بچوں کی اموات و ماؤں کی صحت سے متعلق میلنیم ڈویلپمنٹ گولز حاصل کرنے کیلئے مربوط پلان مرتب کیا جائے فہمیدہ مرزا،ترقی یافتہ ممالک اس مقصد کے حصول کیلئے اپنے وعدوں کو پورا اور غیر ترقیافتہ ممالک کے امدادی فنڈز میں اضافہ کریں،اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے تعلیم کو بنیادی حقوق میں شامل کیا گیا پہلی دفعہ اسٹیٹ نے بلا امتیاز تعلیم کی فراہمی کی ذمہ داری قبول کی  سپیکر قومی اسمبلی کا چھٹی خواتین سپیکرز کانفرنس سے خطاب

ہفتہ 17 جولائی 2010 19:28

اسلام آباد(اُردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔17جولائی۔2010ء) سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا ہے کہ بچوں کی اموات اورماؤں کی صحت سے متعلق ملینیم ڈویلپمنٹ گولز(ایم ڈی جی) حاصل کرنے کیلئے ایک مربوط عالمی پلان کی ضرورت ہے  ترقیافتہ ممالک اس مقصد کے حصول کیلئے اپنے وعدوں کو پورا کریں اور غیر ترقیافتہ ممالک کے امدادی فنڈز میں اضافہ کریں ۔

ان خیالات کااظہار انہوں نے چھٹی خواتین سپیکرز کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے ۔ یہ کانفرنس سوئٹزرلینڈ کے شہر برن میں منعقد کی گئی۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ عالمی برادری یکجا ہو کر بچوں کی اموات کی شرح کو کم کرنے اور ماؤں کی صحت سے متعلق ایک مربوط حکمت عملی وضح کرے انہوں نے کہاکہ شرح اموات اور خواتین صحت سے متعلق مسائل کو حل کرنے اور ملینیم گولز حاصل کرنے کیلئے قومی و عالمی سطح پر مناسب فنڈز کے اجراء کو یقینی بنائے جائے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہاکہ غیر ترقیافتہ ممالک اپنے ترقی فنڈز کا ایک بڑا حصہ اپنی سکیورٹی سے متعلق امور پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہاکہ عالمی سطح پر ہونیوالے وعدوں کو پورا ہونا چاہیے اور غیرترقیافتہ ممالک کو دی جانیوالی امداد صرف قرضوں کو اتارنے اورقدرتی طور پر رونما ہونیوالے حادثات یا انسان کے پیدا کردہ کرالیز کے لیے مختص نہیں ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ غیر ترقیافتہ ممالک کو عالمی سطح پر ہونیوالے تنازعات میں اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے انہوں نے عالمی سطح پر تعاون کو بڑھانے اور پارٹنر شپ کی ضرورت پر زور دیا ۔ سپیکر نے کہاکہ دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کئی مسائل کا شکار ہے اور ان حالات میں عالمی برادری کی سپورٹ کے بغیر اس کے لیے میلینم ڈویلپمنٹ گورلز حاصل کرنا بہت مشکل ہے انہوں نے کہاکہ عالمی سطح پر معاشی بحران تیزی سے بڑھتی ہوئی تیل اور غذائی اجناس کی قیمتوں اور عالمی سطح پر کیے گئے امداد کے وعدوں کا پوری طرح نہ ملنے کی وجہ سے صحت تعلیم اور خواتین کی ترقی پر ہمارے بجٹ میں بہت کمی ہوئی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ بہت زیادہ مسائل کے باوجود پاکستان میں جمہوریت مستحکم ہورہی ہے اور صحت کے شعبے میں بھی نمایاں ترقی ہوئی ہے۔ انہوں نے حاملہ خواتین کی زچگی کے دوران شرح اموات جو1990ء میں 100,000 میں550 تھی کم ہو کر2009ء میں250 ہو گئی ہے ۔ نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں بھی نمایاں طور پر کمی ہوئی ہے اور اب پہلے کے مقابلے میں جو 1000 میں سے89فیصد فیصد تھی اب 1000 میں 65ہوگئی ہے خواتین کی شرح خواندگی اور خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام سے متعلق اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ یہ دونوں مسائل کسی بھی ملک کی ترقی پر بڑے گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں انہوں نے کہاکہ غربت اور تعلیم کے ناکافی مواقع کی وجہ سے جلد شادیاں ہونا اور نوعمری میں خواتین کا حاملہ ہونا نہ صرف خواتین کی صحت کو متاثر کرتا ہے بلکہ ملکی وسائل پر بھی بوجھ کا باعث بنتا ہے۔

انہوں نے خواتین اور بچوں کی صحت میں مثبت تبدیلی لانے کیلئے خواتین کی خواندگی کی شرح بڑھانے پر زوردیا ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان میں ایک لاکھ بیس ہزار دیہی خواتین کو تولیدی صحت اور بچوں کی صحت سے متعلق ٹریننگ دی گئی ہے جو گھر گھر جا کر علاج کی سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو صحت سے متعلق مسائل کے بارے میں معلومات بھی فراہم کرتی ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ یہ پروگرام سابق وزیراعظم شہید بینظیربھٹو نے شروع کیا تھا اور اس وقت یہ دنیا میں خواتین کی صحت سے متعلق سب سے بڑا پروگرام ہے جس کے ذریعے خواتین کو بروقت طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اوران کو صحت سے متعلق دیگر امور کے بارے میں بھی آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے آمریت کے دور میں ہونیوالی ترامیم کو ختم کرکے آئین کواس کی اصل روح پر بحال کرکے ایک تاریخی کارنامہ سرانجام دیا ہے سپیکر نے کہاکہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے تعلیم کو بنیادی حقوق میں شامل کیا گیا ہے اور پہلی دفع اسٹیٹ نے بلا امتیاز سب کے لیے تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ میں موجود تمام پارٹیوں کے اراکین پارلیمنٹ پر مشتمل ڈاکٹرز فورم بھی تشکیل دیا گیا ہے۔ سپیکر نے کہاکہ ان کی سربراہی میں پاکستان میں خواتین اراکین پارلیمنٹ کا کاکس تشکیل دیا گیا ہے جس نے ملک میں خواتین کو بااختیار بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے کہاکہ اس کنونشن نے تمام صوبائی اور قومی سطح پر اراکین پارلیمنٹ کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اکٹھے بیٹھ کر امن سکیورٹی اور مفاہمتی پالیسی پر خواتین کے پر اظہار کرسکیں۔