سردی کی لہر سوائن فلو کے مریضوں میں اضافہ، ویکسین غائب،سعودی عرب سے حجاج کی واپسی کے ساتھ وائرس کے پھیلاوٴ میں شدت آنے کا خدشہ ہے ماہرین

بدھ 16 دسمبر 2009 18:54

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین ۔ 16دسمبر۔ 2009ء) پاکستان میں سردی کی لہر میں اضافے کے ساتھ سوائن فلو وائرس کے پھیلاوٴ میں اضافہ ہو رہا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے حجاج کی واپسی کے ساتھ اس وائرس کے پھیلاوٴ میں شدت آنے کا خدشہ ہے۔پاکستان میں سوائن فلو سے اس وقت تک سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 9 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اسّی کے قریب مریضوں میں اس وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔

ہلاک ہونے والوں میں8 پاکستانیوں کے علاوہ ایک افغان خاتون بھی شامل ہے، جو محکمہ صحت کے مطابق صوبہ ہرات سے آئیں تھی اور پشاور میں ان کی ہلاکت ہوئی۔پاکستان ایوائن فلو پروگرام کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر عارف ذکا نے برطانوی ریڈیو کو بتایا کہ دو ماہ پہلے ہی اندازہ لگایا گیا تھا کہ سردیوں میں سوائن فلو پھل سکتا ہے اس لیے چاروں صوبوں اور فاٹا میں اینٹی وائرل میڈیسن بھیج دی گئی تھی اور اس کے ساتھ ڈاکٹروں اور صحت کے عملے کو ہدایت کی گئی کہ ماسک پہن کر مریض کا معائنہ کیا جائے۔

(جاری ہے)

پاکستان انفیکشن سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر رفیق خانانی کا کہنا ہے کہ سوائن فلو موسمی زکام سے تھوڑا زیادہ خطرناک ہے اور اس کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے، سرد اور خشک موسم میں اس کے پھیلنے کی رفتار زیادہ ہوتی ہے چونکہ یہ ایک فرد سے دوسرے فرد میں ماحول کی وجہ سے پہنچتا ہے اگر ماحول سرد ہو تو اس میں اس کی بقا بڑھ جاتی ہے جبکہ اگر موسم گرم ہو تو یہ وائرس فوری مرجاتا ہے۔

ڈاکٹر رفیق کے مطابق یہ امکان پہلے سے ہی تھا کہ جیسے ہی سعودی عرب سے حجاج واپس آئیں گے تو پورے پاکستان میں سوائن فلو کا وائرس پھیلے گا۔ ان کے مطابق حج کے موقع پر مختلف ممالک اور خطوں سے لوگ آئے ہوئے تھے جن میں سے کچھ میں یہ وائرس پہلے سے موجود تھا۔تاہم پاکستان ایوائن فلو پروگرام کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر عارف ذکا حجاج کی واپسی پر سوائن فلو پھیلنے کے امکانات کو رد کرتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اگر بیس پچیس لاکھ کے مجمع میں سات آٹھ ہلاکتیں ہوجاتی ہیں تو یہ کوئی بڑی ہلاکتیں نہیں ہیں۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ حاملہ خواتین، عارض? قلب، سانس، دمے کی بیماریوں اور ذیابیطس میں مبتلا مریضوں میں سوائن فلو پھلنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ۔کراچی کے آغا خان ہسپتال کی انفیکشن کنٹرول کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر بشریٰ جمیل کا کہنا ہے کہ ان کے پاس زیادہ تر نوجوان مریض آر رہے ہیں جن کی عمر بیس سال سے چالیس تک ہے اور ہر ہفتے قریباً آٹھ کیسوں کی تصدیق ہو رہی ہے۔

پاکستان میں اس وقت صرف دو ہسپتالوں کراچی کے آغا خان ہسپتال اور اسلام آباد میں واقع قومی ادارہ برائے صحت کی لیبارٹری میں سوائن فلو وائرس کی ٹیسٹ کی سہولت موجود ہے جبکہ اس وائرس سے بچاوٴ کی ویکسین دستیاب نہیں ہے۔پاکستان انفیکشن سوسائیٹی کے صدر ڈاکٹر رفیق خانانی کہتے ہیں کہ قومی ادارہ برائے صحت کی لیبارٹری میں بھی محدود سہولیات ہیں۔

جہاں سے رپورٹ آنے میں تین چار دن لگ جاتے ہیں، اس لیے یہ رپورٹ کوئی خاص مددگار ثابت نہیں ملتی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’رپورٹ اگر تین چار گھنٹے میں دستیاب ہو تو اس کی بنیاد پر مریض کا علاج کرنے میں آسانی ہوتی موجودہ صورت حال میں لوگوں میں آگہی کے لیے تو یہ ٹیسٹ فائدہ مند ہوسکتا ہے مگر مریض کے علاج کے لیے نہیں۔حکومت کا کہنا ہے کہ سوائن فلو کی نشاندہی کے لیے کراچی، لاہور، ملتان، راولپنڈی، پشاور اور کوئٹہ کے ہوائی اڈوں پر اسکینر لگائے گئے ہیں۔

پاکستان ایوائن فلو پروگرام کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر عارف ذکا کے مطابق ’ان اسکینرز کی کارکردگی محدود ہے، کیونکہ صرف یہ بخار میں مبتلا مریض کی نشاندہی کر سکتے ہیں، اب یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ بخار سوائن فلو سے ہوا ہو، یہ بخار ملیریا، ٹائیفائیڈ کا بھی ہوسکتا ہے۔ان کے مطابق ہوائی اڈوں پر سوائن فلو کے مریض کو روکا نہیں جا سکتا ہے، اس سے دیگر مسافروں کو یہ وائرس لگنے کا خدشہ ہوتا ہے، پورے ملک میں صرف کراچی ایئرپورٹ پر ایک علیحدہ وارڈ ہے جہاں مشتبہ مریضوں کو الگ رکھا جاسکتا ہے۔

ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نومبر سے فروری تک یہ وائرس وبائی صورت اختیار کر سکتا ہے تاہم سرکاری سطح پر صحت کے حوالے سے انتظامات ناکافی نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر عارف ذکا بھی اس سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کے تمام سرکاری اور نجی ہسپتالوں کو ملا بھی لیں تو چند لاکھ بستر بنتے ہیں اور اگر پورے پاکستان میں بیس لاکھ لوگوں کو سوائن فلو ہو جائے تو ان سب کو ہسپتال میں داخل کرنا ممکن ہی نہیں ہے، اس لیے جن مریضوں کے مرض میں پیچیدگیاں نہیں ہوتیں ان کا گھر میں ہی علاج کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں سوائن فلو سے بچاوٴ کی ویکسین ابھی تک دستیاب نہیں ہے، پاکستان ایوائن فلو پروگرام کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر عارف ذکا کے مطابق حکومت نے عالمی ادارہ صحت سے رابطہ کیا ہے اور دسمبر کے آخر تک امید ہے ویکیسن مل جائے گی۔ان کے مطابق ’حاملہ خواتین، سکول جانے والے بچوں، محکمہ داخلہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کے لوگوں کو ویکسین اولیت بنیاد پر دستیاب ہوگی، اس ویکسین کی مقدار کا تعین نہیں ہوسکا ہے کبھی کہتے ہیں آبادی کا دو فیصد فراہم کی جائے گی کبھی کچھ کہتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :