بجٹ میں نادار طبقے کیلئے کچھ نہیں، چوہدری پرویز الٰہی

بدھ 17 جون 2009 18:58

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔17جون ۔2009ء) قومی اسمبلی میں سابق قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما چوہدری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ مایوس کن ہے اس میں ملک کے نادار طبقے کیلئے کچھ نہیں ہے، اربوں روپے کے اثاثوں کے حامل چار سرکاری اداروں کو سرکاری خرچ پر پالا جارہا ہے جبکہ غریبوں کی سبسڈی ختم کی جارہی ہے، بلوچستان کے مسئلہ کے حل کیلئے جلد کل جماعتی کانفرنس طلب کی جائے۔

بدھ کو سابق قائدحزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما چوہدری پرویز الٰہی نے مالی سال 2009-10ء کے بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ کسی بھی ملک کی معیشت کی سمت متعین کرتا ہے، اس سے عوام کو بڑی توقعات وابستہ ہوتی ہیں، آئندہ مالی سال کے بجٹ میں نہ کوئی ویژن ہے اور نہ کوئی امید ہے۔

(جاری ہے)

گزشتہ بجٹ میں طے شدہ اہداف حاصل نہیں ہوسکے۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ کی کیفیت بھی اس سے مختلف نہیں ہے، ملک میں غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان میں غریبوں کی تلاش کیلئے عالمی بینک کو ذمہ داریاں سونپ دی ہیں۔ اربوں روپے کے اثاثوں کے حامل چار اداروں کو سبسڈی دے کر پالا جارہا ہے۔ یہ رقم غریبوں کی جیبوں سے نکالی جاتی ہے اس سے مہنگائی اور غربت میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے ان شعبوں میں واپڈا شامل ہے ۔ ان شعبہ جات میں ذاتی پسند وناپسند کی بجائے اہل امیدواروں کو تعینات کیا جائے۔

ملک میں بجلی کا بحران ہے اس سے صنعتیں بند ہورہی ہیں۔ ہماری بجلی پیدا کرنے سے 5 ہزار میگاواٹ کم استعداد سے بجلی کی پیداوار ہورہی ہے۔ نجی کمپنیوں کو 82 ارب روپے کی ادائیگی کرنی ہے۔ رینٹل پاورز پر 22 فیصد منافع بیرونی کمپنیوں کو دیا جارہا ہے۔ یہ ملک وقوم کی خدمت نہیں ہے اس کے سب سے زیادہ اثرات زراعت اور صنعت پر پڑیں گے۔ بینک زرعی قرضے دینے کے قابل نہیں رہیں گے۔

سوات سے نقل مکانی کرنے والوں نے پاکستان کی سالمیت اور بقا کیلئے قربانی دی ہے۔ ان کی بحالی کا انتظام کرنا چاہئے۔ وزیراعظم بلوچستان کی صورتحال کا ادراک کریں اور جلد اے پی سی بلائیں۔ پرویز الٰہی نے کہا کہ حکومت کی کارکردگی کو گزشتہ سال کے بجٹ کی روشنی میں دیکھنا ضروری ہے۔ 550 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ اور 5.8 فیصد شرح نمو کا ہدف تھا۔ فنڈز کا استعمال 50 فیصد رہا۔

ہمارے دور میں 80 فیصد تک ترقیاتی بجٹ صرف کیا جاتا رہا ہے۔ ایماندار ٹیم کے ساتھ یہ اہداف حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ نئے بجٹ میں 646 ارب اور شرح نمو کا ہدف 3.6 فیصد رکھا گیا ہے۔ گزشتہ ریکارڈ کی روشنی میں یہ ممکن نہیں کہ یہ اہداف حاصل ہوسکیں۔ پرویز الٰہی نے کہا کہ مالاکنڈ اور سوات سے نقل مکانی کرنے والوں نے پاکستان کی سلامتی ، بقا اور حفاظت کیلئے اپنے گھر بار چھوڑے۔

عوام نے ان کی دل کھول کر مدد کی لیکن حکومت نے ان کیلئے صرف 50 ارب روپے مختص کئے۔ ان لوگوں نے ہماری نسلوں، پاکستان کی سالمیت کیلئے بہت قربانی دی ہے۔ فرینڈز آف پاکستان کی کارکردگی بھی تسلی بخش نہیں ہے۔ حکومت نے ایس ایم ایس سے خوفزدہ ہوکر ان پر ٹیکس لگایا ہے۔ بجٹ مکمل طور پر مایوس کن ہے۔ حکومت امریکہ سے ملنے والے 1.5 ارب ڈالر پر تکیہ کرناچھوڑ دے۔

امریکہ خود اس کی مانیٹرنگ اور استعمال کی شرائط بتائے گا۔ ترقیاتی اخراجات ، غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی اور دفاعی بجٹ کو نکالنے کے بعدہمارے پاس صرف 13 فیصد بچے گا۔ اس کو کہاں کہاں خرچ کیا جائے گا۔ پرویز الٰہی نے کہا کہ بلوچستان کی صورتحال پر کل جماعتی کانفرنس بلائی جائے۔ بلوچستان کے مسائل کو ٹھنڈے دل سے تمام سیاسی جماعتیں مل کر حل کریں۔ بلوچستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ بیرونی طاقتیں وہاں گھناؤنا کھیل کھیل رہی ہیں اس کا حل نکالا جائے۔

متعلقہ عنوان :