Paraganda Zehni Kia Hai - Article No. 1102

Paraganda Zehni Kia Hai

پراگندہ ذہنی کیا ہے؟ - تحریر نمبر 1102

پراگندہ ذہنی کا مطلب شدید دماغی خلل ہے،جس میں دماغ کا انتشار اور پچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔دماغی انتشار کی بنا پر مریض کو دوسروں کی بات سمجھنے میں اور اپنی بات سمجھانے میں دشواری پیش آنے لگتی ہے۔وہ صحیح طور پر اپنی ذات اور جذبات کا اظہار نہیں کرپاتا۔

جمعہ 9 جون 2017

پروفیسر ڈاکٹر فواد قیصر:
پراگندہ ذہنی کا مطلب شدید دماغی خلل ہے،جس میں دماغ کا انتشار اور پچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔دماغی انتشار کی بنا پر مریض کو دوسروں کی بات سمجھنے میں اور اپنی بات سمجھانے میں دشواری پیش آنے لگتی ہے۔وہ صحیح طور پر اپنی ذات اور جذبات کا اظہار نہیں کرپاتا۔
پراگندہ ذہنی کے بارے میں ایک غلط تصور عام ہے کہ اس کے مریض کی شخصیت دو حصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔
بعض اوقات مریض خود کو دو اور کبھی کبھار تین افراد بھی سمجھ بیٹھتا ہے۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم پراگندہ ذہنی کا صحیح مفہوم نہیں سمجھتے۔افسانہ طرازی کرنے والے یا ٹیلے وژن کے ٹاک شو میں حصہ لینے والے اس کے نت نئے مطالب و مفاہیم اخذ کرتے ہیں۔وہ دماغی انتشار جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے،انتہائی پچیدہ ہے۔

(جاری ہے)

اس میں مریض واہموں اور فریب خیال میں گرفتار ہوجاتا ہے۔

اس کے علاوہ اسے مغالطے ہونے لگتے ہیں،نامعلوم آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں اور خیالات کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔وہ دوسروں سے لاتعلق ہوجاتا ہے،اس کی ہمت جواب سے جاتی ہے اور وہ سست پڑ جاتا ہے،جس سے اس کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔مریض میں یہ منفی رویّہ پیدا ہوجاتا ہے کہ اس کی قوتِ ارادی میں کمی ہوگئی ہے۔وہ کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرتا ہے ،لیکن پھر خود ہی اسے ملتوی کردیتا ہے۔
یہ علامات صرف ادویہ سے ختم نہیں ہوتیں۔مریض ذہنی طور پر اتنا مفلوج ہوجاتا ہے کہ کسی کام کا لائق نہیں رہتا۔
عام طور پر سب اس پر متفق ہیں کہ پراگندہ ذہنی کسی ایک وجہ سے نہیں،بلکہ کئی وجوہ سے ہوتی ہے۔دنیا کی مجموعی آبادی کا ایک فی صد اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی اس میں مبتلا ہوتا ہے۔پراگندہ مورثی طور پر بھی ہو جاتی ہے ۔اگر خاندان کے کسی فر د کو کوئی بیماری ہو تو اس کا امکان ہے کہ دوسرے بھی اس میں مبتلا ہوجائیں گے۔
کچھ افراد کو یہ بیماری محض بے احتیاطی کی بنا پر لگ جاتی ہے،یعنی وہ شوقیہ بھنگ پینے لگتے ہیں یا کوکین اور ایمفیٹا من جیسی ادویہ کھانے لگتے ہیں(ایمفیٹامن نزلے،بخار،افسردگی، اور مٹاپے میں کھائی جاتی ہے،لیکن اس کے منفی اور پہلوئی اثرات زیادہ ہیں)۔یہ بیماری ایسے افراد کو بھی ہوجاتی ہے،جو ہیجان خیز،آزردہ یا دہشت ناک یادوں میں گم رہتے ہیں۔
ایسے افراد جو اپنے بارے میں زیادہ سوچنے لگتے ہیں،خود کو برباد کربیٹھتے ہیں۔
پراگندہ ذہنی کی بنا پر کچھ افراد کا رویہ جارحانہ ہوجاتا ہے اور وہ تشدد پر اتر آتے ہیں۔وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا دشوار نہیں ہے۔وہ ارتکاز توجہ کے لیے تمباکو نوشی یا زیادہ کافی پینے کی طرف مائل ہوجاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان سے فہم وادراک میں اضافہ ہو جائے گا۔

