مالی سال 2009-10ء کیلئے 7 کھرب 22 ارب روپے سے زائد کے خسارے کا بجٹ پیش ، صوبوں سمیت کل اخراجات 28 کھرب 97 ارب چالیس کروڑ ، محصولات 21 کھرب 74 ارب 90 کروڑ ، سرکاری ملازمین کو تنخواہ کا پندرہ فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس دیاجائے گا ، نیٹ پنشن میں پندرہ فیصد اضافہ،نقل مکانی کرنے والوں کیلئے پچاس ارب ، آبی شعبے کیلئے 60 ارب ، بینظیر ٹریکٹر سکیم کے تحت چار ارب روپے مختص،سیلولر سروس فراہم کنندگان کیلئے ٹیکسز میں کمی ،سگریٹ پر عائد ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس میں اضافہ، بینکنگ اور انشورنس سمیت متعدد شعبوں کی فیس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد، تجارتی اشیاء کی درآمد پر ود ہولڈنگ ٹیکس اور جائیداد پر کیپٹل ویلیو ٹیکس کی شرح دو سے بڑھا کرچار فیصد کردی گئی ، نقل مکانی کرنے والوں کی مدد کیلئے دس لاکھ روپے سے زائد آمدنی والے افراد پرپانچ فیصد ٹیکس ایک سال کیلئے عائد، غیر پیداواری سبسڈیز ختم ،آٹو موبائل تیارکنندگان کیلئے ایکسائز ڈیوٹی میں 5 فیصد کمی ،ادویات اور تشخیص میں استعمال ہونے والی 35 خام اشیاء پر امپورٹ ڈیوٹی نافذ

ہفتہ 13 جون 2009 18:03

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔13جون۔2009ء) مالی سال 2009-10ء کیلئے 7 کھرب 22 ارب روپے سے زائد کے خسارے کا بجٹ پیش کردیا گیا ہے ، صوبوں سمیت کل اخراجات کا تخمینہ 28 کھرب 97 ارب چالیس کروڑ ، جبکہ محصولات کا تخمینہ 21 کھرب 74 ارب 90 کروڑ روپے لگایا گیا ہے ، یکم جولائی 2009ء سے سرکاری ملازمین کو تنخواہ کا پندرہ فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس دیاجائے گا ، ریٹائرڈ ملازمین کیلئے یکم جولائی 2009ء سے نیٹ پنشن میں پندرہ فیصد اضافہ کردیا گیا ہے ۔

مرد ملازمین کیلئے ٹیکس سے مستثنیٰ آمدنی کی حد بڑھا کر دو لاکھ اور خواتین ملازمین کیلئے 2 لاکھ 60 ہزار کردی گئی ہے، بزرگ شہریوں کی آمدن ساڑھے سات لاکھ روپے ہونے کی صورت میں ٹیکس میں پچاس فیصد رعایت حاصل ہوگی ، ملک کے مغربی حصوں میں تعینات مسلح افواج کے ارکان کے الاؤنس میں یکم جولائی 2009 سے ایک بنیادی تنخواہ کے برابر اضافہ کرنے کا اعلان جبکہ اضافے کا اِطلاق یکم جنوری 2010سے تمام مسلح افواج پر ہوگا۔

(جاری ہے)

نقل مکانی کرنے والوں کیلئے پچاس ارب روپے ، آبی شعبے کیلئے 60 ارب ، چھوٹے کاشتکاروں کیلئے بینظیر ٹریکٹر سکیم کے تحت چار ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ، سیمنٹ پرایکسائز ڈیوٹی میں 200 روپے فی ٹن کمی کردی گئی ہے ، سیلولر سروس فراہم کنندگان کیلئے 250 روپے فی سیٹ ریگولیٹری ڈیوٹی ختم اور کسٹم ڈیوٹی 500 سے کم کر کے 250 روپے کردی گئی ہے ، سم ایکٹیویشن چارجز 500 روپے سے کم کر کے 250 روپے جبکہ ایکسائز ڈیوٹی اکیس فیصد سے کم کر کے انیس فیصد کردی گئی ہے ، نیشنل ہائی وے اتھارٹی کیلئے مختص رقم 36 ارب سے بڑھا کر 40.2ارب اور پاکستان ریلوے کیلئے مختص رقم 6.6 ارب سے 12.7 ارب کردی گئی ہے ، بجلی کے شعبے کیلئے مختص فنڈ میں 100 فیصد اضافہ کر کے اسے 11.4 ارب کردیا گیا ہے ، سگریٹ پر عائد ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس میں اضافہ کردیا گیا ہے ، پٹرولیم مصنوعات پر ایکسائز ڈیوٹی کو کاربن سرچارج کی صورت میں نافذ کردیا گیا ہے ، اس طرح موجودہ پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی ختم ہو جائے گی ، بینکنگ سروسز پر وصول کی جانے والی فیس امپورٹ کارگو ہینڈلرزکی طرف سے وصول کی جانے والی فیس سٹاک بروکرز کی فیس ، انشورنس کمپنیز کی طرف سے وصول کی جانے والی فیس اور اشتہارات کیلئے الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے وصول کی جانے والی فیس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے ، تجارتی اشیاء کی درآمد پر عائد ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح دو سے بڑھا کرچار فیصد ، جائیداد پر کیپٹل ویلیو ٹیکس کی شرح دو سے بڑھا کرچار فیصد کردی گئی ہے ، نقل مکانی کرنے والوں کی مدد کیلئے دس لاکھ روپے سے زائد آمدنی والے افراد پرپانچ فیصد ٹیکس ایک سال کیلئے عائد کردیا گیا ہے ، جبکہ کارپوریٹ سیکٹر میں دس لاکھ سے زیادہ تنخواہ حاصل کرنے والوں کے بونسز پر 30 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے ، مالیاتی خسا ر ے کو مستحکم سطح پر رکھنے کے لیے غیر پیداواری سبسڈیز کو ختم کردیا گیا ہے ،آٹو موبائل تیارکنندگان اور اُن کے Industry Vendor صنعت کی معاونت کیلئے (CKD) پر ایکسائز ڈیوٹی میں 5 فیصد کمی کردی گئی ہے ادویات اور تشخیص میں استعمال ہونے والی 35 خام اشیاء پر امپورٹ ڈیوٹی نافذ کردی گئی ہے ،وزیر مملکت برائے خزانہ واقتصادی امور حنا ربانی کھر نے ہفتہ کو قومی اسمبلی میں مالی سال 2009-10 کا وفاقی بجٹ پیش کیا ،انہوں نے کہا کہ میں اللہ کی شکر گذار ہوں کہ مجھے پاکستان کی تاریخ میں اس باوقار ایوان کے سامنے بجٹ پیش کرنے والی پہلی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔

یہ یقینا پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے ایک اعزاز ہے ۔ ہماری پارٹی کو محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو پہلی خاتون وزیراعظم اور میڈم سپیکر آپ کو پاکستان کی قومی اسمبلی کی پہلی خاتون سپیکر منتخب کرنے کا منفرد اعزاز حاصل ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانے اور مساوی حقوق فراہم کرنا ہماری پارٹی کی جدوجہد کا اہم سنگِ میل ہے۔ ملک کے معاشی اور مالی معاملات کے انتظام کے لیے حکومت کی کوششوں کو ملک میں Security کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان آج نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن ملک ہے بلکہ ملک کے اندر عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ہمیں پہلے ہی 35 ارب ڈالر سے زیادہ کی معاشی قیمت چکانا پڑی ہے۔ اب ہمیں عسکریت پسندی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے بھاری اخراجات کا سامنا ہے۔ ہمیں عسکریت پسندی کے نتیجہ میں نقل مکانی کرنے والے اپنے تقریباً 25 لاکھ بھائیوں، بہنوں اور بچوں کی دوبارہ آبادکاری کے اخراجات پورے کرنے ہیں۔

عالمی برادری نے اس انسانی مقصد کے لیے اپنی مدد اور تعاون کا وعدہ کیا ہے۔ تاہم آپ کی حکومت اپنی ذمہ داری سے پوری طرح آگاہ ہے اور نقل مکانی کرنے والے باشندوں کے ریلیف ، دوبارہ آبادکاری(Rehabilitation)، تعمیر نو اور سیکورٹی کے لیے 2009-10 کے بجٹ میں 50 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ میں اس موقع پر فراخ دلانہ امداد دینے اور دہشت گردی کے خلاف ایک متحد قوم ہونے کا مظاہرہ کرنے پر پاکستانی عوام کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہوں۔

