پنجاب حکومت نے لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے چالیس روپے فی کلو گرام چینی کی فروخت کو یقینی بنانے کیلئے وفاقی حکومت سے مدد طلب کر لی ،عدالت کے احکامات کو چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ ‘ وزیر اعلیٰ کا رہنمائی کیلئے وزیر اعظم سے بھی رابطہ ،شوگر ملیں پرائیویٹ ہیں،حکومت کے کنٹرول میں نہیں، میاں منظور احمد وٹو کا اعتراف،آئندہ چند ماہ تک شوگر پالیسی لائی جا رہی ہے جسکے تحت ملز مالکان کاشتکار کو اسکے گنے کے معیار کے مطابق فوری طور پر ادائیگی کرنے کے پابند ہونگے، وفاقی وزیر صنعت و پیداوار،ہم ایکس مل ریٹ 36روپے نہیں کر سکتے حکومت ہمیں گرفتار کرنا چاہتی ہے تو کر لے، شوگر ملز ایسوسی ایشن

ہفتہ 5 ستمبر 2009 19:37

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔5ستمبر۔2009ء) پنجاب حکومت نے لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے چالیس روپے فی کلو گرام چینی کی فروخت کو یقینی بنانے کیلئے وفاقی حکومت سے مدد طلب کر لی جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف کی صدارت میں ہونیوالے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں عدالتی فیصلے پر مکمل عملدرآمد کے لئے شوگر ملز مالکان اور ڈیلرز سے رابطے کے لئے وزیر اعلیٰ کے سینئر مشیر سردار ذوالفقار کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دیدی گئی ‘ پنجاب حکومت لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو چیلنج نہیں کریگی تاہم وزیر اعلیٰ نے ایڈووکیٹ جنرل کو ڈیلرز کی طرف سے 47روپے فی کلو گرام کے حساب سے خریدی گئی چینی کی 40روپے فی کلو گرام فروخت کے حوالے سے ہائیکورٹ سے رہنمائی حاصل کرنے کی ہدایت جاری کر دی ۔

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق پنجاب کابینہ کا اجلا س وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی صدارت میں ہوا جس میں سینئر صوبائی وزیر راجہ ریاض ‘ سینئر مشیر سردار ذوالفقا رکھوسہ ‘ وزیر خوراک ملک ندیم کامران‘ صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان ‘ وزیر خزانہ تنویر اشرف کائرہ سمیت کابینہ کے تمام وزراء نے شرکت کی ۔ اجلاس میں وزراء نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے مطالبہ کیا کہ وہ چینی کی چالیس روپے فی کلوگرام فروخت کو یقینی بنانے کے لئے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی سے رابطہ کریں کیونکہ ان کی رہنمائی سے اس حوالے سے بہتر انداز سے فیصلہ کیا جا سکتا ہے جس کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی سے رابطہ کیا اور انہیں صوبائی کابینہ کے اجلاس میں ہونیوالے فیصلوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے رہنمائی حاصل کی ۔

ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے وزیر اعظم سے رابطے کے دوران ان سے درخواست کی کہ کوئی ایسا طریقہ اپنایا جائے جس سے پورے ملک میں چینی کی فروخت کے حوالے سے کوئی مشترکہ حکمت عملی اپنائی جا سکے ۔ وزیر اعظم سے یہ بھی کہا گیا کہ انہوں نے جس طرح چند ہفتے قبل جنرل سیلز ٹیکس میں پچاس فیصد کمی کی ہے اگر ہو سکے تو اس میں مزید کمی کر دی جائے تاکہ عدالت کے فیصلے کے مطابق چالیس روپے فی کلو گرام فروخت یقینی بنایا جا سکے۔

اجلاس کے دورا ن شوگرملز مالکان اور ڈیلرز سے رابطے کے لئے سردار ذوالفقار کھوسہ پر مشتمل کمیٹی بھی قائم کی گئی جس میں سینئر وزیر راجہ ریاض ‘ صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان‘ وزیر خوراک ملک ندیم کامران او رصوبائی وزیر خزانہ تنویر اشرف کائرہ شامل ہونگے جو آج سے ہی رابطوں کا سلسلہ شروع کریں گے ۔ اجلاس کے بعد صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے سردار ذوالفقار کھوسہ نے کہا کہ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے دئیے جانیوالے فیصلے پر عملدرآمد کروانے کا فیصلہ کیاگیا ہے اور تمام وزراء نے متفقہ طور پر کہا ہے کہ ہم ہر صورت ہائیکورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کروانا چاہتے ہیں تاکہ عوام کو سستی چینی میسر آ سکے ۔

