ملک میں کوئی ہیلتھ پالیسی ہی نہیں ہے، آخری پالیسی 2009 میں آئی تھی، پالیسی کے بغیر صحت کے مسائل کیسے حل ہوں گی ،ڈاکٹر مرزا علی اظہر

ملک میں عطائی معا لجین کی تعداد 60 لاکھ جبکہ مستند معا لجین کی تعداد 175,000 ہے تو لوگوں کی اکثریت کو صحیح علاج کیسے میسر آسکتا ہے، سابق سیکرٹری پی ایم اے

پیر 18 ستمبر 2017 13:17

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 ستمبر2017ء) پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری جنرل ڈاکٹر مرزا علی اظہر نے کہا ہے کہ صحت کے اداروں سے جب تک سیاسی اثرورسوخ اور کرپشن ختم نہیں کیا جاتا، اس وقت تک ان اداروں سے غریب عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا، ملک میں عطائی معا لجین کی تعداد 60 لاکھ جبکہ مستند معا لجین کی تعداد 175,000 ہے تو لوگوں کی اکثریت کو صحیح علاج کیسے میسر آسکتا ہے۔

وہ گزشتہ روز پاکستان میں صحت کے مسائل، عوام کے حقوق اور حکومت کی ذمہ داریاں کے موضوع پر جسٹس(ر)حاذق الخیری کی زیر صدارت شوری ہمدرد کراچی کے اجلاس سے ایک مقامی ہال میں خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں کوئی ہیلتھ پالیسی ہی نہیں ہے، آخری پالیسی 2009 میں آئی تھی، پالیسی کے بغیر صحت کے مسائل کیسے حل ہوں گی ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہی ہے۔

پاکستان میں اوسط عمر66.6 فیصد جبکہ بنگلہ دیش میں 70.7 اور سری لنکا میں 74.2 فیصد ہے۔ شرح اموات اطفال فی ہزار 69 ، انڈیا میں 41.4، ملیشیا7.2 ہے کیونکہ مہاتر محمد کی حکومت نے اس ضمن میں بہت کام کیا تھا۔زچگی کے دوران مائوں کی شرح اموات پاکستان میں دس ہزار میں 170 ، چین میں 32اور ملائیشیا میں 29ہے۔ انہوں نے کہا کہ اضافہ آبادی میں البتہ پاکستان سب سے آگے ہے اور اگر اس مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو یہ قابو سے باہر ہو جائے گا۔

ملک میں ہر منٹ میں ایک بچہ کسی متعدی بیماری، اسہال یا سانس کی تکلیف سے مر جاتا ہے۔چار لاکھ بچے زندگی کے پہلے سال میں لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گٹکا، پان چھالیہ اور نسوار کے استعمال سے ملک میں امراض دہن میں اضافہ ہو رہا ہے، ایک لاکھ میں 177 ٹی بی کے مریض ملیں گے، ملیریا سے لوگ مرتے ہیں جو دنیا میں اب کہیں نہیں ہو رہا ہے۔ 34 فیصد عورتوں کا وزن کم، 65 فیصد میں خون کی کمی اور 45 فیصد بچے بھی انیمیا کا شکار ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صحت کے مسائل کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں صحت و تعلیم نہیں ہوتی بجٹ کم رکھا جاتا ہے اس میں سے بھی وقت ضرورت پیسہ دوسرے کاموں کے لیے نکال لیا جاتا ہے۔ڈاکٹر رضوانہ انصاری نے کہا کہ اضافہ آبادی کو کنٹرول کرنا بے حد ضروری ہے اس مقصد کے لیے فیملی پلاننگ کے شعبے کو مزید فعال اور موثر بنایا جائے۔دیہی علاقے صحت کی سہولتوں سے محروم ہیں وہاں ڈاکٹروں اور نرسوں کو تعینات کیا جائے، نرسنگ کے پیشے کی عزت کی جائے اور بیماریوں پر سیاست نہ کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ارباب اختیار کو شعبہ صحت کے بارے میں سنجیدہ رویہ اپنانا چاہیے۔

متعلقہ عنوان :