میں انتہائی فراخدلی کا مظاہرہ کرنے والے ہم وطنوں کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے اسلام کی حقیقی روح پر عمل کرتے ہوئے نقل مکانی کرنے والوں (IDPs)کے لیے اپنے گھروں اور دلوں کے دروازے کھول دیئے۔ انہوں نے کہاکہ ہماری مسلح افواج دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خلاف جنگ میں سب سے آگے ہیں۔ ہماری مغربی سرحد پر سب سے زیادہ غیر یقینی صورتحال ہے اور مسلح افواج اس سرحد پر سخت عسکریت پسندی کا سامنا کررہی ہیں۔

صدرِ پاکستان نے ملک کے مغربی حصوں میں تعینات مسلح افواج کے ارکان کے الاؤنس میں یکم جولائی 2009 سے ایک بنیادی تنخواہ کے برابر اضافہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ اس اضافے کا اِطلاق یکم جنوری 2010سے تمام مسلح افواج پر ہوگا۔ حکومت صدر مملکت کے اِس فیصلے کی مکمل حمایت کرتی ہے۔ قوم ہماری بہادر مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

اگرچہ کسی کی زندگی کو درپیش خطرات کے معاوضے کے طور پر رقم کی کوئی بھی حد کافی نہیں لیکن مجھے اُمید ہے کہ حکومت کی طرف سے یہ معمولی اقدام دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے جوانوں اور افسران کا حوصلہ بلند کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔ وفاقی وزیر مملکت برائے اقتصادی امور نے کہاکہ گزشتہ سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے حکومت نے معیشت کا تفصیلی جائزہ پیش کیا تھا جو ہمیں گزشتہ حکومت سے ورثے میں ملی۔

ہم نے واضح کیا تھا کہ ہماری معیشت مصنوعی ترقی کی بلند سطح کو قائم نہیں رکھ سکی۔ ہم نے کہا تھا کہ دیرپا ترقی صرف معیشت کے حقیقی شعبوں ، زراعت اور صنعت ، میں سرمایہ کاری کے ذریعے ہی ممکن ہے جو بدقسمتی سے ماضی میں نظرانداز کیے گئے۔ اِس کی بجائے انتہائی آسائشی درآمدات اور انتہائی کھپت کے ذریعے نمو میں اضافہ کیا گیا اور اِن کے لیے مالی وسائل بھی بیرونی قرضوں سے فراہم کئے گئے۔

کوئی تعجب نہیں کہ مالی خسارہ مجموعی قومی پیداوار GDPکے 7.6 فیصد تک پہنچ گیا، حساب جاریہ کا خسارہ کنٹرول سے باہر ہوگیا، زرمبادلہ کے ذخائر کم ہونا شروع ہو گئے اور سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی اور سب سے بڑھ کر افراط زر مسلسل بڑھنا شروع ہو گیا جو اکتوبر 2008ء میں 25 فیصد کی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا۔ اِن واقعات کے باعث معیشت متاثر ہوئی لیکن پاکستان کے عوام کہیں زیادہ متاثر ہوئے۔

یقینا یہ صورتحال ناقابل برداشت تھی۔ چنانچہ حکومت نے اس پر سماجی اور اقتصادی بحالی کا 9 نکاتی ایجنڈاتشکیل دیا۔ ہمارے ایجنڈے کا پہلا ستون معیشت کو مستحکم کرنا تھا۔ ہماری کوششوں کے نتیجہ میں 2008-09 کے مالیاتی خسارے میں 3.3 فیصد کمی ہو جائے گی۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جو مالی سال 2007-08 کے دوران 8.5 فیصد تھا مالی سال 2008-09 کے دوران کم ہوکر جی ڈی پی(GDP) کا 5.3 فیصد رہ گیا۔

میڈم سپیکر! اب یہ بات عالمی سطح پرتسلیم کی جاتی ہے کہ غربت کو کم کرنے کا بہترین نسخہ افراطِ زرکو کم کرنا ہے۔ آپ کی حکومت کی کوششوں کے نتیجہ میں افراط زر کی شرح جو 25 فیصد کی بلند سطح پر پہنچ گئی تھی مئی 2009 کو کم ہوکر 14.4 فیصد رہ گئی جو انشاء اللہ آئندہ مالی سال کے دوران مزید کم ہوکر سنگل ڈیجٹ تک آجائے گی۔ انہوں نے کہاکہ اگرچہ معیشت کا استحکام ضروری تھا لیکن اس کی قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔

سخت مالیاتی پالیسی اور سرکاری اخراجات کی سخت مینجمنٹ کے نتیجہ میں نجی شعبہ کی سرمائے تک رسائی پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور سرکاری شعبہ میں ترقیاتی پروگراموں(PSDP) کا حجم کم ہوگیا۔ استحکام کا سب سے بڑا اثر اقتصادی نموپر پڑا جو کم ہوکر 2فیصد رہ گئی۔ معیشت کے حجم میں کمی نے مصنوعات کی پیداوار میں اضافے کو بُری طرح متاثر کیا۔ تاہم زرعی شعبہ کے لیے ہماری پرائسنگ پالیسی نے مالی سال 2008-09 کے دوران اِس شعبہ کی نمو بڑھا کر 4.7 فیصد تک لے جانے میں مدد کی جو گزشتہ سال کے دوران 1.1 فیصد تھی۔

حکومت کو اس بات کا پورا احساس تھا کہ معیشت کے استحکام اور اُس کے حجم میں کمی کے غریب طبقہ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ 9 نکاتی ایجنڈے کے دوسرے ستون ”سماجی تحفظ“ کو قرار دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بینظیر اِنکم سپورٹ پروگرام (BISP)کے ذریعہ انتہائی غریب طبقہ کو ماہانہ ایک ہزار روپے دیئے۔ ہم نے اِس مالی سال کے دوران اس پروگرام کے لیے 34 ارب روپے مختص کئے۔

اور آئندہ مالی سال کے دوران اس پروگرام کے لیے 70 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی ہے تاکہ اِس کا دائرہ کار 50 لاکھ خاندانوں تک بڑھایا جاسکے ۔حنا ربانی کھر نے کہاکہ اب جبکہ ہم اِستحکام کی ایک خاص سطح حاصل کر چکے ہیں، انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ ہم معیشت کی نمو میں اضافے کے لیے اس کے پیداواری شعبوں زراعت اور صنعت پر توجہ دیں۔انہوں نے کہا کہ ہم اس بجٹ سے ایسی پالیسیوں کے اعلانات اور بجٹ اور قانون سازی کے حوالہ سے ایسے اقدامات کا آغاز تجویز کرتے ہیں جو ہماری معیشت کے ان دو پیداواری شعبوں کو زیادہ پیداوار کی راہ پر ڈال دیں گے۔

یہ بنیادی تبدیلی ملک کو ایسی پائیدار نمو کے حصول میں مدد دے گی جس کے نتیجہ میں غربت کم ہوگی۔ میڈم سپیکر! ہم ایسی شرح نمو چاہتے ہیں جو انصاف کے تقاضے پورے کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایسا معاشی استحکام چاہتے ہیں جو ہمارے عوام کی فلاح کا باعث بن سکے۔ ہماری حکومت عوام کی حکومت ہے اورعوام کی بہتری میں یقین رکھتی ہے۔ ہماری حکومت غریب طبقوں کی زندگی آسان بنانا چاہتی ہے۔

حناربانی کھر نے بتایا کہ حکومت ملکی امور کا انتظام کے تحت چلا رہی ہے جس کا اظہار اقتصادی اور سماجی بحالی کے 9 نکاتی ایجنڈے سے ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نو نکات میں میکرو اکنامک اِستحکام اور معیشت کے حقیقی شعبوں کی نمو، غریب اور مشکلات سے دوچار طبقوں کیلئے اقدامات ، زرعی پیداوار میں اضافہ اور زراعت میں ویلیو ایڈیشن ، صنعتوں کو بین الاقوامی سطح پر مسابقت کا اہل بنانا ، ترقی کیلئے سرمایہ ،سرکاری نجی شراکت داری کے ذریعے انفراسٹرکچر کی رکاوٹوں کو دور کرنا ، توانائی کی ترقی کا مربوط پروگرام ، 21ویں صدی کیلئے انسانی ترقی اور شفاف اور منصفانہ نظام کیلئے گورننس شامل ہیں ۔

وفاقی وزیر مملکت نے کہاکہ 2009-10 کا بجٹ 2مقاصد حاصل کرنے کیلئے تیار کیا گیا ہے ، عوام کی فلاح کے لیے استحکام اورانصاف پر مبنی Growth۔ میں یہاں اِستحکام کا مطلب واضح کرنا چاہوں گی۔ یقینا اِستحکام شہریوں، تنظیموں / اداروں اور حکومت کے لیے ایک اشارہ ہے کہ وہ خود کو اپنے وسائل کے اندر محدود رکھیں اور ہم بھی ایسا ہی چاہتے ہیں اور اگر مزید وسائل دستیاب ہوئے تو ہمیں اپنے عوام کے بہترین مفاد کے لیے اُنہیں استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

معقول Growth Rate حاصل کرنے کے لیے معاون اِقدام کے طور پر صوبوں سمیت کل اخراجات کا تخمینہ 2897.4 ارب روپے ہے۔ کُل محصولات کا تخمینہ 2174.9 ارب روپے ہے۔ 722.5 ارب روپے کا مجموعی مالی خسارہ مجموعی قومی پیداوار کا 4.9 فیصد ہوگا۔ یہ خسارہ 264.9 ارب روپے کے بیرونی قرضوں اور 457.6 ارب روپے کے ملکی قرضوں سے پورا کیا جائے گا۔ توقع ہے کہ پاکستان کو ٹوکیو(Tokyo) میں ہونے والی ڈونرز کانفرنس میں کئے گئے وعدوں سے اپنی مجموعی قومی پیداوار کے 1.2 فیصد کے مساوی بیرونی وسائل ملیں گے جو 178 ارب روپے ہیں۔

نقل مکانی کرنے والے(IDPs) افراد پر اخراجات کا تخمینہ مجموعی قومی پیداوار کا 0.3 فیصد یا 48 ارب روپے ہے۔ اِس طرح حقیقی خسارہ مجموعی قومی پیداوار کا 3.4 فیصد ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ وفاقی حکومت کے بنیادی بجٹ کے محصولات کا تخمینہ1377.5 ارب روپے ہے جبکہ جاری اخراجات کا تخمینہ 1699.19 ارب روپے ہے۔ صوبوں سمیت ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 421.9 ارب روپے کے نظرثانی شدہ تخمینہ کے مقابلے میں 783.1 ارب روپے ہے جو کہ 85 فیصد زیادہ ہے۔

اِس اضافے کی مثال نہیں ملتی۔ بجٹ 2009-10 میں قومی اقتصادی کونسل کے منظور کردہ سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام پی ایس ڈی پی(PSDP) کا تخمینہ 626 ارب روپے ہے جبکہ 2008-09 کے لیے نظرثانی شدہ تخمینہ 359 ارب روپے تھا۔ انہوں نے کہا کہ اُمید ہے کہ ترقیاتی کاموں کے لیے مختص فنڈز کے مکمل استعمالGrowth کے حصول میں مدد دے گا۔ میں اس موقع پر توجہ دلانا چاہوں گی کہ پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں GDP کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح سب سے کم ہے۔

ختم ہونے والے مالی سال میں ہم اپنی GDP کے صرف 9فیصد مساوی ٹیکس حاصل کر سکے ہیں۔ آئندہ مالی سال میں ہمیں کے تناسب سے ٹیکسوں میں 0.6 فیصد بہتری کی توقع ہے۔ مجھے یہ بات کہنے دیجئے کہ ہم نے بحیثیت قوم ٹیکس کلچر کو نہ اپنایا، اگر ٹیکس ادا کرنے کی سکت رکھنے والے ہر شہری نے ٹیکس نہ دیا تو پاکستان کبھی بھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکے گا۔ اس لیے ہم میں سے ہر ایک کو اِس عظیم ملک کے شہری کی حیثیت سے ٹیکس ادا کرنے کی اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ٹیکس پالیسی اور اِس کی انتظامیہ میں بنیادی اصلاحات لا رہی ہے لیکن کسی بھی کوشش کی کامیابی کا انحصار پوری قوم کے تعاون پر ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے ٹیکس بیس کو بڑھانا ہو گا، اور اِس حقیقت سے فرار ممکن نہیں ہے۔ وفاقی وزیر مملکت نے کہاکہ حکومت نے استحکام کے لیے باوقار جدوجہد کا عزم کیا تھا، مالی سال 2009-10 کے بجٹ میں ٹیکسوں اور ڈیوٹیز کے حوالہ سے ہمارے اقدامات یہ ہوں گے۔

موجودہ اقتصادی بحران کے پس منظر میں غریب اور اندیشوں کا شکار طبقہ کو تحفظ فراہم کرنا۔صنعت اور مصنوعات سازی خاص طور سے برآمدی صنعتوں کی بحالی موجودہ ٹیکس دہندگان پر بوجھ میں اضافے کی بجائے Tax Base میں توسیع ادائیگیوں کے توازن(BOP) کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے غیر ضروری درآمدات سے بچنا۔انہوں نے کہاکہ Tax Base میں توسیع کے اقدام کے طور پر ہماری خواہش تھی کہ صوبے اضافی خدمات سروسز کو سیلز ٹیکس کے دائرہ کار میں لائیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری یہ بھی خواہش تھی کہ صوبے غیر منقولہ جائیداد پر Capital Gains Tax کو مزید وسعت دینے کا آغاز ہوتا۔ لیکن صوبوں نے ان امور پر نیشنل فنانس کمیشن کے اجلاس میں بات چیت کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ صوبوں کی خواہش کے احترام میں مالی سال 2009-10 کے بجٹ میں مزید سروسز کو (Excise) کے دائرہ کار میں لانے کے لیے اقدامات کئے جائیں گے جبکہ Capital Value Tax بھی جاری رکھا جائے گا۔

NFC کے اجلاسوں میں صوبوں کے ساتھ کسی معاہدے پر اتفاق کے بعد سروسز پر Capital Value Tax اور ایکسائز بائی ٹیکسوں میں تبدیل کرنے پر غور کیا جائے گا۔وفاقی وزیر مملکت نے کہاکہ معیشت کے استحکام اور بین الاقوامی قرضوں کی واپسی کے سلسلہ میں درپیش فوری خطرات پر خود تیار کئے گئے میکرو اکنامک پروگرام کے ذریعہ قابو پایا گیا، اِس پروگرام کے ذریعہ پٹرولیم کی قیمتوں میں ایڈجسٹمنٹ اور اخراجات میں کمی کے ذریعہ بجٹ کے خسارے کو کم سے کم کرنے کو یقینی بنایا گیا ہے، اور اِس کے ساتھ ساتھ سخت زری پالیسی پر عمل بھی جاری ہے۔

مشکل عالمی اور ملکی حالات کے باوجود اِن اقدامات کے مفید نتائج سامنے آرہے ہیں۔ اکثر میکرو اکنامک تبدیلیوں کے حالیہ رجحان سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اِس پروگرام پر نظم و ضبط کے ساتھ عملدرآمد (Disciplined Implementation)کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔حنا ربانی کھر نے کہاکہ مالی سال 2009-10 کے دوران جی ڈی پی (GDP) میں 3.3 فیصد کی شرح سے اضافہ متوقع ہے۔