انہوں نے کہا کہ ایک مسئلہ یہ ہے کہ جن ڈیلرز نے 45یا 47روپے فی کلو میں چینی خرید کی ہے وہ اب اس کو کس طرح چالیس روپے میں فروخت کریں اور انکے پاس سوا دو لاکھ میٹرک ٹن چینی کا ذخیرہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جن شوگر ملوں پر سیکورٹی بٹھائی ہے وہ اس وقت تک وہاں موجود رہے گی جب تک ہم اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر لیتے ‘ جہاں تک یہ کہنا ہے کہ شوگر ملز مالکان ہم سے مذاکرات نہیں کریں گے تو اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا وہ بھی پاکستانی ہیں انہیں بھی عدالتی فیصلے کا مکمل احساس ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہم رمضان بازاروں کے علاوہ اوپن مارکیٹ میں سبسڈی دے سکتے ہیں تو ایسا ممکن نہیں ہے لیکن ہم عدالت کے اس فیصلے کو کسی بھی صورت چیلنج نہیں کریں گے ‘ تاہم سننے میں آرہا ہے کہ کچھ اور لوگ اس فیصلے کو چیلنج کر نا چا رہے ہیں جو انکی اپنی مرضی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نومبر میں گنے کی کرشنگ شروع ہو جاتی ہے اور ہم اس میں بھی کسی بھی صورت تاخیر برداشت نہیں کریں گے اور اسی لئے پنجاب حکومت تمام فیصلے سوچ سمجھ کر مشاورت سے کر رہی ہے ۔

یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب پنجاب میں چالیس روپے کلو چینی فروخت ہو گی تو اس کی دوسرے صوبوں کو اسمگلنگ کیسے روکی جائے گی تو اس حوالے سے بھی حکومت منصوبہ بندی کر یگی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ رمضان بازاروں میں صوبائی حکومت کی طرف سے دی جانیوالی سبسڈی کے مطابق چینی فروخت ہو رہی ہے اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے علاوہ میں نے خود بھی کئی ایسے بازاروں کے دورے کئے ہیں ۔

ادھروفاقی وزیر صنعت وپیداوار میاں منظور احمد وٹو نے کہا ہے کہ نومبر 2008ء میں میری وزارت نے چینی درآمد کرنے کی سمری بھجوائی تھی لیکن ای سی سی نے اس کو منظور نہیں کیا تھا ، آئندہ چند ماہ تک شوگر پالیسی لائی جا رہی ہے جس کے تحت ملز مالکان کاشتکار کو اس کے گنے کے معیار کے مطابق فوری طور پر ادائیگی کرنے کے پابند ہونگے، صدر اور وزیراعظم فوری طور پر چینی کی قیمتوں کے بحران کو حل کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں اور تمام ذمہ داران کا خصوصی اجلاس بلایا جائے،ملک میں چینی کی کوئی کمی نہیں صرف قیمتوں کا مسئلہ ہے اور عدالت کی طرف سے ہمیں بھی جو حکم دیا جائے گا ہم اس کی پابندی کریں گے،شوگر ملیں پرائیویٹ ہیں اس لئے وہ حکومت کے کنٹرول میں نہیں، آئندہ سال دو لاکھ ٹن چینی مزید کم ہو گی جس کیلئے خام چینی امپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ٹی سی پی جو چینی باہر سے منگوائے گی اس پر حکومت سبسڈی دے گی اور آئی ایم ایف ہمیں سبسڈی سے نہیں روک سکتا۔

