وفاقی کابینہ کا ملک میں پندرہ نومبر سے پندرہ مارچ 2010ء کے دوران گیس لوڈمینجمنٹ کا فیصلہ، سی این جی پلانٹس، صنعتی صارفین کو ہفتے میں دو دن گیس کی فراہمی معطل رہیگی، انڈسٹری چھٹی کی بجائے متبادل ذرائع استعمال کرسکتی ہے، نئی شوگر پالیسی کے تحت چینی کی کمی پورا کرنے کیلئے پانچ لاکھ ٹن خام اور پانچ لاکھ ٹن تیار چینی درآمد کی جائیگی، گڑ برآمد نہیں کیا جا سکے گا، گنے کے کاشتکار مل مالکان کی پرچی پر بینک سے رقم حاصل کر سکیں گے، قمر زمان کائرہ کی بریفنگ۔ اپ ڈیٹ

بدھ 4 نومبر 2009 19:34

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔4 نومبر ۔2009ء) وفاقی کابینہ نے پندرہ نومبر2009ء سے پندرہ مارچ2010ء کے دوران گیس لوڈمینجمنٹ ،شوگرپالیسی اور دھان کی خریداری سے متعلق پالیسی کی منظوری دیدی ہے،سی این جی پلانٹس سمیت صنعتی صارفین کو ہفتے میں دو دن گیس کی فراہمی معطل رہیگی،پہلے سے منظورشدہ کنکشن مکمل ہونے تک گیس کے نئے کنکشن فراہم نہیں کئے جائینگے،پندرہ فروری 2010ء تک سی این جی اور صنعتی کنکشن کی فراہمی بند رہیگی،نئی شوگر پالیسی کے تحت چینی کی کمی پورا کرنے کیلئے پانچ لاکھ ٹن خام اور پانچ لاکھ ٹن تیار چینی درآمد کی جائیگی ، گڑ کی تیاری کی اجازت ہوگی لیکن برآمد نہیں کیا جاسکے گا،گنے کے کاشتکار مل مالک کی فراہم کردہ پرچی پر کسی بھی بینک سے رقم حاصل کرسکیں گے، حکومت دھان کے کاشتکاروں سے اری سکس چھ سو روپے ،385 ایک ہزار روپے اور باسمتی 1250 روپے فی من خریدے گی ،پاسکو کو دس لاکھ ٹن دھان خریدنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔

(جاری ہے)

کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات قمر زمان کائرہ نے بتایا کہ کابینہ نے تین پالیسیوں کی منظوری دی ہے، جس میں گیس ، شوگر اور دھان سے متعلق معاملات شامل ہیں، انہوں نے بتایا کہ گیس پالیسی کے تحت پندرہ نومبر 2009ء سے پندرہ مارچ 2010ء کے دوران گیس لوڈ مینجمنٹ کرنا پڑیگی، تاہم گھریلو اور کمرشل صارفین کو بلاتعطل گیس کی فراہمی جاری رہیگی، صنعتی صارفین کیلئے دو دن گیس مینجمنٹ ہوگی، مختلف شہروں کیلئے مختلف ایام مقرر کئے گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں کہ صنعتی شعبہ ان دو دنوں میں چھٹی کرے، وہ متبادل ذرائع استعمال کرسکتا ہے، انہوں نے کہا کہ کابینہ کے فیصلے کے تحت سی این جی کے پلانٹس بھی ہفتے میں دو دن بند رہیں گے تاہم یوریا کھاد بنانے والی فیکٹریوں کو گیس فراہم کی جاتی رہیگی ، اسی طرح کے ای ایس سی کے گیس پر چلنے والے پلانٹس کو بھی لوڈ مینجمنٹ کے دوران تیل پر چلانا پڑیگا، تاہم اس سلسلے میں اضافی اخراجات وفاقی حکومت برداشت کریگی، انہوں نے بتایا کہ فیصلہ کے تحت نئے شہروں اور دیہات کو گیس کی فراہمی اس وقت تک نہیں کی جائیگی جب تک پہلے سے منظورشدہ علاقوں میں گیس کی فراہمی مکمل نہیں ہو جاتی،تاہم گیس پیدا کرنے والے علاقے اور صوبہ بلوچستان اس فیصلے سے مستثنیٰ ہونگے، اسی طرح دسمبر 2009ء فروری 2010ء تک سی این جی اور صنعتی شعبے کیلئے گیس کنکشن نہیں دیئے جائیں گے، انہوں نے بتایا کہ گیس بچانے کیلئے سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) 25 ہزار گیس کٹس صارفین کے میٹر کے ساتھ لگائے گی، چھ سو روپے مالیات کی اس کٹ کی قیمت تین اقساط میں وصول کی جائیگی، آئندہ سال ایک سال مزید کٹس لگائی جائینگی، تاکہ گیس کی بچت کا ایک امکانی جائزہ حاصل کیا جاسکے ، توقع ہے کہ اس اقدام سے اٹھائیس سے ساٹھ فیصد تک بجلی بچائی جاسکتی ہے جسے صنعتی شعبے کیلئے استعمال کیا جائیگا، وزیر اطلاعات نے بتایا کہ کابینہ نے شوگر پالیسی 2009-10ء کی بھی منظوری دی ہے،اس سے قبل گنا پیدا کرنے والوں اور مل مالکان کے ساتھ بھی تفصیلی اجلاس منعقد کیا گیا، اجلاس میں چاروں وزرائے اعلی اور چیف سیکرٹری صاحبان نے بھی شرکت کی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ہماری ملکی ضروریات 4.2 ملین ٹن ہے، توقع ہے کہ رواں سیزن میں تین ملین ٹن چینی پیدا ہوسکے گی، اس طرح ایک ملین ٹن سے زائد کی کمی ہے، جسے پورا کرنے کیلئے ایک ملین ٹن چینی درآمد کی جائیگی، جس میں سے پانچ لاکھ ٹن خام چینی اور پانچ لاکھ ٹن ریفائینڈ چینی شامل ہوگی ، خام چینی منگوانے کے حوالے سے مل مالکان سے مشاورت کی جائیگی، کیونکہ انہوں نے ہی اس کو پراسیس کر کے ریفائن کرنا ہے، خام چینی کی قیمت عالمی مارکیٹ میں 80 سے 100 ڈالر کا فرق ہے ،تاہم حکومت اپنی ملوں کی گنجائش کو مدنظر رکھتے ہوئے ضرورت کی تمام چینی خام شکل میں نہیں منگوا رہی، انہوں نے کہا کہ گڑ بنانے کی اجازت ہے تاہم اسے برآمد نہیں کیا جاسکے گا صرف ملکی ضروریات کیلئے استعمال کیا جائیگا، انہوں نے کہا کہ ملک میں اس وقت چینی کی کمی ہے ، صرف سستی چینی کی فراہمی ایک مسئلہ ہے، ہم بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذمہ داران ، یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن اور صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے مسئلے کے حل کیلئے حکمت عملی تیار کررہے ہیں اور وزیر خزانہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے ، اس وقت تیس فیصد چینی گھریلو صارفین اور ستر فیصد تجارتی اور صنعتی صارفین استعمال کرتے ہیں ، ہماری پہلی ترجیح گھریلو صارفین کو مناسب نرخوں پر چینی کی فراہمی ہے، انہوں نے کہا کہ سندھ میں یکم نومبر سے کرشنگ سیزن کا آغاز ہوتا ہے،کچھ ملیں یہ کام شروع کرچکی ہیں ،جبکہ آئندہ چند روز میں سندھ کی دیگر ملوں میں بھی کرشنگ کا آغاز ہو جائیگا، جبکہ پنجاب میں بھی پندرہ نومبر سے کرشنگ شروع ہو جائیگی اور پھر مارکیٹ میں نئی چینی آنا شروع ہوجائیگی، انہوں نے کہا کہ کابینہ کے اجلاس میں گنے کے علاوہ دیگر فصلوں سے چینی پیدا کرنے کا معاملہ بھی زیر غور آیا ، اب بھی بعض علاقوں میں گنے سے ہٹ کر دیگر طریقوں سے چینی پیدا کی جارہی ہے، کوشش کرینگے کہ گنے پر انحصار کم ہوسکے، انہوں نے کہا کہ گنے کے کاشتکاروں اور مل مالکان کے درمیان رقوم کی ادائیگی ایک مسئلہ ہوتی ہے اور بعض حالات میں کسانوں کو سالوں تک بھی رقوم کیلئے انتظار کرنا پڑتا ہے ، اس سلسلے میں سٹیٹ بینک ایک پالیسی وضع کررہاہے،مل مالک کی جانب سے کاشتکار کو ملنے والی پرچی کے ذریعے کسی بھی بینک سے رقم مل جائیگی ، انہوں نے کہا کہ کسان کی حوصلہ شکنی نہیں ہونی چاہئے ، کیونکہ اس سے گنے کی پیداوار متاثر ہوتی ہے، انہوں نے کہا کہ چینی کی قیمتوں اور فراہمی بارے کمیٹی میں صارفین کے نمائندوں کو بھی شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ شوگر ملیں بیگاس کے ذریعے جو بجلی پیدا کررہی ہیں حکومت ان کی حوصلہ افزائی کریگی اور انہیں اس بات پر آمادہ کیا جائیگا کہ سیزن نہ ہونے پر بھی وہ سارا سال بجلی پیدا کریں اور اس کیلئے کوئلے کو استعمال کیا جائے ، تاکہ حکومت پورا سال ان سے بجلی خرید سکے، انہوں نے کہا کہ کابینہ نے دھان کی خریداری کے حوالے سے بھی پالیسی منظور کی ہے ، دھان ہمارے ملک کی نقد آور فصل ہے ، ہم ایک ارب سے دو ارب ڈالر کے چاول ہر سال برآمد کرتے ہیں، پچھلے سال بھی فصل اچھی ہوئی تھی اور اس سال بھی اچھی فصل کی توقع ہے،سندھ میں فصل کی کٹائی شروع ہوچکی ہے اور پنجاب میں بھی جلد آغاز ہو جائیگا، انہوں نے کہا کہ عالمی منڈی میں کچھ عرصہ سے چاول کی قیمتوں میں کمی آئی ہے، باسمتی کی قیمت گزشتہ سال کے 1100 ڈالر سے کم ہو کر 838 ڈالر پر آگئی ہے ، اسی طرح اری 6 اوردیگر ورائٹی کی قیمت میں بھی کمی آئی ہے، ملک کے اندر بھی کسان کو کم قیمت مل رہی ہے، حکومت نے کسانوں کی مددکیلئے فیصلہ کیا ہے کہ اری سکس 600 روپے فی من ، 385دھان ایک ہزار روپے فی من جبکہ باسمتی 1250 روپے فی من خریدے جائیں گے، پاسکو کو دس لاکھ ٹن دھان خریدنے کی ہدایت کی گئی ہے ، اس مقصد کیلئے پچاس سے زائد مراکز کھل چکے ہیں اور چند روز میں اتنے مراکز مزید کھول دیئے جائیں گے ، انہوں نے کہا کہ تقریبا 5.76 ملین ٹن چاول ایکسپورٹ سر پلس ہوگا،جسے برآمد کرنے کیلئے اقدامات جاری ہیں۔