اندازہ ہے کہ مالی سال 2010-11 اور مالی سال 2011-12 کے لیے یہ شرح بالترتیب 4 فیصد اور 4.5 فیصد رہے گی۔ جی ڈی پی 2009-10 میں اضافے کی یہ متوقع شرح زرعی شعبہ کی 3.8 فیصد شرح نمو ، صنعتی پیداوار کے شعبہ کی 1.8 فیصد شرح نمو اور خدمات کے شعبہ کی 3.9 فیصد شرح نمو (Growth Rate)کا نتیجہ ہوگی۔ مالی سال 2009-10 کے دوران افراطِ زرکی شرح کم کرکے 9.5 فیصد تک جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اِس شرح کو مالی سال 2010-11 اور 2011-12 کے دوران مزید کم کرکے بالترتیب 7فیصد اور 6 فیصد کی سطح پر لایا جائے گا۔مالی سال 2009-10 کے دوران جاریہ اخراجات(Current Expenditure) میںGDP کے 15.3 فیصد تک کمی کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جبکہ مالی سال 2010-11 کے لیے یہ ہدف 14.7 ہے۔ یہ اہداف مالیاتی خسارے کو مستحکم سطح پر رکھنے کے لیے غیر پیداواری (Non Productive) سبسڈیز (Subsidies)کے خاتمہ کے ذریعہ حاصل کئے جائیں گے۔

حکومت معیشت کی Documentation کو یقینی بنانے اور ٹیکسوں کے دائرہ کو وُسعت دینے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گی، تاکہ مقامی وسائل کے استعمال پر انحصار کو بڑھایا جاسکے۔محصولات کی وصولی(Total Receipt) میں مجموعی طور پر 15.7 فیصد جبکہ FBR کے محصولات (Revenue) میں 16.8 فیصد اضافہ متوقع ہے۔ٹیکس اور GDP کی شرح (Tax to GDP Ratio) جو مالی سال 2008-09 کے دوران 9فیصد تھی بڑھ کر 9.6 فیصد ہو جائے گی۔

مالی سال 2009-10 کے دوران محصولات (Revenue) GDP کے 14.7 فیصد جبکہ مالی سال 2010-11 کے دوران بڑھ کر 15.1 فیصد تک ہوجانے کی توقع ہے۔حنا ربانی کھر نے کہاکہ سابق حکومت نے یہ سمجھ کر Trickle Down کی پالیسی پر عمل کیا کہ Growth کے ثمرات خودبخود غریب طبقہ تک پہنچ جائیں گے۔ اس حکمت عملی کی خامی یہ تھی کہ اس کے نتیجہ میں امیر ، امیر تر اور غریب، غریب تر ہو گئے۔ ہماری حکومت غربت کے مسئلہ سے جارحانہ انداز میں نمٹ رہی ہے۔

غربت میں کمی کے لیے ہماری کوششوں کا اصل مقصد غربت کا خاتمہ ہے۔اپنی قائد ، شہید محترمہ بینظیربھٹو جنہوں نے جمہوریت کے لیے اپنی جان قربان کر دی ، کو خراجِ عقیدت کے طور پر حکومت نے بینظیر اِنکم سپورٹ پروگرام (BISP)متعارف کروایا تاکہ غریب طبقہ کو براہ راست نقد (Cash)امداد دی جاسکے۔ یہ پروگرام انتہائی غریب طبقہ کو اِمداد فراہم کرنے اور اُن کے بوجھ اور مصائب میں ممکنہ کمی کرنے کے حکومت کے پختہ عزم کا ثبوت ہے۔

اِس طرح ہم اپنے قائد شہید ذوالفقار علی بھٹو کے اِس قول پر عمل پیرا ہیں کہ ”حکمرانی عوام کی ہوگی“۔بینظیر اِنکم سپورٹ پروگرام (BISP)کے پسِ پردہ تصور نہ صرف ضرورت مند افراد کو مالی مدد فراہم کرنا بلکہ خواتین کو بااختیار اور بچوں کی نگہداشت کو یقینی بنانا بھی تھا۔ مالی سال 2008-09 کے دوران 18 لاکھ خاندانوں میں 22 ارب روپے تقسیم کئے گئے۔ مالی سال 2009-10 کے دوران بینظیر اِنکم سپورٹ پروگرام (BISP)کے لیے مختص فنڈ بڑھا کر 70 ارب روپے کرنے کی تجویز ہے۔

میڈم سپیکر! گزشتہ سال کے مقابلے میں یہ 200فیصد اضافہ ہے۔ میں پھر دہراتی ہوں کہ یہ اضافہ 200 فیصد ہے۔ نئے مالی سال میں اس اضافے سے 50 لاکھ خاندانوں کو فائدہ پہنچے گا۔ نقل مکانی کرنے والے افراد (IDPs)کے لیے بھی بینظیر اِنکم سپورٹ پروگرام(BISP) کے تحت ایک پروگرام شروع کیا گیا ہے جس میں ان افراد کی نشاندہی کرکے اُنہیں باقاعدگی کے ساتھ نقد امداد دی جارہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ بینظیر اِنکم سپورٹ پروگرام(BISP) مختصر سے درمیانی مدت میں سماجی معاونت (Social Assistance)کے لازمی پروگراموں کے لیے پلیٹ فارم(Plate Form) کا کردار بھی ادا کرے گا جن میں سب سے اہم غریب افراد کے لیے ہیلتھ انشورنس(Health Insurance) کا پروگرام ہے۔ یہ پروگرام ہسپتال کے مکمل اخراجات ، زَچگی (Pregnancy)، ڈے کیئر ٹریٹمنٹ (Day Care Treatment)، تشخیصی ٹیسٹ(Diagnostic Test) اور خاندان کے کمانے والے افراد کو حادثے کی صورت میں معاوضہ کی ادائیگی پر مشتمل ہے جس کی زیادہ سے زیادہ حد سالانہ فی خاندان 25 ہزار روپے ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ غربت کے خاتمے کی مختلف حکمت عملیوں(Policies) کے ذریعے خاندانوں کو معاشی طور پر خودمختار بنانے کے لیے رقوم کی منتقلی کے پروگرام بھی شامل کئے جائیں گے۔ اِن حکمت عملیوں سے مختلف ذرائع کی بدولت غریب افراد خودکفالت کی سطح تک مستفید ہوسکیں گے۔ میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ حکومت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP)کو چلانے میں مکمل شفافیت کو یقینی بنائے گی۔

آمدنیوں کی سطح جاننے کے لیے رواں سال کے دوران پاکستان کے 16 اضلاع میں ایک پائلٹ سروے(Pilot Survey) کیا جائے گا۔ غربت کی سطح کے اس سکور کارڈ کا دائرہ مالی سال کے دوران پورے ملک میں بڑھایا جائے گا۔ بینظیر انکم سپورٹ کارڈ نادار افراد کی ضروریات کو پورا کرنے اور شفاف مینجمنٹ(Transparent Management) کا کردار ادا کریں گے۔حناربانی کھر نے کہاکہ حکومت آئندہ مالی سال کے دوران ہاریوں کے لیے سماجی تحفظ (Social Protection)کا پروگرام مرتب کرنے کی قانون سازی کا منصوبہ رکھتی ہے۔

حکومت نے اس بات کا پختہ عزم کر رکھا ہے کہ محرومی کا شکار ہاریوں کو مرکزی دھارے میں لایا جائے گا۔ اُنہیں ملک بھر کے دیگر کارکنوں کی طرح سماجی تحفظ فراہم کیا جائے گا اور اُنہیں قابلِ فخر شہری بنایا جائے گا۔ مزیدبرأں وزارتِ سماجی بہبود (M/o Social Welfare)کو وزارت سماجی تحفظ (M/o Social Protection) میں تبدیل کرنے کی بھی تجویز ہے تاکہ تحفظ کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر کئے جانے والے اِقدامات کے لیے مشترکہ پلیٹ فارم (Platform) فراہم کیا جاسکے اور سماجی خدمات کی فراہمی کے لیے اداروں کی صلاحیتوں کو بڑھایا جاسکے۔

پیپلز ورکس پروگرام (People\'s Works Programme)کے دائرہ کار میں بجلی ، گیس اور پانی کی فراہمی اور کھیت سے منڈی تک سڑکوں کی تعمیر جیسے بنیادی شعبے آتے ہیں۔ مالی سال 2009-10 کے دوران اِس پروگرام کے لیے 28 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ اس سے روزگار کے مواقع میں خاص اضافہ ہو گا اور نتیجتاً کم مراعات یافتہ طبقہ کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔حنا ربانی کھر نے کہاکہ مالی سال 2009-10 کے دوران ہاؤسنگ (Housing) صحت، تعلیم اور ٹیکنیکل ایجوکیشن (Technical Education) جیسے شعبوں میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لیے 10.8 بلین روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔

