ارکان سینٹ کا جعلی ادویات کی تیاری میں ملوث کمپنیوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ

منگل 6 اپریل 2010 13:59

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین ۔6اپریل ۔2010ء)ارکان سینٹ نے جعلی ادویات کی تیاری میں ملوث کمپنیوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہریو ں کیلئے ہسپتالوں کو فراہم کی جانے والی 50 فیصد ادویات جعلی ہوتی ہیں بھارت سے سمگل ہو کر آنے والی ادویات کے اصلی یا جعلی ہونے بارے بھی عوام کو علم نہیں-جعلی ادویات ہر جگہ مل رہی ہیں‘ بیمار آدمی ان ادویات کی وجہ سے مزید بیمار ہو جاتا ہے-منگل کو سینٹ میں جعلی ادویات سے متعلق بحث میں حصہ لیتے ہوئے عبدالحسیب خان نے ملک میں جعلی ادویات کی تیاری پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ ملک میں اسی فیصد مقامی کمپنیاں ادویات تیار کررہی ہیں جبکہ بیس فیصد غیرملکی کمپنیوں کی ادویات استعمال ہوتی ہیں۔

جعلی ادویات کی تیاری میں ملوث کمپنیوں کے خلاف صرف بیان بازی نہیں کرنی چاہئے اس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

اگر کہیں اس طرح کی ادویات تیار ہو رہی ہوں تو اس کی اطلاع پولیس اور ایف آئی اے کو دینی چاہئے۔ ڈاکٹر اسماعیل بلیدی نے کہاکہ جعلی ادویات کی روک تھام کے لئے سنجیدگی سے اقدامات کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو پہلے چیک کرے کہ جعلی ادویات تیار ہورہی ہیں یا نہیں۔

اگر جعلی ادویات تیار ہورہی ہیں تو اس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے چاہے وزارت صحت کے افسران ہوں۔ حاجی عدیل نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ انڈیا سے سمگل ہوکر جو ادویات پاکستان آتی ہیں ان کے متعلق بھی لوگوں کو معلوم نہیں کہ یہ اصل ہیں یا جعلی ہیں۔ پاکستان کے شہریوں کے لئے ہسپتالوں کو جو دوائیں دی جا رہی ہیں ان میں پچاس فیصد جعلی ہیں۔

ادویات کی قیمتوں پر بھی کوئی کنٹرول نہیں۔ یونان اور ہومیوپیتھک ادویات بھی مہنگی ہوگئی ہیں۔ ملک میں جعلی ادویات موجو ہیں یہ ایک حقیقت ہے اس کو تسلیم کرنا چاہئے۔ اسحاق ڈار نے کہاکہ سب کو پتہ ہے کہ جعلی ادویات کا مریضوں پر کیا اثر پڑتا ہے۔ اس کی روک تھام کے لئے صوبوں اور مرکز کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ بچوں کی ویکسین کی مدت کو بڑھانے کے لئے اس میں مرکری کا استعمال ہو رہا ہے جو بچوں کی صحت کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔

حکومت کو جعلی ادویات کی روک تھام کے لئے باضابطہ پالیسی وضع کرنی چاہئے۔ صرف تقریریں نہ کی جائیں حکومت کو جعل سازوں کے خلاف ایکشن لینا چاہئے۔ قائد حزب اختلاف وسیم سجاد نے کہاکہ پاکستان میں بے شمار کمپنیاں غیرمعیاری اور ملاوٹ شدہ ادویات تیار کررہی ہیں۔ ڈرگ انسپکٹر صوبائی اور وفاق کی سطح پر موجود ہیں۔ ادویات کو چیک کرنے کا میکنزم موجود ہے مگر اس کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔

ڈرگ انسپکٹر بھی اختیارات کا ناجائز استعمال کررہے ہیں۔ جعلی ادویات بنانے والوں کو سخت سے سخت سزائیں دینے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ کہیں گے کہ پاکستان کی سب ادویات خراب ہیں تو اس کا اثر برآمدات پر پڑے گا۔ انہوں نے کہاکہ انسپکٹرزکے اندر ذاتی عناد نہیں ہونا چاہئے اس کی ٹرننگ کا بندوست کرکے نگرانی کا نظام وضع کیاجائے۔ فوزیہ فخرالزمان اور کرنل (ر) طاہر مشہدی نے کہاکہ جعلی ادویات ہر جگہ مل رہی ہیں۔

