لیبیا،بچوں میں دانستہ ایچ آئی وی ایڈز وائرس منتقل کرنے کے جرم میں طبی عملے کے چھ ارکان کو سزائے موت

منگل 19 دسمبر 2006 23:20

طرابلس (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔19دسمبر۔2006ء) لیبیا میں ایک عدالت نے دانستہ طور پر بچوں کو ایچ آئی وی ایڈز کے وائرس سے متاثرکرنے کے جرم میں طبّی عملے کے چھ افراد کو موت کی سزا سنائی ہے۔بلغاریہ کی پانچ نرسیں اور ایک فلسطینی ڈاکٹر سنہ انیس نناوے سے حراست میں ہیں۔ ان پرسیکڑوں لیبیائی بچوں میں ایچ آئی وی ایڈز کے جرثومے منتقل کرنے کاالزام ہے۔

بی بی سی کے مطابق اس مدت میں کل چار سو چھبیس متاثرہ بچوں میں سے باون بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان افراد کو اس سے قبل بھی موت کی سزا سنائی گئی تھی لیکن سپریم کورٹ نے اس فیصلے پر نظر ثانی کے لیے اسے دوبارہ ذیلی عدالت میں بھیج دیا تھا۔استغثیٰ نے ان مجرموں کے لئے سزائے موت کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایڈز کے مرض کی دوا کی تلاش کی کوشش اور طبّی تجربات کے لیے دانستہ طور پر بچوں کو ایچ آئی وی سے متاثرہ خون دیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

نرس اور ڈاکٹر اس الزام کی تر دید کرتے رہے ہیں۔ انکے وکیل کا کہنا ہے کہ نرسوں کے ہسپتال میں کام کرنے سے پہلے ہی بچے ایڈز کے مرض میں مبتلا تھے۔بلغاریہ کے وزیر خارجہ نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔’ ہم عدالت کے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کر سکتے جس میں اس حقیقت کو نظر انداز کردیا گیا ہے کہ نرسوں کا ایچ آئی وی کے پھیلاوٴ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

بلغاریہ کے سپیکر نے کہا ہے’ ہم سزائے موت کی سخت مذمت کرتے ہیں اور عالمی برادری سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ سختی سے اسکی مذمت کرے اور نرسوں کو رہا کرنے کے لیے لیبیا پر زور دیا جائے۔بچوں کے اہل خانہ نے طبی عملے کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا ہے ۔یورپی یونین کے جسٹس اور سکیورٹی کمشنر فرنکو فراتنی نے کورٹ کے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

مجھے اس فیصلے سے صدمہ پہنچا ہے اورامید ہے کہ لیبیا کے حکام اس فیصلے پر نظر ثانی کرینگے۔ یورپی یونین کے لیے یہ یہ بہت منفی پیغام ہے میں تو یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ انہیں سزائے موت دی جائیگی۔انٹر نیشنل کونسل آف نرسز نے بھی ایک مشترکہ بیان میں اس فیصلے پر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے۔’ اس فیصلے میں ایسے سائنٹیفکٹ حقائق سے چشم پوشی کی گئی ہے کہ ایچ آئی وی کے جرثومے نرسز کے ہسپتال میں کام کرنے سے قبل ہی پھیل چکے تھے۔

متاثرہ بچوں کے اہل خانہ نے سزائے موت کے حق میں مظاہرے کئے ہیں اور اس کے لیے دستخطی مہم بھی چلائی ہے۔ادھر بلغاریہ میں بھی گزشتہ روز نرسوں کی حمایت میں مظاہرے ہوئے ہیں۔بلغاریہ اور امریکہ کی کوشش رہی ہے کہ نرسوں کو چھوڑ دیا جائے۔ اس مسئلہ پر لیبیا، یورپی یونین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی بھی پائی جاتی ہے۔ اسلامی قوانین کے مطابق بچوں کے اہل خانہ دیعت کی شرط پرنرسوں اور ڈاکٹر کو معاف کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے لیبیا نے ایک بچے کے عوض ساٹھ لاکھ ستّر ہزار پونڈ کا مطالبہ کیا ہے۔بلغاریہ اور اس کے حامیوں نے یہ کہہ کر یہ مطالبہ مسترد کر دیا ہے کہ معاوضہ دینے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ قصور وار ہیں۔

متعلقہ عنوان :