توہین عدالت قانون کیس کی سماعت، اسلام میں سارا زور عدل و انصاف اور مساوات پر ہے ، عدل کا مطلب یہ نہیں کہ غریب کو سزا اور امیر کو استثنیٰ ہو، چیف جسٹس، نیا قانون بنیادی حقوق سے متصادم ہے ، مراعات یافتہ طبقے کو استثنیٰ دے کر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی، جسٹس شاکر اللہ جان، کیس کی سماعت کل تک کیلئے ملتوی

منگل 31 جولائی 2012 16:01

سپریم کورٹ میں توہین عدالت کے نئے قانون کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا ہے کہ قانون بنانا پارلیمنٹ اور اسکی تشریح کرنا عدلیہ کا کام ہے ، اسلام میں سارا زور عدل و انصاف اور مساوات پر ہے ، عدل کا مطلب یہ نہیں کہ غریب کو سزا اور امیر کو استثنیٰ ہو۔ توہین عدالت کے نئے قانون کے خلاف درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی۔

وفاق کے وکیل عبدالشکور پراچہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کو آئین کے تحت قانون سازی کا مکمل اختیار ہے ،جس کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا،نئے قانون سے عدلیہ کے اختیارات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ عدالت کے استفسار پر عبدالشکور پراچہ نے بتایا کہ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ قانون اس لئے لایا گیا کہ دوسرا وزیراعظم بھی نہ چلا جائے ، اور یہ کوئی برا مقصد نہیں۔

(جاری ہے)

جسٹس جواد نے کہا کہ وزیر اعظم گیا ہے جمہوری نظام اسی طرح چل رہا ہے ۔ جسٹس شاکراللہ جان نے کہا کہ نیا قانون بنیادی حقوق سے متصادم ہے ، مراعات یافتہ طبقے کو استثنیٰ دے کر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قواعد بنانے کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس نہیں، مفاد عامہ کا ہر معاملہ عدالت لایا جا سکتا ہے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون بنانا پارلیمنٹ اور اسکی تشریح کرنا عدلیہ کا کام ہے ، پارلیمنٹ قانون بنانے کا اختیار ضرورت اور منطق کے مطابق ہی استعمال کر سکتی ہے