غریب افراد کو بچیوں کی شادی کے لیے امداد (Grant) کے حوالہ سے کوٹہ(Quota) ختم کر دیا گیا ہے ، تاکہ انہیں تمام بچیوں کی شادی کے لیے امداد (Grant) دی جاسکے۔ شادی کے لیے امداد کی رقم 50 ہزار روپے سے بڑھا کر 70 ہزار روپے فی بیٹی کر دی گئی ہے۔ صنعتی کارکنوں کے لیے 9,469 ہاؤسنگ یونٹس (Housing Units) اور فلیٹس (Flates) تعمیر کرنے کی بھی تجویز ہے۔صدر پاکستان نے سرکاری اداروں کے ملازمین کو 12فیصد حصص (Shares)کی منتقلی کے ذریعے متعلقہ بورڈز (Respective Boards)میں اُن کی نمائندگی کے ساتھ اُنہیں بااختیار بنانے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ نج کاری کے عمل کو فعال بنایا جاسکے۔

چھوٹے قرضے غریب افراد خاص طور سے خواتین کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔حکومت نے 2010 تک چھوٹے قرضوں تک رسائی رکھنے والوں کی تعداد 20 لاکھ سے بڑھا کر 30 لاکھ کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ہمارے بانی قائد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی بصیرت سے کام لیتے ہوئے 4 عشرے (Four decades)قبل ہی اِس بات کی نشاندہی کر دی تھی کہ چھت عوام کی بنیادی ضرورت ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے ”روٹی ، کپڑا اور مکان“ کا نعرہ دیا۔انہوں نے کہاکہ اپنے قائد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اور اُن کے خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے ہم نے یہ اقدامات کئے ہیں۔کم آمدنی والے طبقہ کے لیے شراکتی بنیاد پر مرحلہ وار پروگرام کے تحت کم قیمت والے گھروں کی فراہمی اور کچی آبادیوں کو باقاعدہ رہائش (Regular Settlement)کی شکل دی ہے۔وزارتِ اطلاعات و نشریات نے صحافیوں کی سہولت کے لیے اسلام آباد میں مناسب تعداد میں رہائشی پلاٹ مختص کرنے کا انتظام کیا ہے۔

موجودہ بجٹ میں نئے گھرکی تعمیر یا خریداری کے لیے قرضوں پر ادا کیے گئے منافع پر ٹیکس کریڈٹ (Tax Credit) کی حد (Limit) 5لاکھ روپے سے بڑھا کر ساڑھے سات (7.5) لاکھ روپے کرنے کی تجویز ہے۔ حکومت کی زرعی پالیسی کا مقصد غذا کی تحفظ (Food Security) کو یقینی بنانا، روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا اور مختلف فصلوں کی پیداواری صلاحیت کو مسابقت (Competitivness) کے ذریعے بڑھانا اور پیداوار کے منافع میں اضافہ کرنا ہے۔

وسیع اور تیزی سے بدلتا ہوا زرعی شعبہ دیہات میں رہنے والے لاکھوں افراد کو غربت سے نکالنے کے لیے وسیع مواقع فراہم کرتا ہے۔زرعی پیداوار اورValue Addition کو اولین ترجیح دی جائے گی۔ اجناس میں خود انحصاری (Self Reliance)، فصلوں کی ہتر پیداواریت کے ساتھ ساتھ Livestock & Dairy کی ترقی ہماری پالیسی کے اہم ستون ہوں گے۔ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ حکومت بین الاقوامی سطح سے موازنے کی بنیاد پر کسانوں کو کم ازکم ضمانت شدہ قیمت کو یقینی بنانا جاری رکھے گی۔

حکومت کی قیمتوں کی بہتر پالیسی کی وجہ سے کسانوں نے بہتر فصل اُگائی۔ حکومت قیمتوں کی اس پالیسی کو برقرار رکھے گی۔ زراعت اور لائیو سٹاک(Live Stock) کے لیے درج ذیل دیگر امدادی اقدامات بھی کیے جار ہے ہیں:۔تحقیق و ترقی (R&D)پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے موجودہ سہولتوں کو بہتر بنایا جائے گا اور گندم اور کپاس کی فصلوں پر تحقیق (Research)کے لیے عالمی معیار کے دو ادارے (Institution) قائم کیے جائیں گے۔

نئی ٹیکنالوجی(Technology) کو ترقی دینا۔فصلوں کی آبپاشی کا بہتر نظام (Water Efficiency)۔ زیادہ قیمت والی فصلوں کی پیداوار اور برآمد کو فروغ دینا۔ زرعی شعبہ میں مویشی پالنے (Livestock)، دودھ کی مصنوعات (Dairy Products)تیار کرنے، ماہی پروری(Fisheries) اور (Horticulture)جیسی زیادہ آمدن والی سرگرمیوں کی رفتار تیز کرنا۔ضروری بنیادی ڈھانچہ(Infrastructure Development) تشکیل دینا۔

زرعی قرضوں کی فراہمی کو یقینی بنانا۔مشترکہ سہولتی مراکز کا قیام (Common Facilitation Centre) تحقیق اور توسیع کی حوصلہ افزائی (Research and Extention) ملک بھر میں ہر ایک بڑی فصل کے لیے 10 ماڈل ایگریکلچر یونین کونسلز کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ماڈل نامیاتی کاشت کاری (Model Organic Farming) کا فروغ۔PSDP میں زرعی شعبہ کے لیے مختص کی جانے والی رقم مالی سال 2009-10میں 25 فیصد اضافے کے ساتھ 18 ارب کر دی جائے گی جوکہ مالی سال 2008-09 میں 14.4 ارب تھی۔

غذائی تحفظ(Food Security) اور کاشتکاروں کی پیداوار میں اضافے کو یقینی بنانے کے لیے مالی سال 2009-10 کے دوران 2.5 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔اس صورتحال کی روشنی میں کئے گئے اقدامات کے ثمرات(Benefits) گندم اور چاول جیسی اہم فصلوں کی ریکارڈپیداوار کی صورت میں سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔ حکومت کی طرف سے پالیسی اقدامات کے نتیجہ میں اندازاً 294 ارب روپے مالیت کے وسائل دیہی معیشت کو منتقل ہو چکے ہیں۔

حکومت نے ملک میں Genetically Modified کپاس کی کاشت کو تیزی سے فروغ دینے کے لیے امریکی کمپنی M/s Monsanto کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ مالی سال 2009-10 کے دوران کاشتکاروں کو کاشت کے لیے بی ٹی کاٹن (BT Cotton) کی بہتر اقسام فراہم کرنے کی پیشکش کا منصوبہ بنایا جا چکا ہے۔ یہ اقدام حکومت کی طرف سے زراعت ، لائیو سٹاک(Live Stock) اور ماہی پروری (Fisheries)کو صنعتوں کا درجہ دینے کے تصور کے تحت کیا گیا۔

اس پس منظر میں ٹریکٹرز(Tractors)، پولٹری (Poultry)کے شعبہ سے متعلقہ اشیاء اور جانوروں کے چارے پر کوئی کسٹمز ڈیوٹی (Customs Duty)عائد نہ کرنے کا سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔ فصلوں کی پیداوار میں اضافے اور پانی کے باکفایت استعمال میں بہتری کے لیے وزارت خوراک و زراعت نے (National on Farm Water Mangement Programme) پر عمل درآمد کیا۔پانی کے شعبہ کے لیے 60 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جو مجموعی وفاقی پروگرام کا 14 فیصد ہے۔

ہر صوبہ میں 8 چھوٹے اور درمیانے ڈیمز کے لیے فنڈز فراہم کیے جا رہے ہیں۔ اس طرح سے نیشنل پروگرام آف واٹر کورسز(National Programme of Water Courses) ، فراہمی ٴ آب (Water Availability)کے نظام، نہروں کی بحالی اور اُن کے کناروں کی پختگی جیسے منصوبوں کے لیے بھی مناسب فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ مالی سال 2009-10ء میں PSDP کے تحت زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے مختص کیے جانے والے فنڈز کی تفصیلات اس طرح ہیں۔

