پاکستان آئندہ 3 سالوں تک پولیوفری ملک بن جائے گا،نصیرخان،پچھلے 10سالوں میں پولیو سے متاثرہ افراد کی تعداد 99.9 فیصد کم ہوئی،رواں سال ملک میں پولیو کے صرف 3 3کیسز سامنے آئے،پاکستان میں پولیو کی بڑی وجہ سرحدی آمدورفت ہے،افغانستان سے مل کر پولیو سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں،وفاقی وزیر صحت کی پریس کانفرنس

جمعرات 23 نومبر 2006 14:33

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔23نومبر۔2006ء) وفاقی وزیرصحت محمد نصیر خان نے کہا ہے کہ ملک میں دس سال کے دوران پولیو سے متاثرہ افراد کی تعداد 99.9 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اور رواں سال صرف پولیو کے 33 کیسز منظر عام پر آئے ہیں جن میں سرحد اور فاٹا کے 19 بلوچستان کے 9 ،سندھ کے 7 اور پنجاب کے 2 پولیو کیسز شامل ہیں ۔ تاہم حکومتی اقدامات کے باعث آئندہ تین سال کے دوران پولیو فری بنایاجائے گا۔

وہ جمعرات کے روز یہاں اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر سیکرٹری ہیلتھ سید انور محمود ،ڈی جی ہیلتھ جنرل (ر) شاہدہ ملک اور عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر کے نمائندہ ڈاکٹر ڈیوڈ ایمن بھی موجود تھے۔ وفاقی وزیر صحت نے کہا کہ 1980 میں پورے پاکستان میں 30 ہزار کے قریب پولیو سے متاثرہ افراد تھے جن کی شرح گزشتہ 10سال کے دوران 99.9 فیصد کم ہوئی ہے اور رواں سال صرف پولیو کے 33 کیسز سامنے آئے ہیں ۔

(جاری ہے)

جن میں فاٹا اور سرحد کے 15،بلوچستان کے 9،سندھ کے 7 اور پنجاب کے 2 کیسز شامل ہیں اور پاکستان میں پولیو کی بڑی وجہ سرحد پر ہمسایہ ممالک سے آمدورفت ہے جس میں پولیو کے متاثرہ کیسز سامنے آ رہے ہیں اور اس کیلئے افغانستان کے ساتھ مل کر حکمت عملی تیار کر رہے ہیں تاکہ مذکورہ خطے سے اس مرض کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اورا س عمل میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سمیت تمام بین الاقوامی ادارے پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ موجود حکومت ملک سے بیماریوں کے خاتمے اور عوام کو صحت کی بنیادی سہولیات مہیا کرنے کیلئے سنجیدہ ہے اور اس کے لئے تمام ضروری اقدامات کر رہی ہے۔ جس کے تحت پولیو سمیت تمام مہلک امراض کا ملک سے خاتمہ کیاجا سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ آزا دکشمیر کے نتائج اس حوالے سے حوصلہ افزا ہیں کہ گزشتہ چند سالوں سے وہاں پر پولیو کا کوئی کیس منظر عام پر نہیں آیا۔

جبکہ مذکورہ مہم کے دوران 32 ملین بچوں کو پولیوکے قطرے پلائے گئے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام میں اس بارے میں مزید شعور اجاگر کیا جائے اور اس وقت یہ مرض انڈیا ،نائجیریا ،افغانستان اور پاکستان میں شامل ہیں ۔ تاہم پاکستانی حکومت کے مثبت اقدامات کے باعث اس مرض پر کنٹرول میں مدد مل رہی ہے اور اب یہ مرض ملک کے صرف 12ضلعوں تک محدود رہ گیا ہے اور وہاں بھی اس پر قابو پانے کیلئے تمام ضروری اقدامات کئے گئے ہیں ۔

اور اس عمل میں سیاست سے بالاتر ہو کر تمام سیاسی رہنما حکومت کے شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں۔ اس موقع پر ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر کے مشیر ڈاکٹر ڈیوڈ ایمن نے کہا کہ پولیو ایک وائرس کیوجہ سے پھیلتا ہے۔ جو بچوں میں فالج کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لئے اس موذی مرض سے بچاؤ کیلئے اقدامات نہایت ضروری ہیں کیونکہ یہ مرض ایک بچے سے دوسرے بچے تک منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اس لئے ضروری ہے کہ بچوں کو اس سے بچاؤ کی ویکسئین پلائی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اور دوسرے بین الاقوامی ادارے اس مرض کیخلاف متحرک کام کی وجہ سے اب صرف سالانہ 1500 بچے اس مرض کا شکار ہوتے ہیں اور اس مرض کے دنیا سے مکمل خاتمے کیلئے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں اس کے اثرات پر بھی قابو پا لیا جائے گا۔ پاکستان میں جن اضلاع میں پولیو کے کیسز منظر عام پر آئے ہیں ان میں سرحد کے افغان بارڈر سے ملحقہ اضلاع ، بلوچستان میں کوئٹہ ،پشین ،قلعہ عبداللہ اور جعفر آباد ،سندھ میں سکھر ،کراچی ،نوشہرو فیروز او رعمر کوٹ جبکہ پنجاب میں ملتان اور مظفر گڑھ شامل ہیں ۔

متعلقہ عنوان :