جب تک ہمارے رویوں میں تبدیلی نہیں آئے گی انقلاب نہیں آئے گا، یہ تبدیلی نہیں کہ پیپلز پارٹی کے بعد اس جیسی جماعت اقتدار میں آ جائے ، اب تک جاگیرداروں ، وڈیروں اور سرمایہ داروں کا مخصوص طبقہ بھیس بدل کر اقتدار پر قابض چلاآرہاہے ، ہر الیکشن میں باپ کے بعد بیٹا اور منتخب ہوتا آیاہے، آئندہ انتخابات میں ان لوگو ں کا منتخب ہونا بدنصیبی کی بات ہو گی ، کارکن جماعت اسلامی کا منشور لے کر ہر گھر پر دستک دے کر لوگوں کو سمجھائیں کہ وہ آزمائے ہوؤں کو دوبارہ ووٹ نہ دیں ،امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منورحسن کا منصورہ میں پانچ روزہ تربیت گاہ کے آخری سیشن سے خطاب

پیر 15 اکتوبر 2012 19:33

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی این پی۔15اکتوبر ۔2012ء) امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منورحسن نے کہاہے کہ جب تک ہمارے رویوں میں تبدیلی نہیں آئے گی ، انقلاب نہیں آئے گا۔ تبدیلی یہ نہیں کہ پیپلز پارٹی کے بعد کوئی ایسی جماعت برسراقتدار آ جائے جو موجودہ کرپٹ نظام کو مزید آگے بڑھانے کا سبب بنے ۔ اب تک جاگیرداروں ، وڈیروں اور سرمایہ داروں کا ایک مخصوص طبقہ مختلف بھیس بدل کر اقتدار پر قابض چلاآرہاہے ۔

ہر الیکشن میں باپ کے بعد بیٹا اور آگے اس کا بیٹا منتخب ہوتا آیاہے ۔ جمہوریت کے لبادے میں یہ لوگ برطانیہ اور امریکہ کے وفادار ہیں ۔ آنے والے الیکشن میں بھی ان لوگو ں کو منتخب کیا گیا تو یہ بڑی بدنصیبی کی بات ہو گی ۔آئندہ الیکشن میں لوگ دیانت و امانت کے پیکر اور بے داغ کردار رکھنے والے جماعت اسلامی کے نمائندوں کو ووٹ دے کر کامیاب کریں۔

(جاری ہے)

جماعت اسلامی نے اپنے منشور کا اعلان کردیاہے ۔ جماعت اسلامی کے کارکن اس منشور کو لے کر ہر گھر پر دستک دیں اور لوگوں کو یہ بات سمجھائیں کہ آزمائے ہوئے لوگوں کو دوبارہ ووٹ دیے تو کرپشن ، مہنگائی ، بے روزگاری اور امریکی غلامی میں مزید اضافہ ہوگا۔ وہ منصورہ میں جاری پانچ روزہ تربیت گاہ کے آخری سیشن سے خطاب کر رہے تھے ۔ تربیت گاہ میں ملک بھر سے جماعت اسلامی کے سینکڑوں کارکنوں نے شرکت کی۔

سید منور حسن نے کہاکہ تبدیلی انتخاب سے ہی آنی ہے اور آئندہ چند ماہ میں انتخابات ہوتے نظر آتے ہیں ان انتخابات میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ عوام کو سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کرنا ہوگا ۔ انہو ں نے کہاکہ لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہماری انتخابی حکمت عملی کیا ہے ۔انہوں نے کہاکہ الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے بعد ہم اپنی حکمت عملی کا اعلان کریں گے ۔

ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے سوا ہر پارٹی سے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوسکتی ہے ان دونوں جماعتوں کے ووٹر نہ ہمیں ووٹ دیں گے نہ ہمارے کارکن ان کو ووٹ دے سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ کوئی بھی جماعت تنہا الیکشن نہیں جیت سکتی ہر ایک کو کسی نہ کسی جماعت کے ساتھ اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑے گی ۔ سید منورحسن نے کہاکہ ناموس رسالت کے مسئلے کو ٹھنڈا نہیں پڑنے دیناچاہیے ۔

مغرب مسلم دنیا کو بڑی حقارت سے دیکھتاہے کیونکہ انہیں ہر جگہ مسلمانوں کے ہاتھوں شکست اور ہزیمت کا سامناہے ۔ فلسطین میں فلسطینیوں ، افغانستان میں افغانیوں اور کشمیر میں کشمیریوں کے ہاتھوں انہیں ہزیمت اٹھانا پڑی۔امریکہ نے اپنے جدید ہتھیاروں ، جنگی مشینوں اور اتحادیوں کے ساتھ افغانستان پر چڑھائی کی اور ان پر لاکھوں ٹن بارود کی بارش کی گئی لیکن اس کے باوجود انہیں شکست نہیں دے سکااس لیے وہ سخت غصے اور جھنجھلاہٹ کاشکار ہیں اور اپنا غصہ نکالنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کبھی توہین آمیز خاکے بنائے جاتے ہیں اور کبھی فلم کا سہارا لے کر مسلمانوں میں اشتعال پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ مسلمان حکمرانوں کو اس معاملے میں جو کردار ادا کرناچاہیے تھا وہ انہوں نے ادا نہیں کیا جس کی وجہ سے مغرب جری ہوگیاہے ۔ ملالہ یوسف زئی کے بارے ایک سوال کے جواب میں سید منو رحسن نے کہاکہ ملالہ یوسف زئی کے اقوال زریں اب دنیا کے سامنے آ رہے ہیں ۔” اوباما اس کا آئیڈیل ہے ، برقع اس کے نزدیک پتھر کے زمانے کی نشانی اور داڑھی کو دیکھ کر اسے فرعون یاد آجاتا ہے ۔

،،سید منورحسن نے کہاکہ ان کی یادداشت میں ایسا کوئی انفرادی واقعہ نہیں ہوا جس پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ، امریکی صدر اور امریکی وزیر خارجہ تک نے بیانات دیے ہوں اور پوری مغربی دنیا نے اس پر احتجاج کیاہو ۔ انہوں نے کہاکہ مغرب کے نقطہ نظر سے ڈرونز حملوں میں مرنے والے بچے ملالہ کے معیار پر پورا نہیں اترے اس لیے کبھی احتجاج نہیں ہوا ۔

ایک اور سوال کے جواب میں سید منورحسن نے کہاکہ لوگ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایم ایم اے کن پارٹیوں کا نام ہے اور ان میں سے اگر ایک پارٹی بھی نکل جائے تو وہی نتائج نکلتے ہیں جو 2008 ء کے الیکشن میں جماعت اسلامی کی شمولیت کے بغیر نکلے تھے ۔ انہوں نے کہاکہ ایم ایم اے بحال کرنے کی بات کی جاتی ہے تو اس بات کا فیصلہ بھی ہوناچاہیے کہ اسے بے حال کس نے کیا ہے ۔ مولانا فضل الرحمن نے 2008 ء کا الیکشن ایم ایم اے کے نام پر لڑا حالانکہ ایم ایم اے نے تو الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا ۔ مولانا نے اگر الیکشن لڑنا ہی تھا تو اپنی جماعت اور اپنے الگ نشان کے ساتھ لڑتے ۔