منگلا ڈیم ریزنگ( Mangla Dam Raising) اور اس کے متاثرین کی بحالی کے لیے 12 ارب روپے آبی گذر گاہوں (Water Courses)کی بہتری کے لیے 10 ارب روپے تمام صوبوں میں بے شمار منصوبوں کے تحت آبپاشی کے نظام میں شامل نہروں کی حالت بہتر بنانے کے لیے 15 ارب روپے۔مالی سال 2009-10 کے لیے اپنائی گئی حکمتِ عملی میں جاری میگا پراجیکٹس (Mega Projects) کی تکمیل کے ساتھ ساتھ چھوٹے اوردرمیانے ڈیمز (Dams)کی تعمیر بھی شامل ہے۔

حکومت نے آبی وسائل کو ترقی دینے کے لیے ایک بڑے پروگرام کا آغاز کیا ہے جس کے لیے مالی سال 2009-10 کے دوران PSDP کے تحت 47 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں، منگلا ڈیم ریزنگ، گومل زام ڈیم (Gomal Zam Dam)اور ست پارہ ڈیم(Satpara Dam) جیسے آبپاشی کے اہم منصوبے مکمل کیے جا رہے ہیں اور بھاشا(Bhasha)، اکھوڑی(Akhori) ، مجدا(Majda) اور نئی گج (Nai Gaj) ڈیموں کی تعمیر کا آغاز کر دیا گیا ہے، بلوچستان میں کچھی کینال اور سندھ میں رینی کینال کے منصوبے 2010 کے وسط تک مکمل ہو جائیں گے۔

پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے پنجاب، سندھ اور سرحد کے زمین میں زیادہ نمکیات والے علاقوں میں نہروں کے کناروں کو پختہ کیا جا رہا ہے۔ چاروں صوبوں میں چھوٹے ڈیمز کی تعمیر کے قومی پروگرام پر عملدرآمد جاری ہے۔ بارش کے پانی کو محفوظ کرنے اور زمینی پانی کو دوبارہ استعمال کرنے کا جامع منصوبہ تیار کیا جار ہا ہے۔زرعی انفراسٹرکچر(Agriculture Infrastructure) کی ترقی جس میں ویئر ہاؤسنگ(Warehousing) کی سہولیات بھی شامل ہیں، سے ایگریکلچر مارکیٹنگ(Agriculture Marketing) اور سٹوریج انفراسٹرکچر(Storage Infrastructure) میں بہتری آئے گی۔

ان پراجیکٹس(Projects) پر مجموعی طور پر 37ارب روپے لاگت آئے گی۔ ان منصوبوں کے لیے مالی سال 2009-10 میں 500 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔چھوٹے کاشتکاروں کے لیے آئندہ دو برسوں میں بینظیر ٹریکٹر سکیم کے تحت 4 ارب روپے کی رقم رکھی جا رہی ہے۔ حکومت غذائی تحفظ (Food Security)کو یقینی بنانے اور چھوٹے کاشتکاروں کی زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے ایک مرحلہ وار پروگرام پر عمل پیرا (Phased Implementation)ہیں۔

اس پروگرام کو غذائی تحفظ(Food Security) اور چھوٹے کاشتکاروں کی پیداوار میں اضافے کے خصوصی پروگرام کا نام دیا گیا ہے۔ اس پروگرام پر ابتداء میں 1,012 دیہات میں عملدرآمد (Implement)کیا جائے گا اور 2015 تک اس کے دائرہ کار کو 13 ہزار دیہات تک توسیع دی جائے گی۔ اس پروگرام پر 8 ارب روپے لاگت آئے گی اور اس پر چاروں صوبوں، آزاد جموں و کشمیر، فاٹا اور فانا میں عملدرآمد(Implement) کیا جائے گا۔

زرعی ترقیاتی بنک کے زیرِ اہتمام ملک بھر کے 26 دیہات میں ایک نیا ایگریکلچر ماڈل ویلج پروگرام (New Agriculture Model Village Programme)شروع کیا گیا ہے۔ اس پروگرام کا مقصد کاشتکاروں کو گاؤں کی سطح پر منظم کرنا اور زرعی قرضوں تک ان کی آسان رسائی کو یقینی بنانا ہے۔حکومت مالی سال 2009-10 کے دوران اعلیٰ معیار کے بیجوں کی فراہمی میں بہتری لانے کے لیے اس شعبہ کو تجارتی بنیادوں (Commercialization) پر استوار کرنے کا نیا پروگرام شروع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

اس کے لیے سرکاری اور نجی شعبہ کی شراکت (PPP)کے تصور کی بنیاد پر ایک نئی صنعت کا قیام عمل میں لایا جائے گا اور اس شعبہ میں انفراسٹرکچر(Infrastructure) کی تعمیر اور استحکام کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ممکن ہو گی۔وفاقی وزیر مملکت نے کہاکہ لائیو سٹاک (Live Stock) کا شعبہ ہماری معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ نومبر 2008ء میں قائم کی گئی منسٹری آف لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈیویلپمنٹ(M/o Livestock and Dairy Development) کے مقاصد میں روزگار کے حوالہ سے ماہی گیروں کے خدشات پر توجہ دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔

جس میں غیر ملکی زرمبادلہ میں اضافہ، گہرے سمندر میں ماہی گیری کے فروغ ، معیاری مصنوعات کی وافر مقدار میں مسابقتی قیمتوں پر فراہمی اور غذائی تحفظ شامل ہیں۔ لائیو سٹاک کے شعبہ کے استحکام کی غرض سے مندرجہ ذیل اقدامات کیے گئے ہیں۔وزیراعظم کا Special Initiative on Livestockگوشت کی پیداوار کے لیے مویشی پالنا (Cattle Raising) سفید انقلاب (White Revolution)کے لیے وزیراعظم کا Special Initiativeجس کے تحت ”دودھ دریا“ اور ”ڈیری پاکستان“ کے منصوبے ڈیری سیکٹر (Dairy Sector) میں بنیادی تبدیلیوں کے لیے کردار ادا کر رہے ہیں۔

Avian Influenza سے بچاؤ اور اس پر کنٹرول کا قومی پروگرام جانوروں کے لیے Animal quarantine Stations قائم اور اپ گریڈ کرنا۔حلال غذائی اشیاء کی منڈی تک رسائی کی کوششیں سمال ہولڈرز سسٹم (Small Holders System) کے تحت مویشیوں کی افزائش نسل اور کارکردگی کو بہتر بنانامالی سال 2009-10 کے دوران اس شعبہ میں مجوزہ منصوبے (Proposed Plans) درج ذیل ہیں ساڑھے تین ارب روپے کی لاگت اور سرکاری اور نجی شعبہ کی شراکت (PPP) سے دودھ کی مصنوعات (Dairy Products)کی پیداواری صلاحیت (Productivity) میں اضافہ کرنے کا منصوبہ شامل ہے۔

جس کے لیے مالی سال 2009-10 میں 300 ملین روپے رکھے جائیں گے۔ سمال ہولڈرز لائیو سٹاک اور ڈیری ڈیویلپمنٹ (Small Holders Livestock and Dairy Development) کے ذریعے غربت میں کمی کے لیے 3539.13 ملین روپے خرچ کیے جائیں گے جن میں سے 400 ملین روپے مالی سال 2009-10 کے دوران مختص کیے جائیں گے۔مزید ماڈل ڈیری کمیونٹیز (Model Dairy Communities)، بائیو گیس (Bio-Gas) اورافزائش نسل (Breeding) کے فارمز ، کولنگ ٹینکس (Cooling Tanks) اور پاسچرائزیشن پلانٹس (Pasteurization Plants) کے قیام کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں خدمات (Services) کی فراہمی کو بہتر بنایا جائے گا۔

