سماجی رابطوں میں کمزوری صحت خراب کرتی ہے‘ تحقیق

سماج اور معاشرے سے دور افراد ذہنی ہی نہیں جسمانی امراض کے شکار بھی ہوسکتے ہیں

جمعرات 16 نومبر 2017 13:05

لندن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 نومبر2017ء) سماجی و معاشرتی رابطوں میں کمزوری اور صلاحیت کا نہ ہونا ڈپریشن، یاسیت اور دیگر ذہنی عارضوں کی وجہ بنے کے ساتھ جسمانی صحت کی خرابی کی بھی اہم وجہ بن سکتا ہے۔ذہنی تنا اور تنہائی اگرچہ سماجی روابط کی کمزوری کو ثابت کرتے ہیں لیکن جو لوگ سماجی روابط اور معاشرتی میدان میں کمزور ثابت ہوتے ہیں ان کی جسمانی صحت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔

ہیلتھ کمیونی کیشن نامی تحقیقی مجلے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس ضمن میں 775افراد پر مشتمل گروپ کا ایک سروے کیا گیا ہے جس میں 18سے 91برس تک کے لوگ شامل تھے۔ ان تمام رضاکاروں سے آن لائن سوالات کیے گئے تھے جن میں ان کے ذہنی تنا، تنہائی، سماجی روابط اور معاشرے میں رہنے کی مہارت کے ساتھ ساتھ ذہنی و جسمانی صحت کے بارے میں بھی پوچھا گیا تھا۔

(جاری ہے)

اس سروے میں سماجی روابط کی بہتری اور خرابی سے مراد یہ ہے کہ بعض لوگ دوسرے لوگوں سے بہت اچھی طرح بات چیت اور میل ملاپ رکھتے ہیں جبکہ کچھ افراد اس میں ناکام رہتے ہیں اور دوسروں سے اپنے خیالات کا بہتر طور پر تبادلہ نہیں کرسکتے۔ اب ثابت ہوا ہے کہ یہ کمی خود خرابی صحت کی وجہ بھی ہوسکتی ہے۔سروے میں چار اہم سماجی عوامل کو شامل کیا گیا تھا: اول دوسروں کو جذباتی مدد فراہم کرنا، دوم خود کو کھولنا تاکہ وہ دوسروں سے اپنی ذاتی معلومات کا تبادلہ کرسکیں، سوم دوسروں کی نامناسب بات پر اصولی مقف اختیار کرنا، اور چہارم تعلقات قائم کرنا جس میں دوسروں کے سامنے خود کو متعارف کرانا اور روابط بڑھانا جیسی بنیادی اور اہم باتیں ہوتی ہیں۔

اس سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اکیلا پن ایک خطرناک رجحان ہے جو جسمانی و نفسیاتی، دونوں طرح سے بہت مضر ہوتا ہے۔ اس کا جسم کو وہی نقصان ہوتا ہے جو تمباکو نوشی، موٹاپے اور ورزش نہ کرنے سے ہوتا ہے۔ اگر ہمارے گھر کی چابی کھوجائے تو اس کی تشویش غیر معمولی ہوتی ہے لیکن چابی ملتے ہی یہ پریشانی غائب ہوجاتی ہے۔ معاشرے سے کٹے ہوئے اکیلے افراد کو ہمہ وقت اسی تنا کا سامنا ہوتا ہے اور وہ اس سے فرار نہیں ہوپاتے۔

آخرکار یہ مزاج انہیں ہر طرح سے نقصان پہنچاتا ہے۔تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ معاشرے میں گھلنے ملنے سے یہ کیفیت بہت تیزی سے دور ہوتی جاتی ہے۔ بسا اوقات اس ضمن میں معالجین اور نفسیاتی ماہرین کی مدد بھی لی جاسکتی ہے۔ اس سے قبل کئی اہم مطالعوں سے ثابت ہوچکا ہے کہ دوستوں اور عزیزوں کے درمیان بیٹھنے اور خوشگوار ماحول میں بات کرنے کا دماغ پر عین وہی اثر ہوتا ہے جو کسی درد کش دوا کا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک دوسرے کا دکھ درد سننے سے انسان کئی امراض سے محفوظ رہتا ہے۔