کیا کیا کھو رہے ہیں۔

(جاری ہے)

ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے والے سر فہرست عوامل میں جنگلات کا کٹاوٴ ، شہروں کا بے جا پھیلاوٴ اور زرعی ادویات کا کثرت سے استعمال ہے ان اسباب کے تحت ماحولیاتی آلودگی کے نتائج گلوبل وارمنگ اور مہلک بیماریوں کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں ۔جنگلات کی کٹائی سے کائنات کے قدرتی حسن چرند پرند کا قدرتی توازن بگڑ رہا ہے اور ان کے قدرتی مسکن کو تباہ کیا جا رہا ہے ، حالانکہ یہ چرند پرند انتہائی فصل دوست کاکردار اداکرتے ہیں ۔
پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے زرعی ادویات کے حیران کن نتائج اپنی جگہ مگر ان ادویات کے بے دریغ استعمال سے پیدا ہونے والے مسائل انسانی صحت کے لیے نئے بحران کو جنم دے رہے ہیں۔اسی طرح صنعتوں کے نا مناسب فضلات کے اخراج سے پانی میں شامل ہونے والی دھاتیں زمین کو آلودہ کر رہی ہیں۔ جن میں لیڈ، مرکری، کیڈیم سر فہرست ہیں۔ فصلوں میں سیوریج کے پانی کا استعمال تعفن پھیلا رہا ہے یہ پانی جب پھلوں اور سبزیوں کا حصہ بنتا ہے تو انسانی صحت پر تباہ کن مضر اثرات مرتب کرتا ہے۔

سائنس کی ترقی نے بہت سی آلودگیوں کو جنم دیا ہے جس میں زمینی آلودگی، فضائی آلودگی ، آبی آلودگی اور شور کی آلودگی شامل ہیں لیکن ان تمام آلودگیوں کا سبب ایک اور آلودگی ہے جس کو ذہنی آلودگی کہا جاتا ہے۔گوکہ اس کو ماپنے کا کوئی حسابی طریقہ میسر ہے نہ ہی شماریاتی۔لیکن انسان کی اس آلودگی نے انسانیت کو جتنا نقصان پہنچایا ہے وہ ناقابل تلافی ہے اس کا اندازہ کسی بھی سائنسی یا حسابی پیمانے میں نہیں لگا یا جا سکتا کیونکہ آلودگیوں میں شامل تمام عوامل انسانی عمل کے محتاج ہیں۔
جو کچھ بھی وجود میں آیا ہے وہ پہلے انسانی خیال کے دریچوں سے گزرا ہے آج ہم جن مسائل سے دوچار ہیں وہ انسان کی خودغرضی مفادات اور خود پر ست سوچ کا نتیجہ ہے۔ اگر آج ہم تمام آلودگیوں کے حل تجویز بھی کر لیں تو یہ اس وقت تک حقیقت کے سانچے میں نہیں ڈھلیں گے جب تک ذہنی آلودگی کے پردے چاک نہیں ہوتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے ماحول کے ساتھ ساتھ ذہنی آلودگی کے خاتمے میں اپنا کردار اد کریں اور ماحول سوزی میں انسانی کردار پر توجہ دیں اور اجتمائی طور پر اس امر کو یقینی بنا یا جائے کہ انسان سازی اس طرح عمل میں لائی جائے کہ انسان نوع انسان کا حامی نظر آئے تاکہ آدمیت سے انسانیت کا سفرکامیابی مکمل ہو سکے۔
ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ اس وقت تک ناممکن ہے جب تک ذہنی آلودگی کو جڑ سے نہ اکھاڑ پھینکا جائے۔ انسانی سوچ کو اس نکتے پر لانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے انفرادی فائدے کے لیے کوئی ایسا عمل نہ کرے جس سے دوسرے انسان کو نقصان ہو بلکہ اجتمائی فائدے کو ترجیح دے جس دن ایسا ہو گیا انشا اللہ ہمار معاشرہ تمام آلودگیوں سے پاک ہو جائے گا۔

Browse More Healthart