تعلیم، صحت اور سوشل سیکٹر میں بنیادی سہولیات اب وفاق نہیں صوبے فراہم کریں گے،عبدالحفیظ شیخ، دالوں، آٹے اور چاول پر سبسڈی ختم نہیں کی، حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات منجمد کر دیئے گئے اس سے مہنگائی کم ہو گی، پولیس، فوج اور عدلیہ کے ملازمین کو تنخواہوں میں 50 فیصد اضافہ نہیں ملے گا، وزراء کی موجودہ تنخواہوں میں کمی کی گئی ہے، آئی ایم ایف کوئی طاقت نہیں محض ایک ادارہ ہے، پاکستان اپنے فیصلے خود کرتا ہے، ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے نفاذ کیلئے تفصیلی مباحثے کی ضرورت ہے، بجٹ میں لفظوں کا کوئی کھیل نہیں کھیلا گیا نہ منی بجٹ آئے گا، وزیر خزانہ کی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس

اتوار 6 جون 2010 16:39

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔06جون۔2010ء) وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ اب وفاقی بجٹ کی اہمیت پہلے سے کم ہوگئی ہے۔ تعلیم، صحت اور سوشل سیکٹر میں بنیادی سہولیات اب وفاق نہیں صوبے فراہم کریں گے۔ جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافے کا اطلاق اشیائے خوردونوش پر نہیں ہوگا نہ مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ بجٹ خسارہ 4 فیصد رکھا گیا ہے دالوں، آٹے اور چاول پر سبسڈی ختم نہیں کی۔

حکومت کے تمام غیر ترقیاتی اخراجات منجمد کردیئے گئے اس سے مہنگائی کم کرنے میں مدد ملے گی۔ آئندہ تین ماہ میں ٹیکسوں کی شرح میں مزید کمی کی جائے گی۔ پولیس، فوج اور عدلیہ کے ملازمین کو تنخواہوں میں 50فیصد اضافہ نہیں ملے گا۔ وزراء کی موجودہ تنخواہوں میں دس فیصد کمی کی گئی ہے  سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا اطلاق خود مختار کارپوریشنوں اور اداروں پر نہیں ہوگا ان کا تنخواہوں کا سٹرکچر اپنا ہوتا ہے  پے اینڈ پنشن کمیٹی کی سفارشات پر مکمل عملدرآمد کیلئے وقت درکار ہے بجٹ میں کم آمدنی والے لوگوں کو زیادہ آمدنی والوں سے الگ کرکے ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ہم نے قیمتوں کا تعین اداروں پر چھوڑ دیا ہے   آئی ایم ایف کوئی طاقت نہیں محض ایک ادارہ ہے  پاکستان اپنے فیصلے خود کرتا ہے ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے نفاذ کیلئے تفصیلی مباحثے کی ضرورت ہے  بجٹ میں لفظوں کا کوئی کھیل نہیں کھیلا گیا نہ منی بجٹ آئے گا ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے وزارت خزانہ میں سیکرٹری خزانہ سلمان صدیق  چیئرمین ایف بی آر اور دیگر وفاقی سیکرٹریوں کے ہمراہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہاکہ بجٹ میں کوئی چیز خفیہ نہیں رکھی گئی ہے نہ فعال میڈیا کی موجودگی میں ایسا ہوسکتا ہے میڈیا بجٹ پر بحث کے دوران حقائق کے سامنے رکھے اور حکومت کے بارے میں عوام کے خیالات ان پر چھوڑ دیئے جائیں بجٹ کے بارے میں جو ”ہوا“ کھڑا کیا جاتا ہے اسے کم کیا جانا چاہیے موجودہ بجٹ کے بارے میں بھی ہر چیز کے بارے میں لوگوں کو پہلے سے پتہ تھا ہم نے قیمتوں کا تعین اداروں پر چھوڑ دیا ہے اور کوشش کی ہے کہ بہت زیادہ ردوبدل نہ ہو تاکہ لوگ سکون میں رہیں کسٹم ڈیوٹی میں اضافہ نہ کرنا بہت بڑا فیصلہ ہے بلکہ 29 چیزوں میں کمی کی گئی ہے ہمیں جہاں بھی گنجائش ملی قیمتیں کم کی گئیں انکم ٹیکس کے معاملے میں بھی لوگوں کو ریلیف دیا گیا اور ٹیکس چھوٹ کی حد ایک لاکھ سے بڑھا کر تین لاکھ روپے سالانہ کردی گئی ہے اب 25 ہزار کی ماہانہ آمدن والا شہری ٹیکس نہیں دے گا ۔