وہ گزشتہ روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے رہنمازکریا بٹ بھی موجود تھے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم عوامی ووٹوں سے اقتدار میں آئے ہیں اور یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ ہم عوامی مفاد کے خلاف کوئی کام کرے، موجودہ حکومت صدر آصف علی زرداری کی سربراہی میں عوامی مسائل کے حل کیلئے اقدامات کر رہی ہے اور ہمیں عوام کا تحفظ سب سے عزیز ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں اس وقت چینی کی کمی نہیں صرف قیمتوں کے تعین کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد صورت حال تبدیلی ہوئی ہے لیکن صوبائی حکومت اس فیصلے پر عملدرآمد کروانے کیلئے اقدامات کر رہی ہے اور اس کو صدر اور وزیراعظم کی بھی مکمل تا ئید حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2008ء میں پاکستان میں 47لاکھ ٹن چینی پیدا کی گئی تھی جبکہ رواں سال یہ کمی ہو کر 32لاکھ ٹن رہ گئی ہے اور اعداد وشمار کے مطابق آئندہ سال یہ 30لاکھ ٹن ہو جائیگی اور اس کمی کو پورا کرنے کیلئے باہر سے خام چینی درآمد کی جائیگی جبکہ ٹی سی پی بھی چینی منگوارہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اصل میں پاکستان میں گنے کی پیداوار مسلسل کم ہو رہی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ملز مالکان کی طرف سے کسانوں کو مقرر وقت پر ادائیگیاں نہ کرنا اور کٹوتی کرنا ہے اس لئے اب حکومت نے شوگر پالیسی لانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت نہ صرف گنے کی کاشتکار کیلئے علاقے مختص کئے جائیں گے بلکہ ملز مالکان کو بھی اس بات کا پابند بنایا جائے گا کہ وہ کاشتکاروں کو ان کے گنے کے معیار کے مطابق فوری طور پر ادائیگیاں کر دیں جو ایسا نہیں کریں گے ان کے خلاف یقینا کارروائی کی جائیگی۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک آج کل کا تعلق ہے تو شوگر ملیں پبلک نہیں بلکہ پرائیویٹ سیکٹر ہیں جو ہمارے کنٹرول میں نہیں آتی اور قیمتوں کا تعین کرنے کا اختیار بھی ہماری وزارت کے پاس نہیں۔ادھرشوگر ملز ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ ہم ایکس مل ریٹ 36روپے نہیں کر سکتے حکومت ہمیں گرفتار کرنا چاہتی ہے تو کر لے، شوگر ملوں پر حکومت کا کنٹرول قابل مذمت ہے اگر یہ شعبہ مسائل کا شکار ہوا تو 20لاکھ افراد بیروزگار ہو جائیں گے، چینی کے بحران سمیت تمام معاملے کی ذمہ دار حکومت ہے جس نے درست پالیسیاں نہیں بنائیں،ہم موجودہ حالات میں کاروبار جاری نہیں رکھ سکتے پنجاب حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے، عدالت نے بھی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے ہمارا موقف نہیں سنا اور دنیا میں کہیں بھی عدالت قیمتوں کا تعین نہیں کرتی۔

شوگر ملز ایسوسی ایشن کا اجلاس گزشتہ روز لاہور میں ان کے مرکزی دفتر میں ہوا جس کے بعد شوگر ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین جاوید کیانی اور صدر پنجاب ہارون اختر نے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے حوالے سے صحافیوں کو بریفنگ دی۔ جاوید کیانی نے کہا کہ حکومت پنجاب جس طرح شوگر ملوں پر پولیس کے پہرے بیٹھا رہی ہے اس سے ہمیں ملک دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے آج تمام شوگر ملیں پر صوبائی حکومت کا کنٹرول ہے اور آج ہمارے پاس اتنے پیسے بھی نہیں کہ ہم کام کرنے والے عملے کو ان کی تنخواہیں دے سکیں کیونکہ پنجاب کی 35شوگر ملیں اور ان کے سٹاک کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے اور ایک کلو چینی بھی باہر نکالنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے تمام شوگر ملوں پر تحصیل دار بٹھا دئیے گئے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ جب ہمیں چینی 36روپے میں نہیں پڑ رہی ہم اسے کس طرح اس قیمت میں فروخت کریں، حکومت اگر شوگر ملوں پر قبضہ کرکے چالیس روپے میں چینی فروخت کرنا چاہتی ہے تو کر لے لیکن ایسا ممکن نہیں۔ ہارون اختر نے کہا کہ حکومت نے صرف تین چار دنوں میں صوبائی سیکرٹری انڈسٹریز اور وفاقی سیکرٹری کو برطرف کر دیا ہے یہ ان کی نااہلی نہیں تو اور کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت اسمبلیوں میں اپنا جنگ لڑے ملوں پر حملے نہ کئے جائیں جس طرح آج کل شوگر ملوں کے خلاف کارروائیاں کرکے ان کا گلا گھونٹا جا رہا ہے وہ قابل مذمت ہے ۔