Maholiyati Aloodgi - Article No. 726

Maholiyati Aloodgi

ماحولیاتی آلودگی - تحریر نمبر 726

ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے والے سرفہرست عوامل میں جنگلات کا کٹاؤ، صنعتکاری کا فروغ، شہروں کا بے جا پھیلاؤ اور زرعی ادویات کاکثرت سے استعمال ہے۔اس ماحولیاتی آلودگی کے نتائج گلوبل وارمنگ اور مہلک بیماریوں کی صورت میں پیش آرہے ہیں

جمعرات 28 مئی 2015

ڈاکٹرغضنفرعلی خاں ۔یونیورسٹی آف ایگری کلچر فیصل آباد:
آج گردوپیش میں موجود تمام ترقی انسانی عظمتوں اور رفعتوں کے گن گاتی نظر آتی ہے۔یہ دورایک طرف تو سائنسی ترقی کی غماز ی کرتا ہے تو دوسری طرف انسانیت کی بنیادی اقدار کی تنزلی کا شکار نظر آتاہے ایک طرف یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سائنسی ایجادات نے انسا نی زندگی کو بہت بلند او رطرز زندگی کو ماضی کے مقابلے میں بہت آسان بنادیا ہے۔
اور دوسری جانب انسانی زندگی کیلئے اتنی ہی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ اس برسر پیکار ترقی اور شعبہ ہائے زندگی میں ہونے والی کیمیائی ،طبعی، حیاتیاتی اور نباتاتی تبدیلیوں نے نسل انسانی کو نئی جہتیں عطا کی ہیں لیکن اگر ہو ش و خرد کے ساتھ اس عنوان پر غور کیا جائے تواس انسانی ترقی نے اس کے اپنے ہی ماحول پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔

(جاری ہے)

اب ترقی کا مفہوم انسانی سوچ پر منحصر ہے اگر انسان یہ سمجھتاہے کہ وہ جنگلات کو کاٹ کر وسائل میں اضافہ کررہا ہے، صنعتکاری کو فروغ دے کر صحت انسانی کو دوام بخش رہا ہے یا پھر غذائی اجناس اور فصلوں پر بے مہار کھادوں اور کیڑے مار ادویات کا استعمال کرکے آنے والی نسلوں کو خوراک کا حصول یقینی بنارہا ہے تو پھر اس لفظ ترقی کی تعریفِ نو کرنا ہوگی۔

اس بات کو سوچنا ہوگا کہ ہم اپنے وسائل کو بڑھانے کے چکر میں کیا کیا کھورہے ہیں۔ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے والے سرفہرست عوامل میں جنگلات کا کٹاؤ، صنعتکاری کا فروغ، شہروں کا بے جا پھیلاؤ اور زرعی ادویات کاکثرت سے استعمال ہے۔اس ماحولیاتی آلودگی کے نتائج گلوبل وارمنگ اور مہلک بیماریوں کی صورت میں پیش آرہے ہیں۔ جنگلا ت کی کٹائی سے چرند پرند کا قدرتی توازن خراب ہورہا ہے اور ان کے قدرتی مسکن کو تباہ کیا جارہا ہے اور مزید بہت سے حیاتیاتی اور طبی مسائل ابھرر ہے ہیں کیونکہ ہم ایک زرعی ملک سمجھے جاتے ہیں اس لیے میں اس سے متعلقہ کچھ حقائق پیش خدمت کررہا ہوں کہ زرعی ادویات کے حیران کن نتائج اپنی جگہ مگر ان سے پیدا ہونے والے مسائل بھی ایک نئے بحران کو جنم دے رہے ہیں۔
اسی طرح صنعتوں کے نامناسب اخراج فضلات کی وجہ سے پانی میں شامل ہونے والی مختلف دھاتیں جن میں لیڈ، مرکری، کیڈمیم اور سلینئم سرفہرست ہیں زمین اور فضا کو آلودہ کررہے ہیں۔فصلوں میں سیوریج کے پانی کا استعمال تعفن پھیلارہا یہ اور یہی اجزا ء جب پانی،فضا،پھلوں اور سبزیوں کا حصہ بنتے ہیں تو انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب کرتے ہیں۔یہ دھاتیں انسانی جسم کی قوت مدافعت میں کمی واقع کرتی ہیں اور معدے جگر، گردوں اور آنتوں کو بری طرح متاثر کرتی ہیں۔
عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بھی ماحولیاتی آلودگی اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو گردانا جاتا ہے۔اس نام نہاد ترقی نے بہت سی آلودگیوں کو جنم دیا جس میں زمینی آلودگی، فضائی آلودگی،آبی آلودگی اور شور کی آلودگی شامل ہیں۔ لیکن ان تمام آلودگیوں کا منبع و ماویٰ ایک اور آلودگی ہے جس کو ذہنی آلودگی کہا جاتا ہے گو کہ اس کو ماپنے کا کوئی حسابی طریقہ میسر ہے نا شماریاتی لیکن انسان کی اس آلودگی نے جتنا انسانیت کو نقصان پہنچایا اس کا خمیازہ شاید کسی بھی سائنسی ،سماجی یا حسابی پیمانے سے نہیں لگایاجاسکتا کیونکہ آلودگیوں میں شامل تمام عوامل انسانی عمل کے محتاج ہیں کیونکہ جو کچھ بھی وجود میں آیا و ہ پہلے انسانی خیال کی دریچوں سے گزرا ہے۔
آج جن مسائل سے کہیں نہ کہیں ہم دوچار ہیں وہ انسانوں کی خود غرضیوں،مفادات اور خود پرست سوچوں کا نتیجہ ہے ۔آج اگر ہم ان تمام آلودگیوں کے حل تجویز کربھی لیں تو یہ اس وقت تک حقیقت کے سانچے میں نہیں ڈھلیں گے جب تک ذہنی آلودگی کے پردے چاک نہ ہوں۔ موجودہ ماحول میں واقع ہونے والی تبدیلیوں اور ان کے نتائج سے آج کا انسان بخوبی واقف ہے مگر اس کے اندر موجود دوسرا انسان اسے اس علم پر یقین اور عمل پر قادر نہیں ہونے دیتا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے ماحول کے ساتھ ساتھ ذہنی آلودگی کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں اور ماحول سازی میں پنہاں انسانی کردارپر توجہ دیں۔اگر ہم ایسا نہ کرسکے اورغفلت کا مظاہرہ کرتے رہے تو ہمار ا مستقبل سنگین نتائج کا حامل ہوگا۔ اجتماعی طور پر اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے کہ انسان سازی اس طرح عمل میں لائی جائے کہ انسان نوع انسان کا حامی و مخلص نظر آئے اور آدمیت سے انسانیت تک کا سفر طے ہوسکے۔
ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ اس وقت تک ناممکن ہے جب تک کہ ذہنی آلودگی کو جڑ سے نہ اکھاڑا گیا۔انسانی سوچ کو اس نہج پہ لانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی انفرادی فائدے کو ذہن سے نکال کر اجتماعی فائدے کو ترجیح دے اور کوئی ایسا قدم نہ اٹھائے جس سے دوسروں کا نقصان ہو۔

Browse More Healthart