انہوں نے کہاکہ سیلز ٹیکس میں بھی اصلاحات کی کوشش کی گئی این ایف سی کے تحت قابل تقسیم محاصل میں صوبوں کو 52 فیصد حق دیا گیا ہے صوبوں کے ترقیاتی کام بھی پاکستان کے لوگوں کیلئے ہیں اب صحت  تعلیم اور سوشل سیکٹر کے دیگر معاملات میں بنیادی سہولیات وفاق نہیں صوبے فراہم کریں گے ہم نے وسائل صوبوں کے سپرد کردیئے ہیں تاکہ وہ دل کھول کر عوام کو سہولیات فراہم کرسکیں پہلے کچھ چیزیں مشترکہ ہوتی تھیں جن سے ابہام پیدا ہوتا تھا اب وفاقی بجٹ کی اہمیت پہلے سے کم ہوگئی ہے جو اچھی بات ہے ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ کابینہ کے ارکان کو 50 فیصد ایڈہاک الاؤنس نہیں ملے گا وفاقی وزراء کی موجودہ تنخواہوں میں 10فیصد کمی کی گئی ہے 50فیصد ایڈہاک الاؤنس ان اداروں کو نہیں ملے گا جو پہلے ہی لے رہے ہیں ان میں پاک فوج پولیس اور عدلیہ کے محکمے شامل ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ پے اینڈ پنشن کمیٹی کی سفارشات پر مکمل عملدرآمد کیلئے وقت درکار ہے سرکاری ملازمین کے مکانوں کی سیلنگ کے معاملے پر بھی منصوبہ بندی اور اصلاحات کی جارہی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف سے حکومت کا معاہدہ تھا کہ ویلیو ایڈڈ ٹیکس یکم جولائی سے نافذ ہوگا لیکن پاکستان ایک خودمختار ملک ہے جو اپنے فیصلے خود کرتا ہے آئی ایم ایف قرضے دینے والا ایک ادارہ ہے جسے طاقت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اس ادارے کی ذمہ داری ہے کہ کسی بھی ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے مدد فراہم کرے اس کا اپنا ایک طریقہ کار ہے جو قرضہ دینے والے بینکوں کی طرح ہوتا ہے اور قرض واپس کرنا پڑتا ہے ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے نفاذ کیلئے تفصیلی بحث و مباحثے کی ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کے تمام غیر ترقیاتی اخراجات منجمد کردیئے گئے اس سے مہنگائی کم کرنے میں مدد ملے گی بجٹ میں لفظوں کا کوئی کھیل نہیں کھیلا گیا نہ منی بجٹ آئے گا بجٹ خسارہ 4 فیصد رکھا گیا ہے دالوں  آٹے اور چاول پر سبسڈی ختم نہیں کی ۔ انہوں نے کہاکہ ہم جی ایس ٹی کو 15فیصد سے بھی کم کرنا چاہتے ہیں ایک فیصد کا اضافہ عبوری فیصلہ ہے جو تین ماہ کیلئے ہے بجلی پر سبسڈی پہلے کی طرح برقرار ہے جائیدادوں کی مس ڈکلریشن اہم معاملہ ہے صوبوں کو پراپرٹی ٹیکس میں کمی کرنی چاہیے تاکہ کسی کو جائیدادوں کی قیمت چھپانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا اطلاق خود مختار کارپوریشنوں اور اداروں پر نہیں ہوگا ان کا تنخواہوں کا سٹرکچر اپنا ہوتا ہے البتہ وفاق کے زیر انتظام کارپوریشنوں پر اس کا اطلاق ہوگا ۔ انہوں نے کہاکہ فاٹا اور خیبرپختونخواہ میں دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو اور ترقی کیلئے دو طرح کی امداد آرہی ہے جن میں سے ایک بجٹ میں شامل کی گئی ہے اور دوسری امداد ڈونرز  ورلڈ بینک کے ذریعے استعمال کرینگے اس رقم کے استعمال کیلئے حکومت خیبرپختونخواہ وزیر اعلی امیر حیدر خان ہوتی  ڈپٹی چیئرمین پلاننگ ڈویژن اور وزارت خزانہ کی کمیٹی بنا دی گئی ہے جو منصوبہ بندی کرے گی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ذریعے مالاکنڈ کی تعمیر نو کیلئے دو ارب روپے کی رقم فراہم کی گئی ہے چشمہ لنک کینال کا منصوبہ بھی جاری رہے گا صوبائی حکومت اس کی ڈیزائننگ کررہی ہے ۔

فاٹا کے عوام کو فراہم کی جانے والی بجلی کے بلوں کا خرچہ وفاقی حکومت اٹھا رہی ہے یہ رقم 17 ارب روپے تک بڑھ گئی ہے اگلے بجٹ میں10 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ بجٹ میں کم اور زیادہ آمدنی والے لوگوں کو الگ الگ کرکے کم آمدنی والوں کو ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ صوبوں کو ترقیاتی بجٹ کیلئے 374 ارب روپے دیئے گئے ۔