مالی سال 2009-10 کے دوران درج ذیل امور پر توجہ مرکوز ہو گی۔مچھلی کی تجارت کے لیے استعمال ہونے والی کشتیوں کو اپ گریڈ کرتے ہوئے یورپی یونین (EU)کی طرف سے مچھلی کی تجارت پر عائد پابندیوں کا خاتمہ ویلو ایڈڈ (Value Added) مصنوعات کی تیاری کے لیے انفراسٹرکچر اور سہولتوں کی بہتری گوادر (Gwadar)میں ماہی پروری کی تربیت (Fisheries Training)کے مرکز کا قیام(dساحل کے ساتھ لنگرانداز ہونے کے لیے مقامات (Landing Sites) قائم کرنا (e)مارکیٹنگ اور فوڈ چین ( Marketing and Food Chain)تک رسائی بہتر بنا کر مچھلی کی پیداوار کے حصول کے بعد ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کرنا(f) ملک میں شرمپ ایکواکلچر(Shrimp Aquaculture) کا قیام(Making Industry Internationaly Competitive).V ترقی کے لیے سرمایہ (Capital and Finance for Development) .VI سرکاری نجی شراکت داری کے ذریعے انفراسٹرکچر کی رکاوٹوں کو دور کرنا (Removing Infrastructure Bottlenecks Through Public Private Partnership)عالمی معاشی بحران ، توانائی کی قلت اور معیشت کے حجم میں کمی سے پاکستان کا صنعتی شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔

رواں مالی سال کے دوران اس شعبہ کی Growth منفی 3.3 فیصد تھی۔ جبکہ Large Scale Manufacturing کی Growth کم ہوکر منفی 7.7 فیصد ہوگئی۔ صنعتی شعبہ ہماری پیداوار اور روزگار کا محرک ہے۔ حکومت مالی سال 2009-10 کو صنعتی شعبہ کی بحالی (Industrial Revival)کا سال قرار دینے کی تجویز دیتی ہے۔ہمارا صنعتی شعبہ بکھرا (Fragmented) ہوا ہے اور مربوط (Consolidated) نہیں ہے۔ صنعتی شعبہ کے لیے درج ذیل معاونتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

مالی سال 2009-10 کے دوران Export Investment Support Fund کے لیے 40 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔حکومت اس فنڈ کی مد میں 10 ارب ادا کرے گی جبکہ Export Development Fund اتنی ہی رقم فراہم کرے گا۔ بقایا 20 ارب کمرشل بنکس میں حکومتی اداروں کی اضافی رقوم سے حاصل کیے جائیں گے۔چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں (SMEs) کو مالیاتی وسائل تک رسائی فراہم کرنے کی غرض سے قرضوں کی ضمانت (Credit Guarantees) کے لیے 10 ارب روپے کا فنڈ قائم کیا جا رہا ہے۔

اِس فنڈ کو حکومت اور نجی شعبہ اگلے دو سالوں کے دوران مساوی شرح کی بنیاد پر سرمایہ فراہم کریں گے۔ حکومت نے بجٹ 2009-10 میں پہلے ہی 2.5 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی ہے۔ اس کے نتیجہ میں چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتیں (SMEs) روزگار کی فراہمی ، اقتصادی شرح نمو (Growth Rate) میں اضافہ اور غربت میں کمی کے لیے اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔

ایسے شہری جن کو ایکویٹی فنانسنگ (Equity Financing)کی سہولت حاصل نہیں، اُن کے لیے 10 ارب روپے سے Venture Capital Fund قائم کرنے کی تجویز ہے۔ اس فنڈ کے لیے سرمایہ کی فراہمی کا طریقہ کاSME Credit Guaranteeکریڈٹ گارنٹی فنڈ جیسا ہو گا۔ اس فنڈ کے لیے بھی حکومت نے مالی سال 2009-10 کے بجٹ میں اپنے حصے کے طور پر 2.5 ارب روپے مختص کرنا تجویز کیا ہے۔ صنعتی سرمایہ کاری (Industrial Financing)کے لیے ایک نئی DFI قائم کی جا رہی ہے۔

Skill Development میں صنعتی مراکز کو شامل کیا جائے گا تاکہ ملکیت ، نگرانی اور پروگراموں کے بامقصد ہونے کو یقینی بنایا جاسکے۔(Involvement of Industrial Clusters in Skill Development)وزارتِ صنعت کے لیے مختص فنڈز میں 335 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ میں دہرا (Repeat) رہی ہوں 335 فیصد۔ مالی سال 2008-09 کے دوران اس وزرات کے لیے 2 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ مالی سال 2009-10 کے دوران اس وزرات کے لیے 8.7 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کے لیے مختص فنڈز کو دوگنا (Double Allocation)کیا جا رہا ہے۔ مالی سال 2008-09 کے دوران اس کے لیے 1510 ملین روپے مختص کیے گئے۔ آئندہ مالی سال کے لیے 3140.4 ملین روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ حکومت صنعتوں پر عائد ٹیکس میں اضافہ نہیں کر رہی ماسوائے تمباکو نوشی کی صنعت کے۔ بلکہ صنعتی شعبہ کو ٹیکس کے حوالہ سے مندرجہ ذیل مراعات دینے کی تجویز ہے۔

Automobile Manufacturers اور اُن کے Industry Vendor صنعت کی معاونت کے لیے (CKD) پر ایکسائز ڈیوٹی (Excise Duty) میں 5 فیصد کمی تعمیراتی شعبے کو فعال بنانے کے لیے سیمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی میں 200 روپے فی ٹن کمی کی جا رہی ہے۔اس کمی کا فائدہ صارفین کو ہو گا۔ٹیکسٹائل کے شعبہ کی معاونت کے لیے Viscose Staple Fiber کی درآمد اور فراہمی پر عائد (FED) کا خاتمہ اور آگ سے محفوظ رکھنے والے کپڑوں کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والے کیمیائی مرکبات (Chemical Compound) کی Zero Rating۔

Cellular Service Providers کو درج ذیل سہولیات دی جانے کی تجویز ہے۔250 روپے فی سیٹ ریگولیٹری ڈیوٹی کا خاتمہ کسٹم ڈیوٹی 500 روپے فی سیٹ سے کم کرکے 250 روپے فی سیٹ ایکسائز ڈیوٹی میں 21فیصد سے 19فیصد کی کمی Sim Activation Charges کو 500 روپے سے کم کرکے 250 روپے کر دیا گیا ہے۔ Documented Sector کی سیلز ٹیکس رجسٹرڈ سپلائر سے 90 فیصد خریداری کی صورت میں مراعات برآمدی شعبہ (Export Sector) پر زیروریٹنگ ڈیوٹی (Zero Rating Duty) اس سال بھی جاری رہے گی۔

Importers کی Under Invoicing سے مقامی صنعت کو تحفظ دینے کے لیے Customs Valuation & Enforcement Mechanism کو یقینی بنایا جائے گا۔ ریفنڈ کے طریقہ کار کو بہتر بنایاجائے گا۔ FBR ریفنڈ (Refund) میں 90 دن سے زیادہ تاخیر کی صورت میں منافع ادا کرے گا۔ٹیکس دہندگان اور صنعت کی سہولت کے لیے ٹیکس (سیلز، ایکسائز، انکم اور کسٹمز) کے قوانین میں ہم آہنگی کو یقینی بنایا جائے گا۔کمپنیوں کی صورت میں عطیات پرTax Credit کی حد 15 فیصد سے بڑھا کر 20فیصد کی جار ہی ہے۔

صنعتی شعبہ کی بحالی کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔بجلی اور گیس کی فراہمی کے حوالہ سے صنعتی شعبہ کو اولین ترجیح دی جائے گی۔ صنعتی شعبہ کو سہولت فراہم کرنے کے لیے بجلی اور گیس کے نرخوں پر Cross Subsidy کو بتدریج (Phase wise) کم کیا جائے گا۔ برآمدی صنعت کی معاونت کے لیے Large Export Houses قائم کیے جائیں گے۔ SEZs اور SIZs کو تیزی سے ترقی دی جائے گی۔

ملکی صنعت کو بین الاقوامی مارکیٹ میں ساز گار ماحول فراہم کرنے کے لیے امریکہ (USA) اور یورپی یونین (EU)سے مذاکرات کیے جائیں گے۔ Bankruptcy and Insolvency کے طریقہ کار کو بہتر کرنے کے لیے Corporate Rehabilitation Act (CRA) کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔صنعتی شعبہ کو مربوط بنانے کے لیے Resolution Trust Corporation (RTC) کے قیام کی تجاویز کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ نجی شعبہ کے لیے مسابقانہ منڈیاں (Compatitive Markets) قائم کرنے کے لیے Holding Companies کے قیام جیسی SECP کی اصلاحات اور کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کے لیے کئی دیگر اقدامات بھی کئے جارہے ہیں۔

