” بابا پھر دھماکہ ہوگیا اٹھ جاؤ “، پشاو، لوگ صبح سویرے زوردار دھماکوں کی آواز کے ساتھ ہی نیند سے افراتفری کے عالم میں اٹھے، رپورٹ
منگل 17 نومبر 2009 18:08
(جاری ہے)
اور تو اور ننھے منھے بچے بھی اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں اور ان کے ذہنوں پر اس کے انتہائی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
چند دن پہلے پشاور میں صبح کے وقت جب ایک دھماکہ ہوا تو میں اس وقت گھر پر موجود تھا۔ میری چھ سالہ بیٹی نے مجھے جگا کر کہا کہ او بابا پھر دھماکے کی آواز آئی ہے، یہ دیکھو ٹی وی پر پٹی بھی چل رہی ہے۔‘تھوڑی دیر کے بعد وہ کہتی ہے ’ کیا ہوگا، روزانہ دھماکے ، آج پھر ہم سکول نہیں جائیں گے، یہ کیا مصیبت ہے، پولیس کیوں نہیں پکڑتی ان کو۔پشاور میں گزشتہ دو ماہ سے جاری شدت پسندی کی تازہ لہر نے ویسے تو ہر شعبہ زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے تاہم اس کا سب سے زیادہ اثر تجارتی اور تعلیمی سرگرمیوں پر پڑا ہے۔شہر میں ہونے والے بڑے بڑے بم دھماکے اور خودکش حملے پرہجوم مقامات پر ہوئے تھے جن میں زیادہ تر بازاروں اور تجارتی مراکز کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان دھماکوں سے نہ صرف یہ کہ بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا بلکہ ان کی وجہ سے وسیع پیمانے پر مالی نقصانات بھی ہوچکے ہیں۔ان میں سینکڑوں دوکانات کے علاوہ کئی مارکٹیں بھی مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ ایک تاجر رہنما کے مطابق صرف پیپل منڈی دھماکے میں بارہ کے قریب مارکیٹوں کو نقصان پہنچا تھا۔ اس طرح پشاور صدر اور خیبر بازار میں ہونے والے دو دھماکوں سے ایک درجن کے قریب پلازوں کو نقصان پہنچا تھا جس میں سینکڑوں دوکانیں اور دفاتر قائم تھے۔شدت پسندی کے حالیہ واقعات کے بعد بازاروں اور تجارتی مراکز میں عوام کا رش کافی حد تک کم ہوگیا ہے۔ شہر کے تاجروں کا کہنا ہے جب سے امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی ہے تو اس کے بعد سے کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں اور خرید و فروخت میں پچاس فیصد سے زیادہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ان کے مطابق عوام سہمی ہوئی ہے اور وہ بازاروں پر جانے کی بجائے گھروں میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔پشاور شہر میں تجارتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ چند ہفتے قبل جب بم حملوں میں اضافہ ہوا تو سرحد حکومت نے چند دنوں کیلیے تمام تعلیمی ادارے بندکردیئے تھے تاہم اب سکول دوبارہ کھل گئے ہیں لیکن اس کے باوجود سکولوں میں حاضری اس جیسے نہیں رہی جو آج سے چندماہ پہلے تھی۔بالخصوص جمعہ کے روز تو سکولوں میں حاضری نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے کیونکہ اس سے پہلے پشاور میں ہونے والے زیادہ تر دھماکے جمعہ کے دن ہی پیش آئے تھے لہٰذا اس دن والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ بچوں کو سکول نہ بھیجا جائے۔مزید اہم خبریں
-
انوارالحق کاکڑ اور حنیف عباسی کی تکرار درحقیقت قومی خزانے کی چوری میں ملوث کرداروں کا اعتراف جرم ہے
-
پی ٹی اے نے ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے والوں کی موبائل سمز بلاک کرنے کی تجویزمستردکردی
-
ایک اور آٹو کمپنی کا گاڑی کی قیمت میں لاکھوں روپے کی کمی کا اعلان
-
گرمیوں کے آغاز پر عوام پر نیا "بجلی بم" گرانے پر غور
-
چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع شرم ناک عمل ہو گا
-
صنعت کار انڈسٹری لگائیں ، منافع کمانا آپ کا حق ہے‘بجٹ میں صنعتی پالیسی لا رہے ہیں.رانا تنویر حسین
-
ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا، 27سو ارب کے محصولات کی ریکوری کیلئے قانون بن چکا ہے ، ملک موجودہ محصولات سے تین گنا زیادہ محصولات اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے،محمد شہبا ز ..
-
سعودی عرب زراعت ، معدنیات، آئی ٹی،آئل ریفائنری ، سولر، پاورڈسٹری بیوشن اورپاور پروڈکشن میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے.وفاقی وزیرپیٹرولیم
-
ریونیوکلیکشن سب سے بڑا چیلنج ہے، سالانہ وصولیوں کا ہدف تین سے چار گنا کرپشن ،فراڈ اور لالچ کی نظر ہورہا ہے. شہبازشریف
-
بلاول بھٹو نے وزیراعظم سے ملاقات میں کابینہ میں شامل ہونے کیلئے مثبت جواب دیا
-
چیف جسٹس کی مدت کا فکس ہونا عدالت کے وسیع تر مفاد میں ہے
-
حافظ نعیم الرحمن سے محمود اچکزئی، اسد قیصر کی ملاقات، احتجاجی تحریک میں شمولیت کی دعوت قبول کر لی
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.