مذکورہ اشیا پر اگندہ ذہنی کا باعث بن جاتی یااس میں اضافہ کردیتی ہیں۔تمباکونوشی سے واہموں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور کیفین والی اشیا کی زیادتی سے اضطراب و تشویش بڑھ جاتی ہے۔یہ دونوں بڑھ کر خللِ دماغ میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
چناں چہ مریض عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگتا ہے ،کیوں کہ حد سے زیادہ نکوٹین اور کیفین سے اس کی ذہنی کیفیت بگڑتی چلی کاتی ہے۔
کچھ افراد کو بے معنی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔یہ ان کے دماغی بگاڑ کی بنا پر ہوتا ہے۔جب وہم بڑھ جاتا ہے تو مریض کو شکوک وشبہات گھیر لیتے ہیں اور اسے ایسا محسوس ہوتا ہے،جیسے ہر شخص اس کے خلاف سازش میں مصروف ہے۔ایسے افراد جو مریض کے قریب ہوتے ہیں،وہ بعض اوقات مریض کے تشدد کا نشانہ بھی بن جاتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ مریض کا رویّہ کسی بھی موقع پر جارحانہ ہوجاتا ہے۔
اور وہ تشدد پر اتر آتا ہے۔لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے،اس لیے کہ مریض اپنی ذات کے خول میں بند رہتا ہے۔وہ ہر وقت اپنے ہی بارے میں سوچتا رہتا ہے۔منشیات استعمال کرنے والوں یا غلط ادویہ کھانے والوں کی نسبت،وہ مریض جو پراگندہ ذہنی کا شکار ہوتے ہیں،تشدد کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں۔پراگندہ ذہنی کے بارے میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا یہ ایک ہی کیفیت ہے یا بیک وقت کئی کیفیات ،جومریض پر طاری ہوجاتی ہیں؟حقیقت یہ ہے کہ مریض پر ایک وقت میں ایک ہی کیفیت طاری ہوتی ہے۔

کچھ معاشرے ایسے ہیں،جہاں پراگندہ ذہنی کو مرض نہیں سمجھا جاتا۔مریض اگر کسی غیر فطری علامت کا اظہار کرتا ہے تو اسے ذہنی کج روی کا نام دیا جاتا ہے۔
واہمے اور شک وشبہے کے علاج کے لیے میڈیکل اسٹوروں پر ادویہ دستیاب ہوسکتی ہیں،مگر انہیں معالج سے پوچھے بغیر کھانے سے مریض کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔کئی کمپنیوں نے پراگندہ ذہنی کے لئے دوائیں تیار کرنا ہی چھوڑدی ہیں ،البتہ اس بیماری میں ایک خاص قسم کی تھراپی فائدہ پہنچاتی ہے،جس میں مریض کے فہم وادراک کو بڑھایا اور اس کے شعور کو بیدار کیا جاتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ابتدائی مرحلے ہی سے مرض کا پتا چلا کر اس کا علاج کیا جائے۔مریض کے رویے سے آگاہی حاصل کی جائے،پھر اس کا تجزیہ کیا جائے۔
اس مرض میں مریض کو تنہا نہ چھوڑا جائے،ورنہ وہ اپنی خیالی دنیا میں مگن رہے گا۔مریض کو اچھے اور مخلص رفیقوں میں رکھیں اور اس کو پیار محبت سے سمجھائیں کہ یہ لوگ تم سے محبت کرتے ہیں،ان کے ساتھ ہنسو،بولو اور باتیں کرو۔وہم،بے اعتباری اور دوسروں پر شک اسی وقت دور ہوسکتا ہے،جب مریض کوئی مفید مشغلہ اپنائے یا اچھے دوستوں میں وقت گزاری کرے۔

Browse More Depression