تجارت اور صنعت کو سرمایہ فراہم کرنے کے لیے Capital Markets کو وسعت دی جائے گی۔آجر اور اجیر کے درمیان تعلقات (Employer and Employee Relations)کو بہتر بنانے کے لیے پارلیمنٹ نے انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ منظور کر لیا ہے۔Entrepreneurs کو کاروبار میں توسیع کے مواقع فراہم کرنے اور سرکاری اثاثوں کی فروخت میں حکومت کی معاونت کے لیے سرکاری اور نجی شعبہ کی شراکت پر مبنی نجکاری کی شفاف پالیسی پر عملدرآمد (Implementation) جاری ہے۔

اس پالیسی کے تحت 26 فیصد حصص نجی شعبہ کو فروخت کرنے کا عمل جاری ہے۔ صنعتی مسابقت (Industrial Competitiveness)کی صلاحیت بہتر بنانے کے لیے National Trade Coridors Improvement Programme شروع کیا جا چکا ہے۔نیشنل ہائی وے اتھارٹی (NHA) کے لیے مختص رقم 36 ارب روپے سے بڑھا کر 40.2 ارب روپے کی جا رہی ہے۔ جبکہ پاکستان ریلوے کے لیے مختص رقم 6.6 ارب سے بڑھا کر 12.7 ارب روپے کرنے کی تجویز ہے۔

اس کا مقصد سڑکوں اور ریل کے نیٹ ورک (Network) کے معیار کو بہتر بنانا ہے۔پولٹریPoultry، ڈیریDairy ، فِش پروسیسنگ(Fish Processing) اور فارماسوٹیکلز (Pharmaceuticals جیسے شعبوں کو سستے خام مال(Raw Material) کی فراہمی کے لیے کئی اشیاء پر کسٹم ڈیوٹی کم کرنے کی تجویز ہے۔ مقامی صنعت کو کافی تحفظ دینے کی بھی تجویز ہے۔ توانائی کی بلا تعطل (Uninterrupted)فراہمی نہ صرف شہریوں بلکہ معیشت کے تمام شعبوں کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل (EAC)نے ملک کی مختصر، درمیانے اور طویل مدت (Short, Medium and Long)کی توانائی کی ضروریات پورا کرنے کیلئے توانائی کا ایک مربوط منصوبہ (Integrated Energy Plan)تیار کیا ہے جوکہ پاکستان میں توانائی کا اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ ہے کیونکہ اس سے قبل توانائی کے شعبے کو اجتماعی طور پر نہیں دیکھا گیا۔حکومت ملک میں توانائی کے بحران سے پیدا ہونے والے مسائل سے پوری طرح آگاہ ہے۔

گزشتہ حکومت کی کوتاہ نظر (Short Sighted) پالیسیوں کے باعث بجلی کی قلت، لوڈ شیڈنگ اور توانائی کے حصول کے ناقابل برداشت ذرائع ورثے میں ملے۔ ہم نے ملک میں توانائی کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات کئے ہیں تاکہ اپنی زراعت اور صنعت کے شعبوں کو تقویت دی جاسکے۔اس تناظر میں بجلی کے شعبے کیلئے مالی سال 2009-10 کے P.S.D.P میں مختص فنڈز میں 100 فیصد اضافہ کرکے 22.8 ارب روپے کر دیا گیا ہے جوکہ مالی سال 2008-09 میں 11.4 ارب روپے تھے۔

گزشتہ حکومت نے توانائی کے شعبے میں سرکولر قرضے (Circular Debt) کا بھاری Backlog ورثے میں چھوڑا۔ گزشتہ حکومت کی جانب سے اس مسئلے کو بروقت حل کرنے کے لیے فیصلہ سازی کے فقدان کے باعث موجودہ حکومت کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا مگر ہم اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے سے نہیں گھبرا رہے۔ اس حوالے سے حکومت نے سرکولر قرضے (Circular Debt)کے مسئلے کو حل کرنے کا چیلنج قبول کیا جس نے توانائی کے شعبے کی استعداد کو محدود (Limited Capacity)کر دیا تھا۔

بجلی کے شعبے کی مالی حالت بہتر بنانے کے لیے حکومت نے خاص طور پر ہولڈنگ کمپنی (Holding Company)قائم کی۔216 ارب روپے کے تمام بنک واجبات کی ذمہ داری سنبھالے گی اور اِن قرضوں پر مارک اَپ (Mark-up)بجٹ وسائل سے فراہم کئے جائیں گے۔ حکومت نے پیپکو (Pepco) کیلئے بنکوں سے 92 ارب روپے کی T.F.C سہولتوں کا انتظام کیا ہے تاکہ وہ آئی پی پیز (IPPS) اور تیل و گیس کمپنیوں کے واجبات ادا کر سکے۔

حکومت پیپکو کے ذمہ 61 ارب روپے کے واجبات کی ادائیگی میں مدد دے گی۔حکومت نے فاٹا کے صارفین کے ذمہ پیپکو کے 80 ارب روپے کے تمام بقایا جات کی ذمہ داری اٹھانے اور فاٹا (Fata)کا بجلی کا موجودہ بل ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔حکومت ، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے محکموں اور اداروں خصوصاً K.E.S.C اور KW&SB کے ذمہ پیپکو کے واجبات کے حصول میں پیپکو کی مدد کرے گی۔

بجلی کی بندش اور Losses کو کم سے کم رکھنے کیلئے بجلی کی ٹرانسمشن اور تقسیم (Transmission and Distribution)کے نظام کو بہتر بنانے کے منصوبے شروع کئے گئے ہیں تاکہ صارفین کو بجلی کی بلاتعطل فراہمی جاری رہے۔ اس وقت 2921 میگاواٹ کی مجموعی گنجائش کے ساتھ 15 I.P.P Houses تیاری کے مختلف مراحل میں ہیں۔ ان میں سے 1861 میگاواٹ کے9 منصوبے 2009ء میں، 776 میگا واٹ کے 4 منصوبے 2010 میں مکمل ہوں گے جبکہ 284 میگاواٹ کے 2 منصوبے 2011 میں مکمل ہوں گے۔

2009 میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا حکومتی ہدف حاصل کرنے کیلئے 5 رینٹل پاور پراجیکٹس (Rental Power Projects) کے ساتھ 800 میگاواٹ کیلئے معاہدے کئے گئے۔ نجی شعبے میں 4160 میگاواٹ کی مجموعی گنجائش کے ساتھ پن بجلی (Hydro Power)کے 16 منصوبوں پر کام شروع کیاگیا ہے۔ مجموعی استعداد میں اضافے کے لیے سرکاری شعبے میں چیچو کی ملیاں اور نندی پور (Chichoki Mallian and Nandipurمیں پانچ پانچ سو میگا واٹ کے 2 نئے Combined Cycle Power Projects کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

حکومت نے تمام دیہات کو بجلی کی فراہمی کے لیے ایک بڑا منصوبہ بھی شروع کیا ہے جہاں گرڈ سپلائی (Grid Supply) سے بجلی فراہم کی جاسکے گی۔ گزشتہ سال 6419 نئے دیہات کو بجلی فراہم کی گئی۔ بجلی کی طلب پورا کرنے کے لیے بچت سمیت کئی اقدامات کئے گئے ہیں، اُن میں عوام میں آگاہی پھیلانے کے لیے بڑے پیمانے پر میڈیا مہم ، انرجی سیور بلب (Energy Saver Bulb)کا استعمال اور موسم گرما کے دوران روشنی کی بچت کے لیے وقت کو آگے بڑھانا شامل ہے۔مالی سال 2009-10 میں جو دیگر اہم اقدامات تجویز کئے گئے ہیں اُن میں: خان خوڑ اور جناح ہائیڈرو (Khan Khwar and Jinnah Hydro)کے 168 میگاواٹ کی مجموعی گنجائش کے 2 پن بجلی (Hydro Power)منصوبوں کی تکمیل۔ کسٹمر سروسز کو بہتر بنانے کے لیے تمام ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (DISCOs)میں کال سینٹرز (Call

متعلقہ عنوان :