بیمار آدمی ان ادویات کی وجہ سے مزید بیمار ہو جاتا ہے۔ گلی محلوں میں قائم کئے جانے والے چھوٹے سٹوروں پر جعلی ادویات ملتی ہیں۔ پوری قوم خرابی صحت میں مبتلا ہے۔ ملک کا نام روشن کرنے کے لئے ایک صحت مند قوم ضروری ہے۔ ملک میں تمام جعل سازیاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ملی بھگت سے ہوتی ہیں کیونکہ یہ کمپنیوں سے رقوم وصول کرتے ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد نے کہاکہ ادویات کی تیاری کے حوالے سے موجود قانون پر نظرثانی کی ضرورت ہے کیونکہ ہماری ادویات کی نعصت کامیاب جا رہی ہے۔

ڈرگ مافیا کی انڈر ورلڈ کا خاتمہ ضروری ہے۔ وزارت صحت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جعل سازی کو کنٹرول کرنے کے لئے مؤثر اقدامات کرنے کے لئے ڈرگ کنٹرول کے نظام کو درست کرے۔ زاہد خان نے کہاکہ وزارت صحت میں بے پناہ کرپشن ہو رہی ہے۔ وزیر صحت کو اس کانوٹس لینا ہو گا اور جعلی ادویات کی روک تھام کے لئے مربوط نظام وضع کریں کیونکہ یہ قوم کی صحت کا مسئلہ ہے اور غریب افراد ان سے متاثر ہو رہے ہیں۔

گھروں کے اندر لوگ ادویات تیار کرکے سستی بیچ رہے ہیں اور لوگ خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے س سستی دوائی خریدی ہے۔ سردار جمال لغاری نے کہاکہ ملک کے 16 کروڑ عوام جعلی ادویات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ امیر لوگ تو امپورٹ ادویات استعمال کرتے ہیں۔ ڈرگ انسپکٹرز اور ایف آئی اے نے مل کر جعلی ادویات کا خاتمہ کرنا ہوتا ہے مگر جرائم پیشہ افراد نے انڈر ورلڈ بنا رکھی ہے جو لوٹ مار کررہے ہیں۔

وزارت صحت اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔ حاجی غلام علی نے کہاکہ ملک اور نظام کو چلانے کے لئے قانون کی حکمرانی ضروری ہے۔ ایسی پالیسی وضع کی جائیں جن سے ڈاکٹر اور جعل سازی میں ملوث کمپنیاں بھی نہ بچ سکیں۔ معیار پر پورا اترنے والی کمپنیوں سے ہی ہسپتالوں کے لئے ادویات خریدی جائیں۔ کمپنیاں بڑے پیمانے پر منافع کما رہی ہیں اس کی روک تھام ضروری ہے۔

سلیم سیف اللہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ امریکہ اور چین جیسے ترقی یافتہ ممالک میں عوام کی صحت پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ برطانیہ میں بھی بجٹ کا ایک بڑا حصہ صحت کی سہولیات کے لئے مختص کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ باقی معاملات کو کنٹرول کرنے کے لئے ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی گئی ہیں مگر صحت جوانتہائی اہم مسئلہ ہے اس کے لئے کوئی اتھارٹی موجود نہیں۔

جعلی ادویات کی مانیٹرنگ کے لئے ایک ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جانی چاہئے۔ ادویات کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں غریب آدمی کس طرح اپنے خاندان کاعلاج کرائے گا۔ الیاس بلور نے کہاکہ پاکستان کی میڈیکل انڈسٹری کا زیادہ حصہ انتہائی اچھا ہے۔ جعل سازی میں ایک مخصوص مافیا ملوث ہے۔ اس کو پکڑنا ہو گا۔ قانون موجو ہے مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ اگر کوئی رشوت دے گا تو اس کی بڑی سے بڑی غلطی معافی ہو جاتی ہے۔